ڈان لیکس کا دوسرا شکار۔طارق فاطمی
کمیٹی کی رپورٹ تاحال پردے میں
*
ڈاکٹر رئیس صمدانی
ڈان لیکس کا آغاز 6اکتوبر2016کو انگریزی اخبار ڈان کے ایک رپورٹر سرل
المیڈا کی خبر سے ہوا ۔ یہ خبر پاکستان کی سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے
قومی راز افشا کرنے کے زمرے میں تھی۔ نیشنل سیکیوریٹی کمیٹی(NSC)کی میٹنگ
میں جو گفتگو ہوئی اس کی رپوٹنگ غلط کی گئی یا خبر من گھڑت تھی ۔ خبر
دھماکہ خیز تھی ۔ اس دھماکہ خیز خبر نے سب سے پہلے وزیر اطلاعات پرویز رشید
کو ان کے قلم دان سے محروم کیا۔ بعد ازاں معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک
کمیٹی جسٹس(ر) عامر رضا کی سربراہی میں قائم ہوئی جس نے مکمل چھان بین اور
تحقیق کرتے ہوئے اپنی رپورٹ تیار کی۔ اس سلسلے میں کمیٹی نے پرویز رشید،
طارق فاطمی جو و زیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور تھے اور راؤ
تحسین جو پرنسپل انفارمیشن آفیسر تھے کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کیا ۔
اپریل کے آخری دنوں میں جب کہ ملک گرمی کی شدید لپیٹ میں تھا ڈان لیک
انکوائیری کمیٹی کی رپورٹDawn Leaks Enguiry Report وزارت داخلہ سے ہوتی
ہوئی وزیر اعظم میاں نواز شریف تک پہنچی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا
جائزہ لینے کے بعد اس رپورٹ کو مشتہر کردیا جاتااسے عوام کے سامنے لایا
جاتا، جیسا کہ کمیٹی کی تشکیل کے وقت کہا گیا تھا ، پھر اس پر عمل درآمد
شروع کیا جاتا لیکن الٹی گنگا بہاتے ہوئے رپورٹ تو پردے میں رہی لیکن بہت
سوں کو علم بھی تھا کہ رپورٹ کیا ہے، پہلے ہی سے یہ خبر گردش کرنے لگی تھی
کہ طارق فاطمی اور راؤں تحسین کو قربانی کا بکرا بنا یا جائے گا۔یہ بالکل
اسی طر ح ہوا کہ جیسے پاناما لیکس کا فیصلہ منظر عام پر آنے سے قبل
متعددلوگ خاص طور پر صحافی حضرات دو تین، تین دو کہتے سنائی دے رہے تھے۔
ڈان لیکس کا پہلا شکار وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب تھے۔ انہیں میاں صاحب
نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوری طور پر برطرف کیا ، ان کا قصور یہ سامنے
لایا گیا کہ انہوں نے اخبار کو یہ خبر شائع کرنے سے قبل روکا کیوں نہیں،
سوال اس وقت یہ پیدا ہوا تھا کہ کیا پرویز رشیدصاحب کو یہ علم ہوگیا تھا کہ
یہ خبر اخبار شائع کر رہا ہے۔سینئر صحافی ادریس بختیار کا کہنا ہے کہ’
انہیں یاد نہیں کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ پریس ایڈوائس کے باوجود کوئی خبر
شائع ہوگئی ہو تو ایڈوائس جاری کرنے والے افسر کو برطرف کر دیا گیا ہو۔یہ
تو اس زمانے میں بھی نہیں ہوا جب ایوب خان کا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس
اپنے پورے جوبن پر تھا‘۔اب سناؤنی یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے پرویز رشید
کو کلین چٹ دے دی ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں کہ متعلقہ وازرت کا وزیر یہ کام
بھی کرے کہ تمام اخبارات اور ٹی وی اینکرز سے پہلے یہ معلوم کرے کہ تم کل
کیا خبر شائع کروگے یا تم رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک کس کس موضوع پر گفتگو
کروگے۔ اگر معاملا یہی ہے تو پرویز رشید صاحب کا اس معاملے سے بری ہونا ان
کا حق بنتا ہے۔ ویسے بھی پاناما لیکس کا فیصلہ جس دن سنا یا جارہا تھا اور
تمام سیاسی لیڈر عدالت کا رخ کرتے نظر آرہے تھے اور وزیر اعظم صاحب اپنے
خاندان اور اپنے خاصم خاص مشیروں کے ہمراہ ایوان وزیر اعظم میں چین و سکون
کے ساتھ محفل سجائے ہوئے تھے ان میں دیگر کے علاوہ پرویز رشید بھی میاں
براداران کے ساتھ موجود تھے۔ یہ عمل ظاہر کررہا تھا کہ پرویز رشید کوڈرائی
کلین کر کے سامنے لایا جارہا ہے اور ڈان لیکس سے انہیں کلین چٹ ملنے جارہی
ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پرویز رشید صاحب میاں براداران کے اس قدر قریب نہ
ہوتے۔
ڈان لیکس کمیٹی کی رپورٹ وزارت داخلہ کے سپرد کردی گئی، وزارت داخلہ نے اس
رپورٹ کو وزیراعظم صاحب کو بھجوادیا ، منظوری اور عمل درآمد کے لیے۔ وزیر
اعظم صاحب اس کا مطالعہ کرتے رہے اور کرتے رہے، اپنے خاص مشیروں سے مشورہ
کرتے رہے۔ اس میں انہوں نے کئی دن لگا دیے۔ جیسا کہ ابتدا میں بات ہوئی تھی
کہ کمیٹی کی رپورٹ کو مشتہر کیا جائے گا تاکہ عوام کے سامنے دودھ کا دودھ
پانی کا پانی سامنے آسکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔حزب اختلاف کی جماعتوں کا بھی
یہی مطالبہ تھا اور عمران خان نے اب بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ نیوز لیکس کی
مکمل انکوائری رپورٹ جاری کی جائے۔ وزیر اعظم صاحب نے اس رپورٹ کو تاحال
سیغۂ راز میں رکھتے ہو ئے بجائے اس کے جیسا کہ چودھری نثار نے اپنی پریس
کانفرنس میں فرمایا کہ وہ نوٹیفیکیشن وزارت داخلہ نے جاری کرنا تھا ، اجلت
اور بے صبری کا مظاہری کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس سے سیکریٹری فواد حسین کی
جانب سے حکم نامہ جاری کردیا گیا جس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق
فاطمی کو ان کے عہدہ سے فارغ اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤتحسین کو
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا کہا گیا، ان کے خلاف 1973رولز کے تحت
کاروائی کی جائے گی، اسی طرح اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل
المیڈا کا معاملہ اے این ایس کے حوالے کیا گیا۔ جیسے ہی یہ نوٹیفیکیشن وزیر
اعظم سیکریٹیریٹ کی جانب سے جاری ہوا عسکری ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے
ٹوئٹ سامنے آیا جس میں اس نوٹیفیکیشن کو مستردکرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ڈان
لیک پر اعلامیہ نا مکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔
اعلامیہ مسترد کیا جاتا ہے‘‘۔ اس ٹوئٹ نے پورے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہل
چل مچادی،بیرونی دنیا میں بھی خوب چرچا ہوا، بھارت تو ہر لمحہ تاک میں رہتا
ہی ہے۔اس نے بھی خوب خوب نمک مرچ لگا کر اس خبر پر تبصرے کیے۔نواز حکومت ہل
کر رہ گئی، حکومتی وزراء اور مشیران ہکہ بکہ کہنا چاہیے کہ ان کے پیروں تلے
زمین سرکتی نظر آئی۔ یہ ٹوئٹ عسکری اور سول انتظامیہ کے ایک پیج پر ہونے کا
واضح ثبوت دے رہا تھا۔حکومت مخالف جماعتوں سیاسی لیڈروں، کالم نگاروں، ٹی
وی ٹاک شو کرنے والوں کے لیے ایسا مواد تھا جس پر دھوم مچ گئی۔ ہر جانب
سناٹا ،حکومتی حلقوں میں خاموشی چھا گئی ، فاطمی صاحب کے جانے کی خبریں تو
پہلے ہی آچکی تھیں، راؤں تحسین کے رخصت ہونے کی اطلاع بھی تھی ، تاریخ کا
ادراک رکھنے والے، جن کا حافظہ تیز ہے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی
حکمرانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے کسی فوجی سربراہ سے تعلقات کبھی اچھے
نہیں رہے۔ نہیں معلومیان صاحب از خود جس کو کسی ادارے کا سربراہ مقرر کرتے
ہیں کچھ عرصہ بعد ہی اس سے تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ آخر ان کی خواہش اپنے
نامذد کردہ لوگوں سے ایسی کیا ہوتی ہیں کہ ان کے تعلقات کسی فوجی سربراہ سے
اچھے نہیں رہے۔ نواز شریف اپنے ہی لوگوں کو قربانی کا بکرابنانے سے کبھی
دریغ نہیں کرتے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں نہ ہی یہ کوئی پہلی یا دوسری
قربانی ہے اس سے قبل کئی نون لیگیوں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے ، مشاہد اﷲ خان
کو قربان نہیں کیا گیا ، رعنا ثناء اﷲ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، پنجاب کے
ایک اور رعنا کی قربانی ہوئی اب پھر سے پنجاب کی کابینہ میں وزیر ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ایسی قربانیاں ہوچکی ہیں۔ حسین حقانی کو قربان
کیا گیا۔ اس قسم کی سیاسی قربانی کا مقصد فوری طور پر آگ پر پانی ڈالنا
ہوتا ہے اوراس عمل سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔آج حسین حقانی اور اس جیسے کتنے ہی
معاملات سرد خانے کی نظر ہوچکے۔ ڈان لیک کی آگ کو فوری طور پر ٹھنڈا کرنے
کے لیے پرویز رشید کو فوری کان پکڑ کے باہر کردیا گیا تھا، اسی طرح میاں
صاحب کے سابقہ اور موجودہ ادوار میں فوج کے سربراہان کے ساتھ کشیدگی تاریخ
کا حصہ ہے۔ اسلم بیگ، جہانگیر کرامت الغرض ہر ایک کے ساتھ میاں صاحب کے
تعلقات کا آغاز تو اچھا ہوتا ہے پھر نہیں معلوم ان کی کیا خواہشات ہوتی ہیں
، اُن سے درپردہ کیا کچھ کرانے کی خواہش رکھتے ہیں کہ اختتام تعلقات کی
خرابی پا ہوتا ہے۔ خیر جناب حکومت کی خاموشی کو وزیر داخلہ چودھری نثار نے
پریس کے سامنے آکر توڑتے ہوئے ٹوئٹ والے دن کو پاکستان کے لیے ایک اور بد
قسمت دن قرار دیا۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ ٹوئٹس جمہوریت کے لیے مہلک
ہیں ، ادارے ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔چودھری صاحب وزیر
اعظم اور وزیر داخلہ مہینوں ملاقات نہ کریں آپس میں بات نہ کریں ، ایسے بھی
تو حکومت اور وزارت چلتی رہتی ہے۔ وزیر داخلہ کا فرمانا تھا کہ فوج کسی بھی
وجہ سے ، درست یا غلط، وزیر اعظم کے 29اپریل 2017کے حکم نامے سے ناخوش
ہوسکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹوئٹ کرنا چاہیے ، جی ایچ کیو کے
لیے بہترین لا ئحہ عمل یہ ہوتا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ کرتے اور
اپنے تحفظات پہنچاتے۔صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب اپنے ہی کابینہ کے
ایک محترم وزیر سے ملاقات نہیں کر رہے تو وہ ایک ادارے کے سربراہ کی بات
سنتے؟ اس موقع پر چودھری نثار نے بعض ٹی وی چینل کو بھی خوب لتاڑا، ان کا
کہنا تھا کہ ان چینلز نے سیاسی افراتفری اور سول و فوج کے درمیان غلط فہمی
کو بھڑ کا یا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا آڈر مکمل طور پر غلط پڑھا
گیا اور غلط سمجھا گیا۔ یہ آڈر نہ تو ڈان کمیٹی کے انکشافات کی عکاسی کرتا
تھا اور نہ ہی عوام کے لیے تھا۔ چودھری صاحب کا فرمانا تھا کہ اس حکم نامے
میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے کمیٹی کی سفارشات منظور کر لی
ہیں اور متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ ان سفارشات پرعمل در آمد کے لیے
ضروری اقدامات کریں‘‘۔ چودھری صاحب نے کس قدر معصوم بن کر حکومت کے اقدامات
کا دفعہ کرنے کی پھر پور کوشش کی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اداروں کو کمیٹی
کی رپورٹ تو جاری ہوئی نہیں اداروں نے عمل پہلے ہی سے شروع کردیا۔ کیا وزیر
اعظم ہاؤس کے سیکریٹری کو طارق فاطمی کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کا اختیار
تھا؟ ابھی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور اس پر عمل درآمد شروع کردینے سے
فوج اور سول حکومت کے مابین کشیدگی ، غلط فہمی کا پیدا ہوجانا قدرتی عمل
تھا۔ اگر رپورٹ منظر عام پر آجاتی پھر کوئی قدم اٹھایا جاتا تو اداروں کے
درمیان غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ سے واضح اندازہ ہوتا
ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں جو سفارشات ہیں وہ مختلف ہیں۔ جب ہی تو
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ڈان لیکس کا نوٹیفیکیشن نا مکمل ہے اس لیے پاک فوج ڈان
لیکس کے معاملے پر اس نوٹیفیکیشن کو مسترد کرتی ہے‘۔ جب ڈان نے خبر لیک کی
تو اجلت میں پرویز رشید کو قربان کر دیا گیا اور اب جب کہ تحقیقاتی کمیٹی
کی رپورٹ پیش کی گئی سابقہ عمل کو پھر دہرایا گیا اور اجلت میں طارق فاطمی
کی قربانی کر دی گئی۔ لیکن یہ معاملہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان
نہیں ، یہ زیادہ خطر ناک معاملہ ہے ۔ وزیر اعظم کو اس کا ادراک کرنا چاہیے۔
فوج سول حکومت کے ماتحت ضرور ہوتی ہے لیکن اس کا اپنا ایک ضابطہ کار ہے وہ
اس کے مطابق چلتی ہے۔ مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ کمیٹی کی مکمل رپورٹ
مشتہر کی جائے اور اس میں جو سفارشات پیش کی گئی ہیں ان پر نیک نیتی سے عمل
کیا جائے۔ بقول ایک سیاسی رہنما ’کچھ لوگوں کو بچانا اور کچھ کو چھپانا
جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے‘، اور نہ ہی یہ اداروں کے حق میں بہتر ہے ۔
(یکم مئی2017) |