سوچئے اور بولئے!


اب اس قوم کو ،بینر وں کی چھپوائی،وال چاکنگ،جلوسوں اور ہڑتالوں سے کچھ وقت نکال کر اپنی حالت پر بھی نظرثانی کرنی پڑے گی، اب اس قوم کو اپنے بارے میں خود ہی سوچنا پڑے گا اور خود ہی بولنا پڑے گا۔کسی بھی قوم کا دماغ اور زبان اس کے دانشور ہوتے ہیں، اب یہ ہمارے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کا دماغ بن کر سوچیں اور زبان بن کر بولیں۔

ہمارے ہاں اپنے آپ کو قوم کا ہمدرد اور سچا پاکستانی لیڈر ثابت کرنے کے لئے سستا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ بینر چھپوائیں،جلسے جلوسوں میں نعرے لگائیں اور لگوائیں،سیمیناروں میں پہلی صف میں بیٹھیں،کسی بھی قسم کی بت پرستی مثلا شخصیت پرستی،تنظیم پرستی اور یا پھر خود پرستی شروع کردیں، ساتھ ساتھ حسب مقدور دوسروں کی عیب اچھالیں، ان کی خامیوں کا ڈھنڈوارا پیٹیں، دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھیں، فلمی اداکاراوں اور مولوی حضرات، سب سے گرما گرم ملیں، عید کی نماز بھی پڑھ لیں اور بھنگڑا بھی ڈال لیں، کسی مسجد اور مدرسے کو باقاعدہ چندہ دینا بھی شروع کر دیں،عید کے دن راستے میں کھڑے ہو کر لوگوں کو عید ی دینا بھی ایک چھا حربہ ہے، یہ سب ہمارے ہاں لیڈر بننے کے آسان اور سستے طریقوں میں سے چند ایک ہیں۔

ہم اگر کچھ دنو ں کے لیےاپنے ہاں گھومیں پھریں تو ہم پر اس بات کا بھی انکشاف ہو گا کہ ہمارے ہاں مساجد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کا بہت شوق ہے۔مسجدوں کی بھرمار کے باعث ہماری قوم کے بعض دردمندتوصرف مال بٹورتےہیں اوریہ مال بغیر کسی حساب کتاب کےاپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد پر خرچ کر دیتے ہیں۔

بعض حلقوں میں تو آمدنی اور خرچ کے حساب کتاب کا نام لینا بھی جرم ہے،اس سے تو ظلِّ الہی کی عظمت کو بٹّہ لگتاہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سارے اداروں میں پیسالینے اور مانگنے کے لئے تو نت نئے سسٹم موجود ہیں لیکن اخراجات کی نگرانی اور آڈٹ کا سوچنا بھی انتہائی نامعقول بات ہے۔

خیر عوام اوررہنماجوکرتے ہیں کرتے رہیں،ہمیں ان سے کیا لینا دینا، ہم نے الیکشن تھوڑے ہی لڑنے ہیں کہ ان سیاسی معاملات میں دخل دیں۔ہمیں تو ہماری اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد سے کام ہے۔بس وہ سلامت رہنی چاہیے۔ویسے بھی ہم میں سے کون ہے جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کے یتیموں کے حال پر کڑھتا ہے۔۔۔کون ہے جو مفلسوں کے غم میں کئی کئی دن کھانا نہیں کھاتا۔۔۔کون ہے جسےملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن ،رشوت ،لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑکے دکھ میں راتوں کو نیند نہیں آتی۔۔۔کون ہے جو فیس نہ ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکنے والے بچوں کے درد میں گریہ کرتا ہے۔۔۔کون ہے جو یتیموں کے گھروں میں رات ڈھلے سب سے چھپ کر کھانا پہنچاتا ہے۔۔۔کون ہے جو مسکینوں کی آہوں کے ڈر سے اپنے بستر پر تڑپتا رہتاہے۔۔۔کون ہے جو اپنی نوجوان نسل کی گمراہی کے باعث لمحہ بھر سکون سے نہیں بیٹھتا۔۔۔ہم میں سے کون ہے جو علامہ اقبال {رح}کی طرح سوچ رہاہے،جمال الدین افغانی کی طرح زندگی گزار رہا ہےاور صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح عفو و درگزر اور بھائی چارے کے راستے پر گامزن ہے۔
جب معاشرے میں اقبال جیسی فکرصحابہ کرام جیسی زندگی،اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسے اہداف اور صدر اسلام کے مسلمانوں جیسےفداکارنہ رہیں تو پھراسلام تختہ مشق بن جاتا ہے، دانشوروں کا اخلاق جاہلوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے،صحافیوں کے قلم نیلام ہونے لگتے ہیں،ادیب ہوا کا رخ دیکھ کر قلم اٹھانے لگتے ہیں،بتکدوں میں اذان کی صدا دب جایا کرتی ہے۔۔۔شہیدوں کے خون کی تجارت ہونے لگتی ہے۔۔۔یتیموں کے اشکوں سے اپنی آتش شکم کو ٹھنڈا کیاجاتاہے۔۔۔لوگوں میں غیرت ،جرات اور قوت گویائی دم توڑ دیتی ہے۔۔۔ اور جہاں پر عوام کو فقط نعروں پر نچایا جاتا ہو وہاں قوم کو بے وقوف تو بنایا جاتا ہے لیکن قوم کی تقدیر نہیں بدلی جاتی۔۔۔

اگر اس قوم کی حالت بدلنی ہے تو پھر قوم کو خود اپنی حالت کے بارے میں سوچنا اور بولنا پڑے گا، پینے کا صاف پانی مانگنا پڑے گا، مریضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالنے والے ڈاکٹروں کو پھانسی گھاٹ تک لے جانا پڑے گا، لیڈروں کے بچوں کی طرح قوم کے بچوں کے لئے بھی بہترین نظام تعلیم کا مطالبہ کرنا پڑے گا ۔

اب اس قوم کو ،بینر وں کی چھپوائی،وال چاکنگ،جلوسوں اور ہڑتالوں سے کچھ وقت نکال کر اپنی حالت پر بھی نظرثانی کرنی پڑے گی، اب اس قوم کو اپنے بارے میں خود ہی سوچنا پڑے گا اور خود ہی بولنا پڑے گا۔کسی بھی قوم کا دماغ اور زبان اس کے دانشور ہوتے ہیں، اب یہ ہمارے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کا دماغ بن کر سوچیں اور زبان بن کر بولیں۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74750 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.