کلبھوشن کی سزائے موت اور ہمارے حکام وسیاستدان

تحریر: قاضی رفیق عالم

مئی کامہینہ آگیا۔۔۔۔۔۔21مئی تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونے یانہ ہونے کا حتمی فیصلہ ہوناہے----------------

1اپریل2017ء وہ یادگاردن تھا جب پاک فوج کے فیلڈجنرل کورٹ مارشل نے بلوچستان'سندھ اور پورے ملک میں دہشت گردی کانیٹ ورک پھیلانے والے ''را'' کے ایجنٹ اور سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کے خونی قاتل اور بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسرنمبر41558Z یعنی کلبھوشن یادیو کا فیلڈ کورٹ مارشل کرتے ہوئے اسے موت کی سزاسنادی۔یہ بدنام زمانہ دہشت گرد گزشتہ سال مارچ2016ء میں بلوچستان کے علاقہ ماشکیل سے پکڑاگیا تھا۔ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد تو اس سے پہلے بھی بہت سے پکڑے گئے جن میں سے اکثر جاسوس خود یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک رہے'ان میں رام پرکاش' سربجیت سنگھ' سرجیت سنگھ' رام راج' بلویر سنگھ اورکشمیر سنگھ شامل تھے لیکن کسی جاسوس کی سزاپرکبھی عمل نہ ہوا۔اب قوم کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیاکلبھوشن کی سزا پر بھی عملدرآمد ہوگا یانہیں۔ پاکستان کی 20کروڑ عوام بہرحال اپنے اس خونی قاتل کی فی الفور اور سرعام پھانسی چاہتی ہے تاکہ آئندہ کسی بھارتی دہشت گرد کوپاکستانیوں کے خون سے کھلواڑ کرنے اور پاکستان میں علیحدگی اور غداری کے بیج بونے کی جرأت نہ ہو۔اہل پاکستان کے ان جذبات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کلبھوشن گزشتہ جاسوسوں اور دہشت گردوں کی طرح کوئی عام جاسوس اور دہشت گرد نہیں بلکہ یہ بھارتی دہشت گردی کے نیٹ ورک کا ایک بڑا سرغنہ اور ماسٹرمائنڈ ہے جسے پاک فوج کے عقاب بڑی مہارت اور محنت سے طویل منصوبہ بندی کے بعد پکڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی گرفتاری اور اطلاعات پربھارت کا پورا نیٹ ورک پکڑاگیااور عزیربلوچ سمیت 400 دہشت گرد ہماری ماہرایجنسیوں نے گرفتارکیے جو بے شمار انسانوں کے قاتل اور کرپشن و قبضہ مافیا کے ماسٹرتھے۔ایرانی اور بھارتی ایجنسیوں سے ان کے خصوصی تعلقات تھے۔بلوچستان کے علیحدگی پسند حربیارمری اور براہمداغ بگٹی سے بھی اس کے رابطے تھے۔یہ بھی یاد رہے کہ کلبھوشن بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کارشتہ دار بھی ہے۔وہی اجیت دوول جو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کاببانگ دہل منصوبہ ساز ہے'پاکستان کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے لیے ایک عرصہ سے ایسے ٹھوس ثبوت کی تلاش تھی جسے کہیں بھی جھٹلایا نہ جاسکے۔کلبھوشن کی صورت میں پاکستان کو اس کی توقع سے بڑھ کر ثبوت ہاتھ آیا۔ اب پاکستان کی محب وطن فوج اور ایجنسیاں اس ثبوت کو کیسے ضائع کر سکتی تھیں۔ یہ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ایرانی پاسپورٹ پرپاکستان داخل ہوا۔ایرانی چاہ بہار بندرگاہ کو اس نے اپنی مستقل قیام گاہ بنایاجہاں وہ بظاہر جیولری کاکاروبار کرتاتھا لیکن اپنے مذموم منصوبوں کے لیے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں کو منظم کرنے کے لیے آتاجاتا رہتا۔اس کے اپنے اعترافی بیان کے مطابق وہ چودہ سال سے اپنے اس مذموم مشن میں مصروف تھا۔کلبھوشن واقعی عام جاسوس نہیں تھا' یہ پاکستان آپریشن کاسربراہ تھا'یہ ''فیلڈآپریٹر'' تھا اور دنیا میں آج تک کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اتنے بڑے انٹیلی جنس آفیسر کو نہیں پکڑسکا۔ہمارے اداروں نے جنرل (ر) راحیل شریف اور جنرل رضوان کی اس معاملے میں خصوصی دلچسپی کی وجہ سے یہ تاریخ بدل دی۔آئی ایس آئی کے لوگوں کو کلبھوشن یادیو کو پاکستان لانے میں ڈیڑھ سال لگ گیا۔آخروہ ایک ٹریپ میں آکر اجیت دوول کے روکنے کے باوجود بلوچستان آنے پرمجبور ہوگیااور یوں ماشکیل میں گرفتارہوگیا۔وہ حسین مبارک پٹیل کے نام سے آیا تھا لیکن اپنی اصل شناخت بتانے پرمجبور ہوگیا کہ وہ بھارتی فوج کاحاضرسروس آفیسرہے کیونکہ اس کے بغیر وہ قانونی مراعات حاصل نہ کرسکتاتھا۔چنانچہ اتنے بڑے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد پاکستانی قوم کابجاطورپر یہ سوال ہے کہ کیا پاک فوج کی اتنی زبردست محنت کو کہیں ضائع تو نہ کر دیاجائے گا۔ پاکستانی قوم کی یہ تشویش اس لیے بھی ہے کہ ماضی میں مشرف دور کے بھارت نواز وفاقی وزیرانصاربرنی نے کشمیر سنگھ جیسے بڑے غدار کو بھی پھانسی کی سزا سے بچاکر پھولوں کے ہار پہناکر ''باعزت'' بھارت رخصت کیا تھا۔اس لیے تو کشمیرسنگھ کو سزائے موت سنانے والی فوجی عدالت کے سربراہ میجرنذیر فاروق کہتے ہیں کہ جب تک کلبھوشن یادیو کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوجاتا 'مجھے اطمینان نصیب نہیں ہوگاکیونکہ بنگلہ دیش کی تشکیل میں مرکزی کرداراداکرنے والے کشمیرسنگھ نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہاتھاکہ میری سنائی ہوئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوگااور وہ زندہ بھارت واپس جائے گا۔آخر وہی ہوا۔کشمیرسنگھ توگھٹیاقسم کا سمگلرتھاجس نے سرحدپار کرنے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے جاسوسی کی تربیت لی اور پاکستان توڑنے میں اہم کرداراداکیاجبکہ کلبھوشن یادیو تو بھارتی بحریہ کامایہ ناز کمانڈرہے جس نے رضاکارانہ طورپر بلوچستان کوپاکستان سے چھیننے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔اسے رہاکرانے کے لیے مودی اوراس کے تخریب کار مشیر سردھڑکی بازی لگادیں گے اور انہوں نے اپنے عزائم کا اظہارکربھی دیاہے۔

بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کلبھوشن کی رہائی کے لیے ہر حدتک جائیں گے۔بی جے پی کے ایک بڑے رہنما سبرامینیم سوامی نے کہاکہ اگرپاکستان نے کلبھوشن کو تختہ دار پر لٹکایاتو بھارت کو بلوچستان کو ایک علیحدہ ملک کے طورپر تسلیم کرلیناچاہیے' اگر پاکستان نے اس کے بعد بھی کوئی ایسی حرکت کی توسندھ کو بھی پاکستان سے الگ کردیناچاہیے۔ غرض بھارتی حکام اور سیاستدانوں کے عزائم تو پہلے بھی کبھی ڈھکے چھپے رہے نہ اب ہیں۔کراچی 'بلوچستان کے بارے میں ان کے مکروہ عزائم کایوں ایک اور ثبوت بھی خود انہی کی زبانی سامنے آگیا۔کلبھوشن کو بھارت کابیٹاقرار دے کر بھارتی وزیرخارجہ نے گویا مان لیاکہ یہ دہشت گرد بھارت کاریاستی اور سرکاری دہشت گرد ہے کیونکہ وہ حاضرسروس جنرل ہے۔اب بھارت کو بتانا پڑے گا کہ کلبھوشن اگرریاستی دہشت گردنہیں تو پھراس کے پاس ایرانی اور بھارتی دو پاسپورٹ کیوں تھے؟اور اس نے جعلی نام حسین مبارک پٹیل کے نام سے کیوں پاسپورٹ رکھاہواتھا؟اس طرح بھارت کا یہ مطالبہ بھی ھباء منثورا ہو چکا ہے کہ اسے کلبھوشن تک قونصلر رسائی دینی چاہیے۔پاکستان نے بجاکہاکہ ایک جاسوس کے لیے کبھی کوئی ملک قونصلر رسائی نہیں دیتا۔پھر خود بھارت نے کبھی معمولی کیسوں کے لیے بھی پاکستان کو قونصلر رسائی نہ دی تو کلبھوشن کے لیے کیوں؟اگر بھارت نے سانحہ مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کے بڑے ملزم اور بھارتی فوج کے سرونگ کرنل پروہت تک تفیش کی غرض سے پاکستان کو رسائی نہیں دی 'بمبئی حملوں کا اجمل قصاب کے ذریعے ہم پر ملبہ ڈال کراس تک بھی پاکستانی تفتیشی ٹیم کو نہیں پہنچنے دیا اور اسے پھانسی پرلٹکادیا'اسی طرح پارلیمنٹ پرحملے کے الزام میں گرفتار کیے گئے کشمیری حریت لیڈر افضل گورو کو بھی بھارت نے جھٹ پٹ جیل میں مقدمہ چلا کر موت کی سزا دی اور راتوں رات اس کی سزا پر عملدرآمد بھی کردیااور وہ بھی کسی ٹھوس ثبوت اور گواہی کے بغیر۔دلیل صرف یہ دی گئی کہ بھارت کی جنونی انتہا پسند اکثریت کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ضروری تھا ' یہ ہے بھارت کاانصاف۔تو سوال یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کے خلاف تو ٹھوس ثبوت ہیں 'وہ خود اعترافی بیان بھی دے چکا ہے تو پھراسے کوئی رعایت کیوں دی جائے بلکہ اہل پاکستان سمجھتے ہیں کہ کشمیری لیڈر افضل گورو کاحساب چکانے کے لیے بھی کلبھوشن کی پھانسی ضروری ہے تاکہ اہل کشمیر کے سینے بھی ٹھنڈے ہوں اور انہیں بھی کوئی سکون حاصل ہو کہ ان کے قاتل اوردہشت گرد بھارت کا کوئی دہشت گرد بیٹابھی پھانسی چڑھا۔یہ توسب اہل پاکستان کی تمنائیں ہیں۔پاک فوج نے بھی عوام کی انہی امنگوں کو سمجھ کر ہی دہشت گرد کلبھوشن کو سزائے موت سنائی ہے۔مسئلہ صرف ہمارے حکمران ہیں جن کے لبوں پر آج بھی کلبھوشن کانام نہیں آسکا۔وزیراعظم نے اگرچہ آرمی چیف کے ساتھ مل کر بھارت کو یہ پیغام دیاہے کہ وہ اس مسئلے پرکسی دباؤ میں نہیں آئیں گے لیکن وزیراعظم نے الگ طورپر یااپنی کابینہ کے اجلاس میں کلبھوشن کاذکرتک نہیں کیااورصرف حکمران ہی کیا' ہمارے دوسرے سیاستدان بھی اس معاملے میں مجرمانہ حدتک بھارت کو رعایت دیتے نظر آرہے ہیں۔عمران خان اپنی کرسی کے لیے تو نواز شریف کی کرپشن معاف کرنے کے لیے تیارنہیں لیکن بھارت کے معاملے میں وہ بھی گونگے بن جاتے ہیں۔ بھارت آئے روز کشمیریوں کی لاشیں گرارہاہے' وہاں ہر شہید کولاکھوں کشمیری عوام بھارتی سنگینوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں'اب کشمیرکے ضمنی الیکشن میں بھی 93فیصد سے زائد کشمیریوں نے ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر بھارت کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے لیکن کشمیر جیسے پاکستان کے اہم ترین مسئلے کے لیے عمران خان اور زرداری سمیت کسی سیاستدان کے پاس بھارت کی مذمت کے لیے ایک بیان دینے کا بھی وقت نہیں'ایسے میں یہ تمام سیاستدان اورحکمران کلبھوشن کاذکر کیسے کریں گے اور اسے کیفرکردار تک پہنچانے میں کس قدر اپناکرداراداکریں گے'اس پر پاکستانی قوم یقینا بڑی تشویش میں مبتلاہے اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کا اس مسئلے پر یہ گونگا پن کیسے ختم ہوگا؟
ہونٹوں پر کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی' برسرِ الزام ہی آئے

بھارتی حکام نے کلبھوشن کے مسئلے پر جو ہر حد تک جانے کااعلان کیاہے'اس کاتقاضاہے کہ ہمارے سیاستدان بالخصوص حکمران قومی وملی مسائل کو پہلی ترجیح دے کر اپناکردارادا کریں ، بھارت کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں اور بھارت کی سازشوں کا صحیح جواب ہے کہ کلبھوشن اور عزیربلوچ جیسے ملک دشمنوں کو فوری طورپر کیفرکردار تک پہنچایاجائے اور ملک وملت اور انسانیت کے خیرخواہ اور کشمیریوں کے وکیل پروفیسرحافظ محمدسعید حفظہ اﷲ اور ان کے رفقاء کو فی الفور رہاکیاجائے۔اس پالیسی پر چل کر ہی ملک مضبوط ہوگااور دشمن کے عزائم نیست ونابود ہوں گے۔ ان شاء اﷲ-
اﷲ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.