اسلامی سال کاآٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے ۔اس کی وجہ
تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذہے ۔اورتشعب کے معنٰی تفرق کے ہیں۔چونکہ
اس ماہ مقدس میں بھی خیرکثیرمتفرق ہوتی ہے۔نیزبندوں کورزق اسی مہینہ میں
متفرق طورپرتقسیم ہوتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لئے شعبان کہا
جاتاہے کہ اس میں روزہ دارکے لئے خیرکثیرتقسیم ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ وہ جنت
میں داخل ہوتاہے۔ شعبان ایسامہینہ ہے جورحمت وبخشش اورنجات ورہائی کامژدۂ
عام لے کرہماری نگاہوں کاسرمۂ بصیرت بن کرجگمگاتاہے۔ایسے توہرسال وماہ،ہفتہ
ودن،گھنٹہ ومنٹ اورہرلمحہ وساعت خدائے وحدہٗ لاشریک کی بنائی ہوئی
ہے۔مگرکچھ ماہ ،دن،گھڑیاں اورلمحے ایسے ہیں جواپنی یادوں ،خصوصیتوں کے سبب
اوردِنوں سے ممتازوافضل اوردوسری ساعتوں اورگھڑیوں سے مبارک وبہترہوتے ہیں۔
رمضان شریف کامہینہ ،شب قدر،عاشورہ کادن،شعبان المعظم کا مہینہ،شب برأت و
عرفہ کادن،دسویں ذی الحجہ کی شب،محبوب رب العٰلمین کی ولادت باسعادت کی
شب،معراج النبی ﷺ کی مقدس رات،اورعیدین کی راتیں یہ وہ گھڑیاں اوردن وماہ
ہیں جوہم گنہگاروں کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے عطافرماکرہم کواپنی خاص
رحمتوں،عنایتوں اورمہربانیوں سے نوازاہے اوراس لئے تاکہ ہم اِن مبارک اوقات
اورلمحات میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں جن
میں ہماری توبہ قبول ہوں،مرادیں مانگیں تومرادیں پوری ہوجائیں،عبادت وبندگی
،ذکروتلاوت اوردرودشریف کی کثرت سے اپنے خالق ومالک کوراضی کرلیں اوراپنے
گناہ معاف کروالیں ،رب کی رحمتوں اوربخشش کے مستحق ہوجائیں،اوران لمحوں کی
قدرومنزلت پہچانیں ۔اسی لئے ان لمحوں اورمبارک دِنوں اورگھڑیوں کی اہمیت
کواُجاگرکرتے ہوئے اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب ،دانائے خفاء وغیوب ،حضورنبی
اکرم ﷺ کوخطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:وذکرھم بایام اللّٰہ(سورۂ
ابراہیم،آیت۵) ائے محبوب !آپ مسلمانوں کواﷲ کے خاص دنوں کی یاددِلائیں۔
شعبان کے پانچ حروف کی بہاریں: سیدالاولیاء،قطب ربانی،محبوب سبحانی ،شہباز
لامکانی،غوث الثقلین،حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی حسنی حسینی بغدادی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ لفظ ’’شعبان‘‘کے پانچ حروف:’’ش،ع،ب،ا،ن‘‘کے متعلق نقل فرماتے
ہیں :ش سے مراد ’’شرف‘‘یعنی بزرگی،ع سے مراد’’عُلوّ‘‘یعنی بلندی،ب سے
مراد’’بِر‘‘یعنی احسان وبھلائی ،اسے مراد’’الفت‘‘اورن سے مراد’’نور‘‘ہے
تویہ تمام چیزیں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کواس مہینے میں عطافرماتاہے ،یہ وہ
مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،برکتوں کانزول
ہوتاہے،خطائیں مٹادی جاتی ہیں اورگناہوں کاکفارہ اداکیاجاتاہے،اورحضورپاک ﷺ
پردرودپاک کی کثرت کی جاتی ہے اوریہ نبی مختارﷺ پردرودبھیجنے کامہینہ
ہے۔(غنیہ الطالبین،ج۱،ص۳۴۱)
شعبان المعظم میں مندرجہ ذیل مشہورواقعات ہوئے:
(۱)اسی مہینہ کی پانچ تاریخ کوسیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
ولادت مبارک ہوئی۔(۲)اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کوشب برأت یعنی لیلۂ
مبارکہ ہے جس میں اُمت مسلمہ کے بہت افرادکی مغفرت ہوتی ہے۔(۳)اسی ماہ کی
سولہویں تاریخ کوتحویل قبلہ کاحکم ہوا۔پہلے ابتدائے اسلام میں کچھ عرصہ بیت
المقدس قبلہ رہا۔اورپھراﷲ تعالیٰ نے حضورسراپانور،شافع یوم النشورصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق کعبہ معظمہ کومسلمانوں کاقبلہ بنادیا۔اس
وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے نمازاداکرتے ہیں۔(عجائب
المخلوقات،ص۴۷)
شعبان المعظم کے فضائل میں چندحدیثیں ملاحظہ ہوں: شعبان المعظم ایک
ایسامبارک مہینہ ہے جس کے فضائل خودحضورنبی اکرم،نورمجسم،سیدعالم،شافع
اُمم،مالک جنت،مختاردوجہاں ﷺنے اپنی مبارک زبان فیض ترجمان سے فرمایا۔کثرت
سے آقائے دوجہاں ﷺ نے روزے رکھے اورمسلمانوں کوبھی اس کی فضیلت سے آگاہ
کرتے ہوئے اس کی رغبت دلائی،آقاعلیہ السلام نے اس ماہ کواپنامہینہ فرمایاجس
سے اس کی فضیلت کاخوب اندازہ لگایاجاسکتاہے اورآپ ؐ کے پیارے صحابۂ کرام
ؓنے تواس اندازمیں اس مبارک ومسعودمہینہ کااستقبال وخیرمقدم کرتے کہ جیسے
ہی شعبان کاچاندنظرآتاقرآن کریم کی تلاوت میں کثرت سے مصروف ہوجاتے،غریبوں
میں صدقات وزکوٰۃ اورخیرات کرتے۔
(۱) حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول خداﷺ نے
ارشادفرمایاکہ:ترجمہ:رجب اﷲ تعالیٰ کامہینہ ،شعبان میرامہینہ ہے اورمضان
میری اُمّت کامہینہ ہے (کنزالعمال،ج ۱۲،ص۱۳۹)
(۲)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایاکہ:رمضان اﷲ تعالیٰ کامہینہ ہے (اس لئے کہ اپنے محبوب پرقرآن اسی
مبارک مہینہ میں نازل فرمایا)اورشعبان میرامہینہ ہے اورایسامہینہ ہے
جوگناہوں سے پاک کردیتاہے۔اوررمضان گناہوں کومٹادینے والامہینہ
ہے۔(کنزالعمال،ج۸،ص۱۲۷)
(۳)حضرت اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ سے روایت ہے کہ مکی مدنی آقاﷺ نے
ارشادفرمایاکہ: رجب اوررَمضان اُن دوعظمت والے مہینوں کے بیچ ایک ایسامبارک
مہینہ ہے جسے شعبان کہاجاتاہے جس کی فضیلت وبرکت سے لوگ غافل ہیں۔اسی ماہ
میں بندوں کے اعمال اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔اسی لئے میں اس
مہینے میں روزہ رکھناپسندکرتاہوں تاکہ حالت روزہ میں ہی میراعمل میرے
معبودکی بارگاہ میں پیش ہوں۔(درمنثور)
شعبان کامہینہ حضورپاک ﷺ کواتنامحبوب ہے کہ آپﷺ رب کی بارگاہ میں اس کے لئے
دعا کرتے ۔چنانچہ:
(۴)حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کامہینہ
آجاتاتوحضوراکرم ﷺ خدائے رب ذوالجلال سے عرض ودعااس طرح کرتے ’’اﷲم بارک
لنافی رجب وشعبان وبلغنارمضان‘‘ یعنی ائے اﷲ !ہمارے لئے رجب اورشعبان کے
مہینے میں برکت عطافرمااورہمیں رمضان کامقدس مہینہ
عطافرما۔(درمنثور،ج۱،ص۳۳۴-مجمع الزوائد،ج۳،ص۲۵۵)
(۵)حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا:رجب کی فضیلت تمام مہینوں پرایسی ہی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام
آسمانی کتابوں پر۔اورماہ شعبان کی فضیلت دوسرے تمام مہینوں پرایسے ہے جیسے
میری فضیلت وبرتری تمام نبیوں پرہے۔اوررمضان المبارک کی فضیلت تمام مہینوں
پراس طرح ہے جس طرح اﷲ رب العزت کی تمام مخلوق پر۔(غنیۃ الطالبین،ج ۱،ص۱۸۷)
یعنی بعدرمضان تمام مہینوں سے زیادہ فضیلت وعظمت والاشعبان المعظم کامہینہ
ہے جس طرح خداوندقدوس کے بعداس کی تمام مخلوق میں حتیٰ کہ نبیوں میں سب سے
فضیلت ورفعت والامیں ہوں۔
(۶) حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :شعبان کے شروع ہوتے ہی
مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے،اورقرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہوجاتے
اوراپنے مالوں کی زکاۃ نکالتے تاکہ غریب،مسکین اورمحتاج لوگ روزے اورماہ
رمضان بہترطورپرگذارسکیں۔(لطائف المعارف،ص۲۵۸)
(۷)علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب لطائف المعارف میں
فرماتے ہیں:ماہ شعبان میں روزوں اورتلاوت قرآن حکیم کی کثرت اس لئے کی جاتی
ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہوجائے اورنفس
رحمان ورحیم عزوجل کی اطاعت وفرمانبرداری پرخوش دلی اورخوب اطمینان سے راضی
ہوجائے۔مذکورہ تمام احادیث طیبہ سے ماہ شعبان کی فضیلت واضح طورپرثابت ہوئی
اس لئے ہم تمام مسلمانوں کوچاہئے کہ اس ماہ مبارک میں نیک اعمال کی کثرت
کریں۔
شعبان عطاکرنے کی حکمت: شعبان اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کواپنے حبیب پاک
صاحب لولاک ﷺ کے صدقہ میں جوعطافرمایاہے اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تاکہ
مسلمان رمضان کی آمدسے پہلے ہی اپنے دل کوصاف وشفاف آئینہ کی طرح
چمکالیں،اپنے دل کو تمام کدورتوں،بغض وکینہ اورحسدوغیرہ بیماریوں سے پاک
وصاف کرلیں تاکہ رمضان کی برکتوں سے پورے طورپرلطف اندوزہوسکیں۔جیساکہ کشف
الخفاج۲،ص۹؍پرہے کہ حکمافرماتے ہیں :’’ان رجب للاستغفارمن الذنوب وشعبان
لاصلاح القلوب ورمضان لتنویرالقلوب‘‘رجب گناہوں سے مغفرت طلب کرنے کے لئے
اورشعبان دلوں کی اصلاح وصفائی کے لئے ہے اوررمضان دلوں کوجگمگانے کے لئے
ہے۔
روزۂ شعبان کے فضائل: قارئیں کرام! آپ حدیث مصطفی ﷺ کی روشنی میں سماعت
کرچکے ہیں کہ شعبان المعظم نفس کوپاکیزہ گی عطاکرنے والامہینہ ہے ،دلوں
کوطہارت وپاکی اورذہن وفکراوردل ودماغ کوجگمگانے والامہینہ ہے۔اس لئے اس
مبارک ماہ میں ہمیں ہروہ نیک کام کرناچاہئے جس سے دلوں کی صفائی ہو،صدقات
وخیرات ،تلاوت وعبادات ،درودپاک کی کثرت اورکثرت روزہ کے ذریعے اتنی پریکٹس
اورمشق کرلیں کہ آنے والامہینہ یعنی رمضان شریف کاخوش دلی اوردل کھول
کراستقبال کرسکیں اوراس کی برکتوں سے مالامال ہوسکیں۔اسی لئے حضوراقدس ﷺ
شعبان المعظم میں خوب کثر ت کے ساتھ روزے رکھتے۔کیوں کہ روزہ گناہوں سے
بچنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال ہے،شیطان سے مقابلہ کے لئے ایک تیزتلوارہے
اوریہ ایساعمل ہے جس کے اجروثواب کاکوئی اندازہ نہیں لگاسکتاہے بلکہ اس کے
اجروثواب کوخدائے قادروقیوم کے سواکوئی نہیں جانتا۔
چنانچہ :حضورنبی اکرم ،نورمجسم،سیدعالم ﷺ نے ارشادفرمایا:ایساعمل اورکام کہ
جسے ثواب کواﷲ تعالیٰ کے سواکوئی نہیں جانتاوہ روزہ ہے۔(تنبیہ
الغافلین،ص۱۹۳)
(۱)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ شعبان
کاروزہ رکھتے تھے ۔تومیں نے حضورپاک ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیاتوآقاعلیہ
السلام نے فرمایابے شک اﷲ تعالیٰ اس مہینے میں سال بھرتمام مرنے والوں
کانام لکھتاہے تومیں پسندکرتاہوں کہ جب مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بلاواآئے
تومیں اس وقت روزہ کی حالت میں رہوں۔(درمنثور،ج۵،ص۷۴۰)
(۲)حضرت عطاابن یساررضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ شعبان سے
بڑھ کرکسی مہینہ میں زیادہ روزے نہیں رکھاکرتے تھے ۔کیوں کہ اس مہینے میں
زندوں کی روحوں کومردوں میں لکھاجاتاہے،یہاں تک کہ ایک آدمی شادی کرتاہے
جبکہ اس کانام مرنے والوں میں لکھاہوتاہے اورایک آدمی حج کرتاہے اوراس
کانام مرنے والوں کی فہرست میں ہوتاہے۔(درمنثور،ج۵،ص۷۴۰،مصنف ابن ابی
شیبہ،ج ۲،ص۳۴۶)
(۳)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ شعبان
المعظم کے اکثرروزے رکھتے تھے ،یہاں تک کہ اُسے رمضان کے ساتھ ملاتے،شعبان
کے علاوہ کسی مہینے کے اکثرروزے آپ ؐ نہیں رکھتے تھے۔میں نے عرض کی یارسول
اﷲ ﷺ! شعبان کامہینہ روزہ رکھنے کے اعتبارسے آپ کودوسرے مہینوں کی بہ نسبت
زیادہ محبوب ہے؟حضورعلیہ السلام نے فرمایاہاں!ائے عائشہ !کوئی نفس نہیں جسے
اس سال موت آنی ہومگراس کی موت کاوقت شعبان میں لکھ دیاجاتاہے۔میں اس بات
کوپسندکرتاہوں کہ جب میری موت لکھی جائے تومیں اپنے رب کی عبادت اورعمل
صالح میں رہوں۔(درمنثور،ج۵،ص۷۴۰)
(۴)حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ :جوشخص ماہِ شعبان میں ایک
روزہ رکھتاہے وہ جنت میں حضرت یوسف علیہ السلام کاہمسایہ
(پڑوسی)ہوگااوراُسے حضرت ایوب اورداؤدعلیہما السلام جیسی عبادت کاثواب
عطاہوگا۔جوماہ ِشعبان کے مکمل روزے رکھتاہے اﷲ تعالیٰ سکراتِ موت یعنی موت
کی سختیوں سے اُسے نجات عطافرماتاہے اوروہ شخص قبرکی تاریکی اورمنکرونکیرکی
دہشت وہیبت سے محفوظ ہوجاتاہے۔(نزہۃ المجالس،ج ۱،ص۵۶۹)
مذکورہ احادیث مبارکہ سے شعبان کے روزے کی فضیلت واضح طورپرثابت ہوتی ہے
لہٰذاہمیں چاہئے کہ اس ماہِ مقدس میں کثرت سے روزے رکھنے کااہتمام کریں
اورثواب عظیم کے مستحق ہوجائیں۔
آپ ﷺ کے کثرت روزہ کی وجہ : حضوراکرم ،نورمجسم،سیدعالمﷺ شعبان کے مہینے میں
بہت کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے جیساکہ حدیثوں کی روشنی میں آپ سماعت
فرماچکے ہیں۔آخراس کثرت کے ساتھ روزہ رکھنے کی وجہ کیاہے؟توسنئے
!ابوداؤدشریف میں کتاب الصوم کے حاشیہ پراس کی چاروجہیں بیان فرمائی ہیں۔
(۱)مہینہ کے جوتین روزے نفلی ہیں سفروغیرہ کی وجہ سے حضورعلیہ السلام نہیں
رکھ پاتے تھے تووہ روزے اکٹھے ہوجاتے جنہیں حضورﷺ شعبان میں قضاکرتے تھے۔
(۲)ازواج مطہرات اُمہات المؤمنینؓ سے رمضان کے جتنے دن کے روزے فوت ہوجاتے
ان روزوں کی قضاشعبان میں ہی کیاکرتی تھیں توحضورﷺ بھی ان دنوں میں روزے سے
ہوتے۔(۳)چوں کہ شعبان کے بعدرمضان کامہینہ ہے جس میں نفلی روزے نہیں
توگویاحضورﷺ رمضان میں نفل نہ ہونے کے سبب واقع ہونے والی کمی کوشعبان میں
روزے رکھ کرپوری کرتے تھے۔(۴)شعبان کے مہینے میں بندوں کے اعمال خدائے
وحدہٗ لاشریک کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں توحضورپاک ﷺ کویہ بات پسندتھی
کہ جب آپ ؐ کاعمل پیش ہوتواس گھڑی آپ روزے سے ہوں جبکہ لوگ اس ماہ کی فضیلت
سے غافل ہیں۔
نازک فیصلے:پندرہ شعبان المعظم کی رات کتنی نازک ہے! نہ جانے کس کی قسمت
میں کیالکھ دیاجائے!بعض اوقات میں بندہ غفلت میں پڑارہ جاتاہے اوراس کے
بارے میں کچھ کاکچھ ہوچکاہوتاہے۔’’غنیۃ الطالبین ‘‘میں ہے:بہت سے کفن دھل
کرتیاررکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھررہے ہوتے
ہیں،کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کُھدی ہوئی تیارہوتی ہیں مگران
میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں،بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں
حالانکہ ان کی موت کاوقت قریب آچکاہوتاہے۔کئی مکانات کی تعمیرات کاکام
پوراہوگیاہوتاہے مگرساتھ ہی ان کے مالِکان کی زندگی کاوقت بھی
پوراہوچکاہوتاہے۔(غنیۃ الطالبین،ج۱،ص۳۴۸)
محروم لوگ: اس ماہِ مقدس میں ایک ایسی بابرکت رات ہے جسے ہم شب برأت کہتے
ہیں۔ شب براء ت بے حداہم رات ہے،کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ
گزاراجائے،اس رات خصوصیت کے ساتھ رحمتوں کی چَھماچَھم برسات ہوتی ہے۔اس
مبارک شب میں اﷲ تبارک وتعالیٰ’’بَنی کلب‘‘کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ
لوگوں کوجہنم سے آزادفرماتاہے۔کِتابوں میں لکھاہے:’’قبیلۂ بنی کلب ‘‘قبائل
عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتاتھا۔‘‘آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن
پراس شب براء ت یعنی چھٹکاراپانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وعید ہے۔حضرت
سیدناامام بَیْھَقِی شافعی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی’’فضائل الاوقات‘‘میں نقل
کرتے ہیں کہ: رسول اکرم،نورمجسم ﷺکافرمان عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات
بھی بخشش نہیں ہوگی:(۱)شراب کاعادی(۲)ماں باپ کانافرمان(۳)زِناکاعادی(۴)قطع
تعلق کرنے والا(۵)تصویربنانے والااور(۶)چغل خور۔(فضائل الاوقات-ج ۱،ص
۱۳۰،حدیث۲۷،مکتبۃ المنارۃ-مکۃ المکرمۃ)اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ
پائجامہ یاتہبندٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اورکسی مسلمان سے بغض وکینہ
رکھنے والے پربھی اس رات مغفرت کی سعادت سے محرومی کی وعیدہے،چنانچہ تمام
مسلمانوں کوچاہئے کہ مُتَذَکِّرہ گناہوں میں سے اگرمعاذاﷲ کسی گناہ میں
ملوث ہوں تووہ بالخصوص اس گناہ سے اوربالعموم ہرگناہ سے شب براء ت کے آنے
سے پہلے بلکہ آج اورابھی سچی توبہ کرلیں،اوراگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں
توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی کی ترکیب فرمالیں۔
پندرہ شعبان کاروزہ:حضرت سیدناعلی المرتضیٰ شیرخداکرم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ
الکریم سے مروی ہے کہ نبی کریم ،رؤف رَّحیم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم
کافرمان عظیم ہے:جب پندرہ شعبان کی رات آئے تواس میں قیام (یعنی عبادت
)کرواوردن میں روزے رکھو۔بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان
دنیاپرخاص تجلی فرماتاہے اورارشادفرماتاہے:’’ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے
والاکہ اسے بخش دوں!ہے کوئی روزی طلب کرنے والاکہ اسے روزی دوں!ہے کوئی
مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطاکروں !ہے کوئی ایسا!ہے کوئی ایسا!اوریہ اس وقت
تک فرماتاہے کہ فجرطلوع ہوجائے۔‘‘(سنن ابن
ماجہ-ج۲،ص۱۶۰،حدیث۱۳۸۸،دارالمعرفۃ بیروت)
فائدے کی بات:شب براء ت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں لہٰذاممکن
ہوتو۱۴؍شعبان المعظم کوبھی روزہ رکھ لیاجائے تاکہ اعمال نامے کے آخری دن
میں بھی روزہ ہو۔۱۴؍شعبان المعظم کوعصرکی نمازباجماعت پڑھ کروہیں نفلی
اعتکاف کرلیاجائے اورنمازمغرب کے انتظارکی نیت سے مسجد ہی میں ٹہراجائے
تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجدکی حاضری،اعتکاف
اورانتظاروغیرہ کاثواب لکھ دیاجائے۔بلکہ زہے نصیب !ساری ہی رات عبادت
وریاضت ،تسبیحات وتہلیلات اوراورادووظائف میں گزاری جائے۔
سال بھرجادوسے حفاظت: اگراس رات (یعنی شب براء ت)سات پتے بیری(یعنی بَیرکے
درخت)کے پانی میں جوش دیکرجب پانی نہانے کے قابل ہوجائے توغسل کرے ان شاء
اﷲ العزیزتمام سال جادوکے اثرمحفوظ رہے گا۔(اسلامی زندگی،ص۱۳۴)
انتباہ:یہ کس قدرافسوس کا مقام ہے کہ ہم ایسے مبارک مہینے اوراس میں ایک
ایسی معززومقدس شب کی عظمتوں کوپامال کرتے ہوئے لہوولہب اورآتش بازی میں
مصروف رہ کرضائع کردیتے ہیں جبکہ آتش بازی شاہ نمرودکاعمل مردوداوراس کی
ایجادہے،بعض نادان مسلمان اس مقدس رات کاحترام کرناتودورکی بات بلکہ
جومسلمان بیمار،بوڑھے یابچے گھروں میں محوآرام یاخشوع وخضوع کے ساتھ رب
تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوکرعبادت میں مشغول ہوتے ہیں ،اُنہیں آتش بازی
کے ذریے تکلیف پہنچاتے ہیں اوراُن کی عبادت میں خلل کاسبب بنتے ہیں۔ اس لئے
ہمیں ایسے بابرکت مہینہ اورمتبرک ساعت و لمحات میں عبادت وریاضت ،توبہ
واستغفار اورتلاوت قرآن کریم کرکے پروردگارعالم جل جلالہ کی رضامندی حاصل
کرنی چاہئے۔تاکہ رحمت خداوندی کاہمارے اوپرنزول ہوجس کی شان کرم ہمیں
آوازدیتی ہے کہ!
ہم تومائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہروِمنزل ہی نہیں |