اتر پردیش میں جس وقت بی جے پی اپنی فتح کا جشن منارہی
تھی نکسلوادیوں نے چھتیس گڈھ میں ایک بڑا حملہ کرکے سی آر پی ایف کے ۱۴
جوانوں کو ہلاک کردیا۔ زعفرانیجیت کی خوشی میں یہ غم کے بادل برسے بنا ہی
ٹل گئے۔ ایک ہفتہ بعد مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ایوان پارلیمان میں
اعلان کیا کہ نکسل زدہ ضلعوں میں بھاری کمی آئی ہے۔ ان کی تعداد ۱۰۶ سے
گھٹ کر ۶۸ پر پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہایہ مسئلہ ختم ہورہا ہے ۔ راجناتھ
جنوری میں یہ اعلان کرچکےتھے کہ نوٹ بندی نے نکسلی آمدنی کو بری طرح متاثر
کیا ہے۔ خفیہ معلومات کے مطابق ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور طاقت کم
ہوگئی ہے لیکن پھر بھی مارچ کا حملہ ہوگیا۔
اس دعویٰ کے ایک ماہ بعد بی جے پی کی مجلس عاملہ کا قومی اجلاس بھونیشور
میں ہونا تھا جس میں نریندر مودی اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک ہونے والے تھے۔
وزیراعظم کی آمد کے خلاف ۳۱ مارچ کو اڑیسہ کے ڈوئی کلوّ اسٹیشن پر ۳۰
نکسلیوں نے دو دھماکے کئے اور اپنا احتجاج درج کرا کے چلے گئے۔ وزیراعظم نے
اپنے دورے کے دوران جلوس نکالا ،جلسہ عام سے خطاب کیا اور لنگ راج مندر میں
پوجا پاٹ بھی کی لیکن نکسلواد ی مسئلہ کو پوری طرح فراموش کردیا نتیجہ یہ
ہوا کہ جس وقت وہ محبوبہ مفتی پر کشمیر کی سنین صورتحال پر محو گفتگو تھے
چھتیس گڈھ میں دوسرا بڑا حملہ ہوگیا اس طرح ۴۰ دن کے اندر نکسلی حملے میں
۴۰ جوان بھینٹ چڑھ گئے اور ۸ لاپتہ ہیں ۔ وزیراعظم صرف یہ کہہ کر دلاسہ دے
رہے ہیں کہ یہ قربانی رائیگاں نہیں جائیگی ۔
اس صورتحال نے سابق ہوم سکریٹری اور بی جے پی رکن پارلیمان پی آر سنگھ کو
یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ زمینی خفیہ معلومات کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ
بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس بابت کوتاہی ہوئی ہے۔سی آر پی ایف کے
سابق سربراہ پرکاش مشرا نے موجودہ حالات کوسرکاری حکمت عملی کی زبردست
ناکامی قرار دیا۔ یہ وہی مشرا ہیں کہ جن کی قیادت میں نکسلی حملوں بڑے
پیمانے پر قابو پالیا گیاتھا ۔ ان کے مطابق حکومتی دستوں کی پیش رفت میں
ایک غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ ہم ہر روز ایک قدم بڑھا کر دوبارہ پیچھے نہیں
آسکتے ۔ اندرونی علاقوں کی صفائی ضروری ہے۔ سی آر پی ایف فی الحال ایک
جزوقتی ڈائرکٹر جنرل سے کام چلا رہی ہے۔ فروری کے اندر درگاپرساد سبکدوش
ہوگئے اور تب سے سدیپ لکھاتیا اس اضافی ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
حکومت کے لیے اترپردیش کے صوبائی انتخابات سے لے کر دہلی کے میونسپل چناو
تک کی اہمیت ہے مگر سی آرپی ایف جیسے اہم دستے کا سربراہ نامزد کرنے کی
فرصت نہیں ہے۔ اگر گزشتہ ماہ کے حملے کی رپورٹ وقت پر آتی اور اس سے سبق
سیکھ لیا جاتا تو اس حملے کو روکا جاسکتا تھا لیکن حکومت کی بیجا
خوداعتمادی اور عافیت پسندی اس راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
نکسلباری تحریک کا آغاز ۱۹۶۷ میں ہوا لیکن ۲۰۰۸ سے اس کی پرتشدد
کارروائیوں میں قابلِ ذکر اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ان چالیس سالوں میں تحریک
کے اثرات ۹ ریاستوں کے ۸۳ ضلعوں تک پھیل چکے تھے اور اپنے زیر اثر علاقوں
میں وہ ایک متوازی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ۲۰۰۹ میں سب سے
زیادہ واقعات ہوئے اور اپریل ۲۰۱۰ میں ان لوگوں نے دانتے واڑہ میں ۷۵ سی
آر پی ایف کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس کے بعد مرکزی حکومت ہوش
میں آئی اور جو اقدامات کئے گئے ان سے ۲۰۱۱ تک ان کے پرتشددحملوں میں ۵۰
فیصد کی کمی ہوگئی۔ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد گذشتہ ماہ حملہ
کرکے ان لوگوں نے جس اسلحہ پر قبضہ کیا تھااس کا استعمال اس مرتبہ کیا گیا۔
اس بار پھر وہ اسلحہ کا بڑا ذخیرہ اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
سی آر پی ایف کا دعویٰ تو ہے کہ انہوں نے بھی کئی حملہ آوروں کو ہلاک کیا
مگر کوئی نکسلی حکومت کے ہتھے ّ نہیں چڑھا یعنی وہ اپنےزخمی ساتھیوں کو بھی
ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے کیا یہ تشویشناک صورتحال نہیں ہے؟
اس سانحہ کے بعد ذرائع ابلاغ میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں جاکر
سرجیکل اسٹرائیک کرنے والوں کو اب کیا ہوگیا ہے؟ اڑی کیمپ سے بڑا حملہ ملک
کے اندر ہوگیا لیکن اس کاانتقام لینے کے بجائےدیش بھکت صرف اظہار افسوس پر
اکتفاء کررہے ہیں ۔ سوکوما حملے کے حوالے سے ٹی وی پر سی آرپی ایف کے ایک
جوان کا انٹرویو نشر کیا گیا ۔ اتفاق سے وہ جوان بھی مسلمان نکل آیا جو
جعلی دیش بھکتوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔شیر محمد نےبتایا کہ حملہ آوروں
کے ساتھ گاوں والے بھی تھے نیز مقامی پولس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی ۔ اس
نے گزارش کی کہ ان کی ہر چھاونی کے ساتھ مقامی پولس کا دستہ بھی موجود ہونا
چاہیے اس لیے کہ اسے مقامی حالات کا بہتر علم ہوتا ہے۔ شیر محمد کی بات بجا
ہے لیکن ممکن ہے مقامی خطرات کا علم ہی پولس فورس کو دور رکھتا ہو ۔
شیر محمد نے پولس پر جو سنگین الزام لگایا اس کا تعلق صوبائی حکومت سے ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مرکز اپنے حفاظتی دستوں کو سڑک بنوانے میں مدد کرنے کے
لیے اجنبی علاقوں میں روانہ کردیتا ہے اور مقامی پولس اس کا تعاون نہیں
کرتی ۔ اس عظیم کوتاہی کے لیے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ طلب کیا جانا چاہیے ۔
وزیراعلیٰ رمن سنگھ کا تعلق اگر حزب اختلاف کی جماعت سے ہوتا تو ممکن مرکزی
حکومت انہیں برخواست کرکے صدر راج نافذ کرنے پر غور کرتی جیسا کہ کشمیر کے
متعلق تجاویز آرہی ہیں لیکن کشمیر میں نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کا لالچ اور
چھتیس گڑھ میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت راستے کو روڑا بنی ہوئی ہے۔
شیر محمد کے بیان کو جس طرح توڑا مروڈا گیا وہ بھی حیرت انگیزہے ۔ سی آر
پی ایف کے جوان نے کہا گھات لگا کر حملہ کرنے والوں کے ساتھ خواتین اور
گاوں والے موجود تھے ۔ اس کا الٹا مطلب یہ نکالا گیا کہ نکسلوادیوں نے گاوں
والوں کو انسانی ڈھال بنایا حالانکہ یہ بات سرے سے کہی ہی نہیں گئی ۔ اس کے
بعد زی ٹی وی نے کشمیر میں حفاظتی دستوں کی جانب سے ایک نوجوان کو جیپ کے
آگے باندھنے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی مذمت شروع کردی اور یہ سوال کیا
گیا کہ اب وہ مخالفت کرنے والے کیوں خاموش ہیں ؟ حکومت کے دستوں کا موازنہ
ایک باغی گروہ سے کرنا سراسر حماقت ہے اس لیے کہ حکومتی دستوں کی بنیادی
ذمہ داری قوانین کا نفاذ ہے ، وہ ازخود ضابطوں کو پامال نہیں کرسکتے۔ ایک
سوال یہ بھی ہے کہ اگرنکسلوادیوں کی یہ حرکت غلط تھی حکومتی دستوں کا ایسا
کرنا کیونکر درست ہوگیا؟ اس معاملے کی آڑ میں جے این یو کے طلباء کو ملوث
کرنا بھی نہایت قبیح فعل تھا ۔
اس میں شک نہیں کہ ۱۰۰ سے زیادہ ہتھیار بند دستے پر ۳۰۰ لوگوں کا حملہ
کردینا اگر بزدلانہ حرکت ہے لیکن اسی کے ساتھ سڑک کے کنارے گئو رکشا بلکہ
بھینسوں کے ساتھ بدسلوکی کے نام پر بے قصور لوگوں پر سیکڑوں لوگوں کا
وحشیانہ حملہ کیا دلیری ہے؟ الور میں نہتے پہلو خان کے بے رحمانہ قتل کی
تعریف و توصیف کیوں ہوتی ہے؟ اس کے قاتل کو سادھوی پراچی نے شہید بھگت سنگھ
کے برابر قرار دے کر کیا آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والوں کی
توہین نہیں کرتی؟ اس کی مذمت زی ٹی وی کیوں نہیں کرتا؟ یہ جعلی دیش بھکت جو
آئے دن گلی محلوں اور شہروں دہشت کردی کرتے پھرتے ہیں نکسلواد سے بھارت
ماتا کی رکشا کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے ؟ سادھوی پراچی انہیں وہاں جانے
کی ترغیب کیوں نہیں دیتیں ؟ یہ جموں میں بنجاروں سے ان کی بکریاں تو چھین
سکتے ہیں لیکن اوپر وادی میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں دکھا تے ۔کیا یہی ہے
ان کی دیش بھکتی اور بلیدان کی شکتی ؟
چھتیس گڑھ کی صوبائی حکومت کے اندر یہ دم خم نہیں ہے کہ گاوں والوں سے
تفتیش کرسکے اس لیے بڑی صفائی سے انہیں حملہ آور بتانے کے بجائے اس کا
شکار قرار دےدیا گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن صوبوں میں نکسلواد کا زور
ہے ان میں سے اکثر میں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے اور وہاں پر بی جے پی کو
خوب ووٹ پڑتے ہیں اس لیے دگوجئے سنگھ نے ۲۰۱۲ کے صوبائی انتخاب کے بعد بی
جے پی پر نکسلوادیوں کے ساتھ ساز باز کا الزام بھی لگایا تھا۔اس بیان کی
سیاست سے قطع نظر اس میں شک نہیں کہ اپنے ووٹ بنک کی خاطر بی جے پی والے
حفاطتی دستوں کا خاطر خواہ خیال نہیں رکھتے اور ان کی موت پر سرکاری خزانے
سے بڑی بڑی رقم کا اعلان کرکےسیاسی مقبولیت بٹورتے ہیں ۔
اترپردیش میں سہارنپور کے اندر رونما ہونے والا واقعہ سنگھ پریوار کی
سرپرستی میں پھیلائی جانے والی دہشت گردی کی دلیل ہے۔ بی جے پی کے مقامی
رکن پارلیمان لکھن پال اور رکن اسمبلی برجیش نےبغیر اجازت امبیڈکر شوبھا
یاتر انکالی اور پولس کے ذریعہ روکے جانے پر۴۰۰ حامیوں کے ساتھ ایس پی لو
سنگھ کے گھر پر ہلہّ بول دیا گیا۔ گھر میں موجود اہلیہ اور بچے ڈر کے مارے
رونے لگے۔ اس بابت جب رکن پارلیمان سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہاب تھا
آئی پی کی بیوی من گھڑت کہانی بنا رہی ہے۔ جھوٹ بول رہی ہے۔ مسلمانوں کی
پتھر بازی سے ایس ایس پی بھاگ گئے ۔ وہ بھگوڑا ہے۔ ہمیں ایسی پولس نہیں
چاہیے جو بھید بھاو کرتی ہے۔ ہم اسی بات کی شکایت کرنے ایس ایس پی کے گھر
گئے تھے ۔ کیا دنیا کے کسی خطے میں کوئی رکن پارلیمان اخبار نویسوں کے
سامنے ڈھٹائی کے ساتھ اس لب ولہجے میں بات کرتا ہے؟ یوگی راج میں ویسے تو
کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے نظم و نسق درست ر ہے
گا؟ جب قانون ساز دستور کو پامال کرنے پر اتر آئیں تواس کی پاسداری کیسے
ہوگی؟افسوس تو یہ ہے کہ دستورہند بنانے والےڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے نام
پر یہ گھناونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
اس معاملے کے پس پشت خالص گھٹیا سیاست کارفرما ہے۔ ۲۰۰۷ سے اس علاقہ میں
شوبھا یاترا پر پابندی ہے ۔ اس سال بھی حسبِ سابق مقامی دلتوں نے امبیڈکر
جینتی کے دن ایک جلسے پر اکتفاء کرلیا لیکن بی ایس پی سے نکل کر حال میں بی
جے پی منسلک ہونے والےاشوک بھارتی نے ایک ہفتہ بعد ۲۰ اپریل کو ایک شوبھا
یاترا کا اعلان کردیا۔ مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان فساد کرواکر اس پر
اپنی سیاسی روٹی سینکنے کیلئے اس جلوس کا انعقاد کیا گیا تھا جسے انتطامیہ
نے ناکام کردیا اورمقامی دلت باشندے بھی اس میں شریک نہیں ہوئے ۔ اس ناکامی
کا غصہ ایس ایس پی پر اتار ا گیا اور اب بی جے پی اشوک بھارتی سے پلہّ جھاڑ
رہی ہے۔ اگر اپنے سیاسی مفاد کی خاطر حفاظتی دستوں کو اس طرح دہشت زدہ کیا
جائے تو ملک میں امن و امان کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟
وطن عزیز میں فی الحال چار قسم کی شورش برپا ہے۔ ان میں سے ایک نکسلوادی
تحریک ہے اس کے علاوہ کشمیر و شمال مغربی علاقوں کی علٰحیدگی پسند تحریکیں
ہیں اور ان سب سے زیادہ خطرناک یرقانی فسطائی دہشت گرد ہیں جو گئو بھکتی کے
نام پر سرگرمِ عمل ہیں ۔ جنوب مشرق میں دہشت گردی پر نظر رکھنے والے ایک
پورٹل کے مطابق ۲۰۰۴ سے ہندوستان کے اندر ۳۹۱۲ حفاظتی عملہ اس کا شکار ہوا
ہے۔ اس میں سے ۱۹۱۴ جوان نکسلوادیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئےجموں کشمیر میں
ہلاک شدگان کی تعداد ۱۳۶۹ ہے جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں یہ تعداد ۶۰۹ ہے۔
یرقانی دہشت گرد چونکہ نہتے عوام کو نشانہ بناتے ہیں اس لیے ان کے ہاتھوں
حفاظتی دستوں کی ہلاکت کا واقعہ سامنے نہیں آیا لیکن حال میں ان لوگوں نے
مقامی رکن اسمبلی ادئے بھان سنگھ کی قیادت میں آگرہ کے صدر بازار پولس
تھانے پر حملہ کرکےاپنے لوگوں کو چھڑانے کی کوشش کی نیز پولس افسر سنتوش
کمار کو زدوکوب کیا۔ یہ واقعہ اس روز رونما ہوا جب اترپردیش کے نئے ڈائرکٹر
جنرل آف پولس سلکھان سنگھ یہ یقین دہانی کرارہے تھے کہ کسی کی غنڈہ گردی
برداشت نہیں کی جائیگی۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے دست راست سلکھان سنگھ اگراپنے
دعویٰ میں کامیاب نہ ہوسکے تو لوگ سوال کریں گے؎
اے مدیر امن تیرے شہر کو کیا ہوگیا
بجھ گئے بازار گلیوں میں اندھیرا ہوگیا |