ملک کے حالات انتہائی تشویشناک ہوتے جارہے ہیں ،ظلم و ستم
،نا انصافی اور بربریت کی نئی نئی خبریں روزانہ پچھلی خبروں کو پیچھے
چھوڑرہی ہیں ۔کشمیر میں بھی حالات مسلسل بگڑتے جارہے ہیں اور کوئی ایسی پیش
رفت نہیں نظر آتی جس سے یہ امید بندھے کہ اس تعلق سے حکومتیں سنجیدہ ہیں
اور جلد ہی مسائل حل ہو جائیں گے اور کشمیر میں امن قائم ہوجائے گا ۔ملک کی
ترقیاتی رفتار بری طرح سے ٹھپ پڑگئی ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ اس موضوع
پر نہ تو سرکار کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ان حکام کو جو حکمراں طبقہ کے
ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں ،انہوں نے اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ دیا ہے
تاکہ ان حکمرانوں کی نظر کرم ان پر پڑتی رہے اور نہ صرف وہ اپنے عہدوں پر
برقرار رہیں بلکہ زندگی کے تمام تر سامان تعیش میں ان کا بھی حصہ لگتا رہے
۔فرقہ پرست تنظیمیں جنون کی حد تک سرگرم ہوچکی ہیں ، انہوں نے پورے ملک کو
ایک طرح سے ہائی جیک کرلیا ہے ۔ابھی تک گئورکشکوں کی غنڈہ گردی کی خبریں ہر
طرف سے موصول ہورہی تھیں اب کچھ دنوں سے بھینس رکشک بھی نکل آئے ہیں ،یہ
بھی ان گئورکشکوں کی طرح سفاکی ،درندگی اور حیوانیت کی حدیں پار کرتے جارہے
ہیں ۔گذشتہ دنوں یہ خبریں بیشتر اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں کہ
ہریانہ سے غازی آباد جارہے بھینسوں سے لدے ایک ٹرک کو کچھ غنڈوں نے دہلی
کی کالکا جی نامی بستی میں روک لیا اور ٹرک میں موجود رضوان ، کامل اور
آشو نامی تین نوجوانوں کی زبردست پٹائی کردی ،زخم اتنے شدید تھے کہ انہیں
دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل میںداخل کرنا پڑا ،پولس نے ان کے
خلاف جانوروں کے ساتھ بے رحمی کئے جانے کا معاملہ بھی درج کرلیا ہے ۔ملزمین
ابھی تک فرارہیں مگر وہ جہاں بھی ہوں گے بے فکر ہی ہوں گے ۔یوں تو پورے ملک
میں یہ گئورکشک ہمیشہ سے سرگرم رہے ہیں۔ مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے
بعد ان کی کچھ ہمت بڑھی تھی لیکن اترپردیش میں یوگی سرکارآتے ہی جیسے ان
میں ایک بھونچال سا آگیا ہے ،انہوں نے غنڈہ گردی اور بربریت کا چاروں طرف
رقص شروع کردیا ۔ اب تک ایک درجن سے زائد لوگ ان نام نہاد گئو رکشکوں کے
ہاتھوں تہہ تیغ ہوچکے ہیں ۔
دادری کے محمد اخلاق کے بے رحمانہ قتل سے شروع ہونے والی گئورکشکوں کی
بڑھتی غنڈہ گردی راجستھان کے پہلو خان تک پہنچ کر بھی نہیں رکی اور اب ان
کا تازہ شکار یہ تینوں نوجوان ہیں جنہیں بھینسوں سے لدے ٹرک سے اتار کر بری
طرح لہولہا ن کردیا گیا ،ان کی غنڈہ گردیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ وزیراعظم
اور وزیراعلیٰ تک کو یہ کہنا پڑا کہ یہ گئو رکشک نہیں سماج دشمن عناصر ہیں
ان پر کارروائی ہونی چاہئے ، اس کے باوجود ان گئو رکشکوںکی سرگرمیوں میں
کوئی کمی نہیں آئی ،ان کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ بی جے
پی کواکثریت اور مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی ہم گئو بھکتوں کی وجہ سے ملی
ہے ۔مودی کے دورمیں ایک مخصوص ذہنیت والوںکو آخر کیوں اس قدر چھوٹ حاصل ہے
۔گذشتہ دنوںآگرہ ضلع میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک پولس اسٹیشن پر حملہ
کرکے زبردست توڑپھوڑکی ،پولس گاڑی میں آگ لگادی اور اپنے ساتھیوں کو پولس
حراست سے آزادکرالیا ۔بھگوا تنظیمیں ہمیشہ سے ہی بے لگام رہی ہیں جب مرکز
اور ریاستوں میں سیکولر حکومتیں قائم تھیں اس وقت بھی وہ قانون و آئین کی
دھجیاں اڑاتی رہتی تھیںاور اب تو جیسے انہیں کھلی چھوٹ مل گئی ہے ،انہوں نے
پورے ملک میں ایک طوفان برپا کررکھا ہے ۔ کیونکہ ان کو اچھی طرح اندازہ ہے
کہ ان پر گرفت ہونے والی نہیں ان کی بڑھتی غنڈہ گردی اور مسلسل قانون شکنی
اسی بات کا ثبوت ہے ۔
خوف و دہشت بڑی عجیب چیز ہے ،ملک کی ایک بڑی تعداد آج بھی اس بربریت کے
خلاف ہے لیکن ان کی خاموشی ملک کی سالمیت اور وقار کے تئیں سوالیہ نشان بنی
ہوئی ہےمگر اب ان کے سینوں کی دھڑکنیں بھی بڑھ رہی ہیں اس کا اندازہ دہرہ
دون میں ہونے والے ایک ادبی فیسٹیول سے کیا جاسکتا ہے جس میں شریک ممتاز
ادیب نین تارا سہگل ، نندنا پکسر ، ہرش مندر اور کرن ناگرکر نے کھل کر قوم
پرستی کی مخالفت کی ،سہگل نے کہا کہ جو ملک ۷۰سال سے آزاد فضا میں سانسیں
لیتےہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کررہا ہے ، وہاں اس طرح کی باتیں برداشت
نہیں کی جاسکتیں اور یہ لوگ جو آج قوم پرستی کا نعرہ لگارہے ہیں ان کا اس
وقت کہیں پتہ نہیں تھا جب اس ملک کےرہنے والے سبھی ذات و دھرم کے لوگ کندھے
سے کندھا ملاکر انگریزی سامراج سے لوہا لے رہے تھے ۔ایک خوش کن خبر یہ بھی
ہے کہ راجستھا ن کے ۲۳؍سابق اعلیٰ افسران نے وہاں کی وزیراعلیٰ وسندھرا
راجے سندھیا سے کہا ہے کہ مسلم کسان پہلوخان کو ہلاک کرنے والوں کو گرفتار
کیا جائے اور ان بے لگام گئو رکشکوں کو قابومیں کیا جائے ورنہ ہر طرف تشدد
پھیل سکتا ہے ۔انہوں نے وزیراعلیٰ سے یہ بھی کہا کہ مہلوک کسان کے ورثا کو
ان شدید صدمات سے باہرنکالا جائے ۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ اس جرم میں شریک
ان سارے پولس افسران اور انتظامیہ کے ذمہ داران کو سزائیں دی جائیں ۔
۱۹۶۸کے آئی اے ایس بیچ سے تعلق رکھنے والے ان افسران میں گوپال کرشن
گاندھی ، ارون کمار ، ارونا رائے اور وجاہت حبیب اللہ شامل ہیں جنہوں نے
اپنی عرضی میں کہا ہے کہ پہلو خان کی ہلاکت اور گئو رکشکوں کی بربریت والے
واقعے سے ہم لوگ رنج و غم سے نڈھال ہیں اور سخت تشویش میں مبتلا ہیں ۔ایسے
نازک حالات میں فوری کارروائی نہ کرنے سے منصفانہ حکمرانی اور قانون کی
بالا دستی محض ایک مذاق بن کر رہ جائے گی ۔اگر اس طرح گئو رکشکوں کو آزاد
چھوڑدیا گیا تو ہر طرف بدامنی اور تشد د پھیل سکتا ہے جس پر قابو پانا
انتہائی مشکل ہوگا۔آج ملک کو جس خطرناک فرقہ پرستی کا سامنا ہے اس کے خلاف
دہرہ دون اور راجستھان سے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ملک کے تمام سیکولر طبقات
کو اپنی آوازیں ملا دینی چاہئیں ۔آج وقت کی یہی سب سے بڑی پکار ہے ۔
اٹھووگر نہ حشر نہیں ہوگا اب کبھی ۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا ۔ |