پیارے بچو!!ہم سب جانتے ہیں کہ اﷲ کی پیدا کی گئی ہر چیز
ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں ۔دوستو !اگر ہم صرف اپنے جسم کے اعضاء کی بات
کریں تو ہمارے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جسے بے کار سمجھا جاسکے الغرض
ہمارے جسم کاہر ایک عضو ہمارے لیے لازم و ملزوم ہے۔دوستو! اگر ہم صرف آنکھ
کی بات کریں تو آنکھیں ایسی نعمت ہیں جن کے بغیر ہماری زندگی میں رونق
نہیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اِس کائنات میں ہر لحاظ سے بہت زیادہ
ورائٹی پیدا کی ہے۔ اگر پھول ہیں تو رنگ برنگے، اگر پرندے ہیں تو طرح طرح
کے۔ اِسی طرح آنکھوں کی ساخت بھی وہ سب کی ایک جیسی نہیں بناتا اس میں بھی
تنوع پایا جاتا ہے۔
بچو! آنکھوں کی بدولت ہی ہمیں زندگی کی ہر شے خوبصورت محسوس ہوتی ہے۔جیسا
کہ آپ سب سکول جاتے ہیں اور آپ میں سے اکثر چھوٹے بچے سکول جانے کی عمر تک
پہنچنے والے ہیں۔اب سکول میں جب آپ اپنی کلاس میں کسی ایسے بچے کو دیکھتے
ہیں جو بظاہر آپ کے ساتھ پڑھتا اور کھیلتا بھی ہے لیکن اسے وائٹ بورڈیا
بلیک بورڈ صحیح نظر نہیں آتا اور اس چیز کا اس بچے کو بھی معلوم نہیں
ہوتا۔دوستو!!اس طرح کے دوست تو آپ کے بھی ہوں گے۔اگر آپ اس بچے سے کہیں کہ
وہ کلاس میں تیسری یا چوتھی قطار(Row) میں بیٹھ کر وائٹ بورڈ کی طرف دیکھنے
کا کہیں تو آپ کے دوست کو دیکھنے میں دِقّت محسوس ہوگی اور اسے دھندلا سا
محسوس ہوگا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ پڑھنے سے نظر کمزور نہیں ہوتی لیکن پڑھنے
والے بچوں کی نظر کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ جب وہ پڑھائی کرتا ہے
تو اسے دھندلاہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔پس اسے ہی’’ سست نظر‘‘ کہتے ہیں۔
دوستو!!جب کوئی بچہ عمر کے ساتھ بڑا ہوتا ہے تو اُس کے جسم کے سارے اعضاء
میں نمو کے باعث تبدیلیاں آتی ہیں؛ ہاتھ بڑے ہو جاتے ہیں پیر بڑے ہو جاتے
ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اِسی نمو کے نظام کے زیرِ اثر آنکھیں بھی نشوونما کے عمل
سے گزرتی ہیں۔اس نشوونما کے دوران بعض بچوں کی آنکھ کے’’ کرے‘‘ کی لمبائی
نارمل سائز سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہے جبکہ بعض بچوں کی آنکھوں کی لمبائی
مطلوبہ سائز سے چھوٹی رہ جاتی ہے۔اِسی طرح کئی بچوں کے قرنیہ کی گو لا ئی
میں فرق ہو تا ہے۔
پیارے دوستو!!یہ توہم نے آپ کو بتایا کہ آنکھ کی گولائی میں فرق کیسے ہوتا
ہے۔بعض بچوں کی آنکھ کا عدسہ نارمل سائز یا شکل کا نہیں ہوتا۔اِن سب صورتوں
میں آنکھ کا شعاعوں کو فوکس کرنے کا اندرونی نظام صحیح کام نہیں کر پاتا۔
اِن نقائص والی آنکھوں جو تصویر آنکھ کے پردے کے اوپر بنتی ہے وہ دھندلی
سی(آؤ ٹ آف فوکس)ہوتی ہے۔ چنانچہ دماغ کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے
کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔اگر فوکس تھوڑا خراب ہو تو دماغ آنکھ کے فوکس کرنے
کے نظام میں تبدیلیاں لا کر کافی حد تک فوکس کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
لیکن اِس صورتِ حال میں چونکہ لاشعوری سطح پر پٹھوں اور اعصاب کا زور لگ
رہا ہوتا ہے اِس لئے آنکھوں پر دباؤ محسوس ہوتا ہے، سر بھاری ہونے لگتا
ہے،بچہ جلدی تھک جاتا ہے۔اگر دھندلاپن بہت زیادہ ہو یا ایک آنکھ میں بہت
زیادہ ہو تو پھر ایسے بچوں کی ایک آنکھ کام کرنا سیکھ ہی نہیں پاتی جس سے
وہ پوری زندگی کے لئے عملاً ناکارہ ہو جاتی ہے۔ اِس کیفیت کو Amblyopia
کہتے ہیں۔Amblyopia ایسا نقص ہے جسے سست آنکھ یا نظر کے طور پر جانا جاتا
ہے، متاثرہ آنکھ کسی نسخے، eye-glasses یا کانٹیکٹ لینس کے ساتھ بھی عام
بصری معیار کو حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ Amblyopia بچپن اور ابتدائی
بچپن کے دوران شروع ہوتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں اس سے صرف ایک آنکھ متاثر
ہوتی ہے۔
بچو!!جب آپ کو بھی ایسا محسوس ہو تو فورا! اپنے امی ابو کو بتائیں اور کسی
اچھے ڈاکٹر بلکہ آئی سپیشلسٹ سے رابطہ کریں،کیونکہ سست نظر یعنیAmblyopiaکا
واحد علاج عینک لگانا ہے ۔عینک کی وجہ سے نظر زیادہ خراب ہونے سے بچ جاتی
ہے اور ابتدائی مراحل میں مرض کے پکڑے جانے سے سست نظر کی کیفیت سے بچنا
ممکن ہوسکتا ہے
﴿والدین کے لیے﴾
جب یہ بات معلوم ہو جائے کہ بچے کی نظر کمزور ہے تو پھر عینک کے استعمال
میں بے احتیاطی نہیں کرنی چاہیے تاکہ نظر کے مزید کمزور ہونے، سردرد جیسی
علامات اور نئی بیماریوں مثلاً بھینگا پن اور Amblyopia سے بچے کو بچایا جا
سکے۔ اِن تکالیف سے بچے کی پڑھائی کو بھی خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے
اور بچے کی ذہنی صحت کی نارمل گروتھ کے لئے بھی اِن سے بچاؤ بہت ضروری ہے۔
عینک استعمال کرنے سے نہ تو نظر کی کمزوری ختم ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ
ہوتی ہے۔
اصل بات صرف اتنی ہے کہ جن کی نظر کی کمزوری ہلکی مقدار میں ہوتی ہے۔بچہ
لاشعوری طور پر زور لگا کر عینک کے بغیر بھی دیکھ سکتے ہیں اگرچہ اِس سے
اُن کو تکلیف ہوتی ہے لیکن جب عینک کے استعمال سے آنکھیں نارمل ہو جاتی ہیں
تو تکلیف تو ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن اب آسانی سے عینک کے بغیر فوکس نہیں کر
پاتیں جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ اب اُن کی نظر پہلے سے زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔
٭٭٭ |