بلاتعطل فراہمی؛
قوم یہ خبر پڑھ کر خوشی سے لوٹ پوٹ ہو جاتی کہ وزارتِ بجلی و پانی نے رمضان
اور گرمیوں کے مہینوں میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بس
حکومت سے ایک معمولی سا مطالبہ کیا ہے، کہ صرف ایک سو بیس ارب روپے وزارت
کو عنایت کر دیئے جائیں، یعنی اتنی چھوٹی سی شرط پر بجلی بحال ہو سکتی ہے۔
دراصل حکومت کی اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں، اگر اتنی خطیر رقم حکومت نے
بجلی کے محکمہ کو دے دی تو حکومت کے اپنے روز وشب کیسے گزریں گے؟ وزیراعظم
نے آنے والے الیکشن کے لئے مہم کا آغاز کر رکھا ہے، آئے روز جلسوں سے خطاب
کرنا ہوتا ہے، جلسوں میں آمدورفت، اتنظامات وغیرہ کے علاوہ وہاں اعلان کئے
گئے اربوں کے منصوبوں کے لئے بھی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی آئینی مراعات
کے لئے بھی کچھ اخراجات اٹھ جاتے ہیں، پروٹوکول کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے،
کچھ میگا پراجیکٹس بھی بروئے کار ہیں۔ کبھی صحت وغیرہ کی خرابی کی صورت میں
باہر جا کر علاج وغیرہ کے معاملات بھی پیش آسکتے ہیں، اس مد میں بھی رقم
بچانی ہوتی ہے۔ چنانچہ بجلی کے لئے پیسے کہاں سے دیئے جائیں؟
وزارت کی درخواست سے یہ راز بھی فاش ہوتا ہے کہ پیسے خرچ کرنے سے بجلی
آسکتی ہے۔ یعنی اگر بجلی کی پیداوار موجود ہی نہیں، تو ایک سو بیس ارب
لگانے سے بجلی کہاں سے آئے گی؟ اگر پیسے لگانے سے بلاتعطل بجلی فراہم ہو
سکتی ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ حکومت بجلی بند کرکے بدنامی کیوں کما رہی ہے
او رعوام کو خوار کس لئے کر رہی ہے؟ اور بجلی کے وزراء تو قوم کو یہی بتا
رہے ہیں، کہ جہاں بجلی چوری ہوتی ہے، لوڈشیڈنگ صرف وہیں ہو رہی ہے۔ اب یہ
حکومت کا کام ہے کہ وہ مذکورہ وزات کا مطالبہ پورا کرکے قوم کو خوشی سے لوٹ
پوٹ ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے، یا یہ معاملہ مجبوریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
افتتاح کٹائی گندم؛
گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اوکاڑہ تشریف لے گئے ، وہاں
انہوں نے جلسہ سے خطاب کرنا تھا ، اس موقع پر ان کے لئے گندم کی کٹائی کے
افتتاح کا ایونٹ بھی رکھا گیا تھا۔ اپریل کی آخری سے پہلی تاریخ یہ افتتاح
ہوا، جبکہ پنجاب میں نوے فیصد سے زائد گندم کاٹی اور گاہی بھی جاچکی ہے،ا ب
تو یہ کام مشینوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر اس موقع پر یہ کہا جاتا کہ
وزیراعظم گندم کی کٹائی کے افتتاح کے لئے نہیں بلکہ اختتام کے لئے آئے تھے
تو زیادہ درست ہوتا۔ بے موسمی پھل حیرت کا باعث تو ہوتا ہے، اور بڑے لوگوں
کا نخرا وغیرہ بھی، مگر اس میں وہ ذائقہ نہیں ہوتا، جو موسمی پھل میں ہوتا
ہے۔ اسی طرح بے موقع کام تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ تنقید کا
نشانہ بنتا ہے۔ مگر حکمران چونکہ طاقتور لوگ ہوتے ہیں، جنگل کے بادشاہ ہوتے
ہیں، اور جنگل کا بادشاہ بچے دے یا انڈے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال
وزیراعظم نے درانتی سے روکی گئی گندم کے چند خوشے کاٹ کر دستِ مبارک سے
سیزن کا اختتام کر دیا اور خوشے ساتھ موجود ممبر قومی اسمبلی کو تھما دیئے۔
وہ یقینا اسے اپنے ڈرائینگ روم میں سجائیں گے، اور ساتھ ہی خوشوں کی تاریخ
بھی لکھی جائے گی۔ انہی معزز ممبر قومی اسمبلی نے اسی دورے میں وزیراعظم کو
قیمتی گھوڑا بھی تحفہ میں دیا۔ گھوڑے تو زرداری صاحب کو زیادہ پسند ہیں،
میاں صاحب کے لئے تو شیر حاصل کیا جاتا تو بات تھی۔
ٹوئیٹس نہیں مشاورت؛
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نیوز لیکس میں حکومت نے جو کچھ کرنا تھا کر
دیا ہے، تاہم حکمرانوں کو ٹوئیٹس سے زیادہ مشاورت کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ابھی
تو گزشتہ دنوں ہی ایک وفاقی وزیر نے استعفیٰ دیا ہے، جس میں باقی باتوں کے
ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم وقت نہیں دیتے۔ وزیراعظم سے یہ شکایت
تو دیگر اتحادی سیاستدانوں کو بھی تین دہائیوں سے چلی آرہی ہے، میاں صاحب
کی یہ عادت بہت پختہ ہے، اس میں تبدیلی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے، (کسی
مجبوری میں یہ کام کرنا پڑے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا)۔ مولانا چونکہ مستقل
بنیادوں پر حکومتی اتحادی ہوتے ہیں، آجکل میاں صاحب کے ساتھ ہیں، انہیں
چاہیے کہ ٹویٹ پر ہی گزارہ کریں، مشاورت کا یہاں رواج کم ہی ہے۔
|