یوں تو انسانی سماج دلالوں سے ہر وقت پریشان رہتا
ہے مگر تحریک کشمیر کے دلالوں کی کہانی کئی حوالوں سے انتہائی نرالی ہے ۔دلال
باضمیراور دیانت دار ہوتو اس کے کاروبارپر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا
ہے ،مگر جب معاملہ کسی قوم کا ہومسئلہ سنگین تر ین بن جاتا ہے اس لئے کہ
قوموں کے اجتماعی اور انفرادی مسائل میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے ۔
مسئلہ کشمیر کے ناسور کی کوکھ سے جہاں ’’بدترین انسانی المیہ‘‘ نے جنم لیا
ہے وہی یہ مسئلہ بعض ضمیر فروش افراد اور جماعتوں کے لئے مال کمانے کا
ذریعہ بن چکا ہے ۔تحریک پسند افراد کے لئے شیخ محمد عبداﷲ کو برابھلا کہنا
ایک فرض کی صورت اختیار کر چکا ہے اور ان افراد میں میں خود بھی شامل ہوں
پر جب خود ہماری ذات کی باری آتی ہے تو ہم لیپا پوتی کے حربوں اور ماہرانہ
طریقوں کے ساتھ اپنے متعلق ساری کہانی ہی بدل دیتے ہیں۔ برطانوی سامراج نے
کشمیریوں کو ایک ظالم قوم کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔خریدنے والے کوئی ان پڑھ
یا جاہل لوگ نہیں تھے جموں کے انتہائی بااثر ہندو خاندان نے انسانی جذبات
سے عاری ہو کر جاگیردارانہ سوچ کے تحت پوری قوم کو خرید کر اپنا غلام بنا
لیا اور پھر آسمان نے وہ دن بھی دیکھے جب کشمیر کے انسانوں کے ساتھ اس
سنگدل خاندان نے جانوروں جیسا سلوک کرنا اور کرانا شروع کردیا ۔پوری ایک
قوم کو چند بااثر ہاتھوں میں دیکر سیاسی غلامی کے بعد جسمانی اور ذہنی
غلامی میں پھینک دیا حتیٰ کہ کشمیر کی ایک بڑی آبادی علم اور پر سکون زندگی
کے خواب سے بھی ناآشنا ہو گئی ۔ان ظالموں نے کشمیر ی قوم کو چند جاگیرداروں
اور وڈھیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا جن کی نسلیں آج تک ہمارے سروں پر
کسی نہ کسی شکل میں سوار ہیں ۔جو مظالم مقامی جاگیرداروں نے ڈوگروں کی پشت
پناہی کی بنیاد پر ڈھائے وہ داستانیں سن کر سنگدل سے سنگدل انسان کی روح
بھی کانپ اٹھے گی ۔ایک سو سال تک کشمیر پر حکومت کرنے والے اس دلال خاندان
اور ان کے شریکِ کاروبار برطانیہ کے مظالم کو آج تک کشمیر میں لوگ یاد کرتے
ہیں ۔
ڈوگرہ راج کے خاتمے کے ساتھ ہی قوم کی زمام ’’شیخ عبداﷲ اینڈ کمپنی ‘‘کے
ہاتھ میں آئی انھوں نے تحریک شخصی راج کے خاتمے سے شروع کی جس میں انہیں
حتمی کامیابی ملنے سے قبل ہی صورتحال بالکل الٹ گئی ،تقسیمِ برِصغیر کا
مرحلہ پیش آیا تو کشمیر جیسے راجواڑوں کو بھی اس تقسیم سے دوچار کردیا
گیا،یہی سے کشمیر میں شخصی راج کا خاتمہ تو ہوا مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے
’’باپ دادا کی جاگیر کشمیر‘‘ کو قبائلی حملے کے بہانے اپنے ہم مذہب
’’بھارتی برہمنوں‘‘کے ساتھ الحاق کر کے پھر دلالوں کا رول نبھا کر قومِ
کشمیر کو متاعِ حقیر سمجھ کر فروخت کردیا ۔اس کے بعد یہی رول کشمیر کے شیخ
عبداﷲ، بخشی،صادق،قاسم سے لیکر فاروق عبداﷲ سے ہوتے ہوئے مفتی سعید تک سب
نے نبھایا ۔گویا قوم بکتی گئی ،درجنوں چہرے بدلے مگر ہوا کچھ بھی نہیں
سوائے اس کے کہ ہر نئے آنے والے نے کشمیری قوم کو نئے دلدل اور نئی مصیبت
میں گرفتار کرتے ہو ئے کبھی ایک چیز بیچ ڈالی کبھی دوسری چیز حتیٰ کہ وہ
خصوصی پوزیشن بھی جس کے ہوتے ہو ئے بھارتی ریاست کے ساتھ صرف تین چیزوں کو
لیکر کام کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا، مگر ہوا وہی کہ جو ہر بیچی جانے والی
قوم کے ساتھ ہوتا ہے یعنی بھارت نے ساری چیزیں اپنی اختیار میں لیکر اب صرف
تین چیزیں باقی چھوڑی ہیں ایک یہاں کے زندہ انسان دوم زمین سوم ہوا۔
1987ء کے الیکشن دھاندلی سے جموں و کشمیر کے نوجوان مکمل طور پرپر امن
ذرائع سے مایوس ہو گئے اور انھوں نے 1990ء میں باضابط ’’گوریلا جہاد‘‘ کا
آغاز کیا ۔عسکری تربیت کے حصول کے لئے ہزاروں نوجوانوں نے آزاد کشمیرہجرت
کی ۔جن میں ہزاروں اپنے وطن واپس لوٹے ،ہزاروں نا معلوم مقامات پر دفن
ہوگئے اور ہزاروں لاپتہ ۔پچاس ہزار کے قریب جیلوں سے رہا ہوکر دوبارہ بمشکل
معاشرے میں ایڈجیسٹ ہو گئے ۔مگر جس چیز کو قوم کے لئے بھول جانا ناممکن ہے
وہ ہے ’’ہزاروں دامنِ عفت تارتارشدہ عزت مآب مائیں اور بہنیں،دس ہزار لاپتہ
انسان ،ہزاروں بیوائیں ،لاکھوں یتیم ،ہزاروں جسمانی طور ناخیزنوجوان،ہزاروں
قیدی اور اب سینکڑوں بینائی سے محروم مردو خواتین اور کھروبوں مالیت کی
برباد شدہ پراپرٹی ۔‘‘اور یہ سب اس تحریک کے لئے جس کے لیڈروں کا قوم سے
تقاضا ہے کہ’’ تم قربانی دو ہم آزادی دیں گے‘‘قوم نے ممکنہ حد تک سب کچھ
لیڈروں کی خواہش کے عین مطابق تحریک کے لئے وقف کردیا پر آزادی کا سورج
ابھی تک طلوع نہیں ہوا جس کا قوم کو صدیوں سے انتظار ہے ۔اسی بیچ
شہداء،یتیموں،بیواؤں ،زخمیوں اور قیدیوں کے نام پر کشمیر کے اندر اور باہر
بھارت،پاکستان،ایران حتیٰ کہ عربی ،افریقی،مغربی اور یورپین ممالک تک
دلالوں کی کئی ٹیمیں سرگرم ہوگئیں اور انھوں نے ہمارے شہداء سے لیکر
مجروحین اور نابیناؤں تک’’ کروڑوں درہم و ڈالر‘‘ جمع کر کے عالیشان عمارتیں
تعمیر کیں حتیٰ کہ پاکستان سے لیکر سارک اور مسلم ممالک تک مقرر کردہ ’’
مفت تعلیمی کوٹا‘‘یعنی ایم ،بی،بی،ایس اور انجینئر نگ کی مخصوص نشستیں بھی
نقد رقوم کے عوض غیر مستحق افراد کو بیچ ڈالیں جوشہداءِ کشمیر کے بچوں کے
لئے مختص کی گئی تھیں۔
کشمیر اور آزاد کشمیر کے پہاڑوں سے لیکر وادی کے میدانوں تک کس کس فرد نے
کس کس نام پر کیسی کیسی وارداتیں انجام دے رکھی ہیں ۔کئی خواتین و حضرات نے
مختلف این ،جی ،اُوز کھول رکھی ہیں ،کئی دفاتر کھولے بیٹھے ہیں ،کئی مساجد
سے لیکر بازاروں تک چندہ کر کے دنیا کے مہنگے ترین شہر لندن اور دبئی میں
وسیع جائیدادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔حیرت کی بات یہ کہ بعض
مسلم ممالک کی معروف سرکاری تنظیموں کو بھی بھاری رقوم لیکر چونا لگا دیا
گیااور وہ لوگ نا ہی مطالبہ کر سکے اور نا ہی شکایت !اسلئے کہ پیسہ دیا تھا
دو نمبر طریقہ پر اور چونا لگانے والوں نے بھی دو نمبری طریقہ اختیار کرتے
ہو ئے اس کو دو نمبر طریقہ پر ہضم کر لیا ۔ ۔حیرت یہ کہ کشمیر میں مقیم
لیڈران سے متعلق یہ خودساختہ غیر ملکی سفراء نہ صرف یہ کہ بہت بد ظن ہیں
بلکہ سوشل میڈیا کے سہارے ان کے لیل و نہار وادی کشمیر میں مقیم لیڈران سے
متعلق غلط فہمیاں پھیلانے میں ہی گذرتے ہیں ۔کشمیر کے سوداگروں کی روح فرسا
کہانیاں یو ں توتاریخ کا حصہ بن چکی ہیں مگر’’ انسان خوردیومسئلہ کشمیر‘‘کے
ہوتے ہو ئے ان کا یہ کاروبار جاری و ساری ہے ۔کہنے کو یہ مسئلہ کشمیر اور
مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ ان کے
ہاں یہ صرف ایک دھندہ باقی رہ چکا ہے ترجمانی بس زبانی جمع خرچ ہے ۔مغرب
اور یورپ میں چونکہ ’’انسانی حقوق‘‘کی آڑ میں اس طرح کے پروگرام کرنے اور
این،جی،اُوز چلانے اور تنظیمیں بنانے کی مکمل آزادی حاصل ہے لہذا ان
سوداگروں کی ایک بڑی تعداد انہی ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔حد تو یہ کہ بعض
حضرات کے ’’مالی خورد برد‘‘کے واقعات سے ایک بڑی دنیا واقف ہے ۔اُلٹا چور
کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ان ’’کشمیری سفراء اور ترجمانوں‘‘کے نزدیک کشمیر
کی لیڈر شپ ’’بکاؤ مال‘‘ہے ۔کچھ کے نزدیک یہ پاکستان کے ایجنٹ ہیں اور کئی
انہیں ہندوستان سے لاشوں کے عوض مال وصولنے والے قرار دیتے ہیں اور اس کی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے جڑے یہ ہزاروں سفراء نہ کسی نظم کے
پابند ہیں اور نا ہی ان کی پشت پر کوئی تحریک کھڑی ہے اس لئے کہ ان میں ہر
ایک بزعم خود ایک تحریک اور تنظیم ہے ۔
سوشل میڈیا کی ’’برکت‘‘سے دنیا ایک فون میں سمٹ چکی ہے ان خواتین و حضرات (جن
میں کچھ کشمیری اور کئی آزاد کشمیری ہیں)نے اپنے سمارٹ فونز کی ’’کرامات کے
طفیل‘‘اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بعض معصوم کشمیریوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا
ہے۔سادگی کا عالم یہ کہ چند میٹھے بولوں اور تعریف و توصیف کے بعد’’ کشمیری
مجاہدین‘‘اور حریت پسند لیڈر شپ کے حوالے سے یہ سفراء معصوم کشمیری
نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود ہ کر دیتے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جب
تک موجودہ لیڈرشپ ’’تخت ِ حریت‘‘پر بیٹھی ہے تب تک مسئلہ کشمیر کا حل ہو
جانا خواب ہے ۔آپ ان سے حل پوچھیے تو پہلے ’’ہوں ہاں‘‘پھر سیدھے یہاں تک
ارشاد فرمائیں گے کہ کسی طرح تحریک کو غیر مذہبی بنا دو تاکہ جموں کے ڈوگرہ
اور لداخ کے بودھ شامل تحریک ہو سکیں !اس کے بعد پاکستان کی پالیسی اور اس
کے معاََ بعد پاکستان کے وجود اور دوقومی نظریے پر تنقید و تنقیص کی باری
آئے گی ۔حد یہ کہ ان سفراء میں بعض ’’دین سے ناواقف‘‘ہونے کے باوجود براہ
راست دین کی وہ تعبیر و تشریح کرنے بیٹھتے ہیں کہ عام مسلمان سن کر کانپ
اٹھے۔۔۔ اس لئے کہ انہیں تحریک کشمیر کے مذہبی اور کشمیری رنگ سے ہی چڑ
نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک پوری دنیا میں فتنے و فساد کی جڑ اسلام پسند ہیں
!۔
یہ حضرات مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کروڑپتی بن کر آزاد فضاؤں میں رہ کر
اپنی تندوتیز تنقید کا نشانہ صرف کشمیر کے لوگوں کو بناتے ہیں اور لقمان سے
زیادہ عقل مند ی کے وہم میں مبتلا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر کب کا
آزاد ہو چکا ہوتا اگر اس تحریک کو سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر چلایا جاتا
اور ’’پاکستانی بندوق اور عسکریت‘‘کو تحریک سے الگ کرلیا جاتا ؟آپ پوچھیے
کہ اگر مذہب ہی واحد روکاوٹ ہے تو بھارت کس مذہب دشمنی میں چین کا دشمن
جبکہ امریکہ کا دوست بن چکا ہے ؟آپ کہیے کہ اگر آج بھارت کو ساراسردرد صرف
مذہبی رنگ سے ہے تو شیخ محمد عبداﷲ نا ہی مذہبی انسان تھا اور نا ہی اس کا
سرخ پرچم کسی پاکستان کی ترجمانی کرتا تھا تو پھر بھارت نے اس کو جیل کیوں
بھیجا ؟ اور تو اور شہد مقبول بٹ بھی کسی پاکستان کی تحریک نہیں چلا رہاتھا
۔دورِ حاضر کی خود غرض دنیا کو جب اپنامسئلہ مذہبی رنگ سے حل ہوتا ہوا نظر
آتا ہے تو وہ روس کے خلاف جنگ کو جہاد اور لڑنے والوں کو مجاہدین قرار دیتا
ہے اور تواور اس کو طالبان کی حمایت میں بھی کوئی پریشانی مانع نہیں بنتی
ہے اور جب اس کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ طالبان کو تہہ تیغ کرنے کے
بعد خفیہ مذاکرات کے ذریعہ اپنی جان چھڑانے کی کوششوں میں تمام تر حدود توڑ
دیتا ہے ۔بھارت کو مسئلہ حل کرنے میں مذہب روکاوٹ نہیں بلکہ وہ اس مسئلے کو
فی الحال ہر دو صورتوں میں حل ہی نہیں کرنا چاہتا ہے چاہیے اس کے سامنے
لیڈر شپ مذہبی ہو یا سیکولر ۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بیرونِ کشمیر کشمیری شہداء کی ترجمانی کرنے
والے سبھی دلال ہیں نہیں بالکل ایسا نہیں ہے بلکہ کئی ایسی محترم اور معزز
شخصیات بھی ہیں جن کے رات دن کشمیریوں کے لئے وقف ہیں ۔پاکستان سے لیکر
یورپ ،مغرب،افریقہ اور مسلم ممالک تک ایک اچھی خاصی تعداد بین الاقوامی سطح
پر کشمیر کاز کے لئے سرگرم حضرات کی موجود ہے جن کا نہ صرف کشمیری لیڈرشپ
سے رابط ہے بلکہ وہ حتیٰ الامکان ان کے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ اندرون و
بیرون دونوں محاذوں پر ایک ربط و ضبط قائم رہے ۔ ان میں بہت سوں نے بیرون
ممالک ہجرت کر کے کشمیریوں کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے بلکہ ان میں بہت
سے ایسا امانت دار بھی ہیں۔ جن کی ذاتی زندگی غربت کے تند و تیز تھپیڑوں
میں ہی گذری ہے ۔وہ کشمیری قوم،مجاہدین،لیڈرشپ اور عوام کے مشکلات کاادراک
کرتے ہو ئے پورے احترام کے ساتھ ان کے صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تنقید کرنی ہو یا تجویز بھی دینی ہو تو اس میں
توہین و تحقیر کے بالکل برعکس ان کا دردِ دل نظر آتا ہے اس لئے کہ انہیں اس
بات کا بھرپور ادراک ہے کہ اگر وادی کشمیر اور جموں کے مسلم علاقوں میں یہ
تحریک قائم نہ ہوتی تو نہ مسئلہ کشمیر ہوتا اور نا ہی کشمیر کا کوئی ذکر
سوائے تاریخ کے گمشدہ اوراق میں۔
|