لیگئے کہتے ہیں کہ ’’الزام خاں‘‘ نے10؍ارب رشوت کے
بارے میں دُر قطنی چھوڑی ہے ۔ وہ خود چین سے بیٹھتے ہیں ، نہ کسی کو بیٹھنے
دیتے ہیں ۔ ایک لیگیابولا کہ کپتان صاحب تو ’’لسوڑھے‘‘ ہیں ، جہاں چمٹ گئے
، چمٹ گئے ۔ لیکن بھئی! ہم اسے دُرفتنی نہیں ، دُرفشانی ہی کہیں گے کیونکہ
انہوں نے یہ بیان دے کر ایسا ’’شگوفہ‘‘ کھلایا ہے جس نے پاناما لیکس اور
ڈان لیکس کو بھی مات دے دی ہے اور اب سارے سیاست دان ہی نہیں میڈیا پر قبضہ
جمائے ’’بزرجمہر‘‘ بھی اس بیان پر تجزیوں تبصروں کی بھرمار کر رہے ہیں۔ کسی
نے جل بھُن کر ’’سیخ کباب‘‘ ہوتے ہوئے کہا ’’یہ دراصل کپتان نے اپنی قیمت
بتائی ہے۔‘‘ تو کسی نے کہا ’’اگر عمران خاں ثبوت لائیں تو یہ پاناما سے بھی
بڑا سیکنڈل بن جائے گا‘‘۔ حمزہ شہباز نے قانونی کارروائی کا اعلان کیا اور
مریم اورنگ زیب نے کہا ’’عمران خاں نے کچرے کی بالٹی اٹھا رکھی ہے‘ جہاں
چاہتے ہیں، گند پھینک دیتے ہیں‘‘۔ عابد شیر علی نے کہا ’’عمران خاں کی دس
ارب روپے کی اوقات ہی نہیں‘‘۔ سابق وفاقی وزیر پرویز رشید بولے’’عمران خاں
سیاسی بیماری ہے۔ چپ رہنے کے لیے کوئی احمق ہی اُسے رقم کی پیشکش کرے گا‘‘۔
رانا ثناء اﷲ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے انتہائی سخت اور غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ
عمران خاں ، راولپنڈی کے شیطان اور مکار مولوی پر ن لیگ دس ارب مرتبہ لعنت
تو بھیج سکتی ہے لیکن انہیں ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتی۔ خواجہ سعد رفیق نے
کہا کہ عمران خاں کو لمبی لمبی چھوڑنے کی عادت ہے۔ وہ دس ارب روپے کے ثبوت
دکھائیں۔
سب سے دلچسپ تبصرہ ہمارے پختون بھائی! اسفندیار ولی نے کیا۔ انہوں نے کہا
’’عمران خاں وضاحت کریں کہ ارب ’’ع‘‘ سے ہے یا ’’الف‘‘ سے۔ غالباً اسفند
یار صاحب کا مطلب یہ ہوگا کہ کپتان صاحب کا کیا پتا کہ وہ کل کلاں ’’یوٹرن‘‘
لیتے ہوئے کہہ دیں کہ انھوں نے تو ’’10؍عرب‘‘ کہا تھا‘ جن کو میاں شہباز
شریف یہ منانے کے لیے بھیجنا چاہتے تھے کہ میں پاناما کیس سے ہاتھ اٹھا لوں۔
جیسے انھوں نے 35؍پنکچروں کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ وہ تو ’’سیاسی بیان‘‘
تھا۔
جب کپتان صاحب سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جو بتلایا وہ کچھ یوں
تھا کہ حمزہ شہباز نے اپنے ایک دوست کو اس پیشکش کے لیے کہا۔ حمزہ شہباز کے
دوست نے دبئی میں عمران خاں کے دوست سے رابطہ کیا جو حمزہ شہباز کے دوست کا
بھی دوست تھا۔ اُسے یہ پیشکش تو بہت پہلے ہوئی تھی لیکن اس نے عمران خاں کو
دو ہفتے پہلے اس کے بارے میں بتلایا۔ جب کپتان صاحب سے اُس شخص کا نام
بتلانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ نام تو نہیں بتا سکتے
کیونکہ وہ کاروباری شخص ہے اور میرا بھی دوست ہے۔ اگر اُس کا نام منظرعام
پر آگیا تو اسے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے لیکن 28 اپریل کو اسلام آباد میں
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کپتان صاحب نے نواز لیگ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا
’’مجھے عدالت نہ بلانا ورنہ وہاں 1o ارب روپے کی آفر کرنے والے کا نام بتا
دوں گا اور رشتے داروں کے نام بھی آئیں گے ‘‘۔ اﷲ کرے کپتان اپنے اِس بیان
پر ڈٹے رہیں اوریوٹرن نہ لیں ۔ پنجاب حکومت نے بھی عمران خاں کو تین دنوں
کی مہلت دے رکھی ہے کہ یا تو 10 ارب روپے کی پیشکش کرنے والے کا نام بتائیں
یا پھر عدالت کا سامنا کریں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یو ٹرن کون لیتا ہے ،
کپتان صاحب یا پنجاب حکومت ۔ بہرحال معاملہ دلچسپ ہو گیا ہے ۔ اب دونوں میں
سے جو بھی پیچھے ہٹے گا ، وہی جھوٹا قرار پائے گا۔
ہمیں تو بہرحال یہ کہانی جھوٹی ہی لگتی ہے کیونکہ اس کا کوئی سر پیر ہی
نہیں۔ بس دوست‘ دوست کی گردان ہی ہے۔ دراصل کپتان صاحب نے ماہر نفسیات بننے
کی کوشش کی۔میرا خیال ہے کہ کپتان صاحب کو یہ مشورہ لال حویلی والے نے دیا
ہوگا کیونکہ ایسے ’’مخلصانہ‘‘ مشورے صرف وہی دے سکتے ہیں۔ انھوں نے تو ایک
دفعہ کپتان صاحب کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ تحریک لاشیں چاہتی ہے۔ اس لیے
اگر کوئی اور لاش دستیاب نہ ہو تو مجھے گولی مار کر لاش اٹھا لو۔
اس کے مشورے کے بعد ہی انھوں نے سوچا ہوگا کہ یہ دُرفطنی چھوڑ دیتے ہیں کہ
حکمرانوں نے پاناما کیس پر منہ بند رکھنے کے لیے انھیں 10؍ارب روپے کی
پیشکش کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے انہوں نے کم رقم کے بارے میں سوچا ہو لیکن
پھر یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ وہ تو ایسے ’’عظیم ترین‘‘ شخص ہیں جنہوں نے
ورلڈ کپ جیتا‘ شوکت خانم جیسا عظیم کینسر ہسپتال بنایا اور نمل یونیورسٹی
بنائی‘ اس لیے انہیں خریدنے کے لیے کم از کم دس ارب روپے سے تو بولی شروع
ہونی چاہیے۔ کیا ہوا جو آج کل وہ ’’یوسف بے کارواں‘‘ ہیں۔ لیکن آنے والے
وزیراعظم تو بہرحال وہی ہیں، اس لیے دس ارب مناسب ہیں۔ اگر پاکستان میں
پانچ‘ دس فیصد نے بھی یقین کرلیا تو بات بن جائے گی کیونکہ یہ تعداد بھی
لاکھوں میں بنتی ہے اور اتنے لوگ تو اب بھی ایسے ہوں گے ہی جو ان کی باتوں
پر یقین کرتے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ اس الزام پر نہ صرف ساری سیاسی جماعتوں
نے شور مچا دیا بلکہ وزیراعظم صاحب نے بھی اُن کے خلاف قانونی کارروائی کا
فیصلہ کر لیا اور خادم اعلیٰ نے تو انتہائی جذباتی انداز میں کہا ’’عمران
خاں نے سیاست کے میدان میں جھوٹ بولنے کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ خدا کی
قسم اگر نیازی صاحب کا لگایا الزام سچ ثابت ہوجائے تو مجھے قیامت تک معاف
نہ کرنا اور اگر ان کا الزام غلط ہو تو عدالت عظمیٰ سے میری دردمندانہ اپیل
ہے کہ وہ پھر صادق اور امین کا فیصلہ کر دے۔‘‘ |