آزادکشمیر اسمبلی کے اندر باہر کشیدگی اور صحافتی سانحہ

آزادکشمیر اسمبلی کے اندر باہر کشیدگی اور صحافتی سانحہ

پاکستان کے سیاسی ماحول کے اثرات آزادکشمیر میں دکھائی دینا فطری سی بات ہے وہاں انتخابات کی طرف بڑھتے حالات اور سیاسی گہما گہمی کا یہاں کی قیادت کا حصہ بننا لازمی امر ہے کیونکہ عوام قومی جماعتوں کے ساتھ ہیں اور قومی جماعتوں کی یہاں لیڈر شپ ہو یا کارکن سب نے اپنی اپنی جماعتوں کی پالیسیوں کے مطابق ہی اپنے خیالات سرگرمیوں کا اظہار کرنا ہوتا ہے جسکا منظر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں بھی دیکھنے میں آیا اور وزیراعظم فاروق حیدر سمیت لیگی ممبران کی طرف سے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف پر پانچ اعتماد کی قراردادوں کے معاملے پر اپوزیشن کے ردعمل اور حکومت کی جانب سے جارحانہ انداز کے باعث گرما گرمی رہی وزیراعظم پاکستان کی شان میںقرارداد یں انکی جماعت کے پارلیمانی لیڈر فاروق حیدر کا اپنے لیڈر سے اخلاص وفا شعاری کااظہار تھیںتو اپوزیشن کا ردعمل انکا اپنا موقف تھا جو سیاسی اختلاف رائے کا حسن ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے بائیکاٹ کرنا پارلیمانی نظام کی روایات کا حصہ ہے جو تمام ترقی یافتہ ممالک سے لیکر ترقی پذیر ممالک کی اسمبلیوں میں ہوتا ہے بلکہ کرسیاں بھی چل جاتی ہیں یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے جس طرح وزیراعظم فاروق حیدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قائد میاں نواز شریف کے حق میں دبنگ انداز میں پوری قوت سے بات کرتے ہوئے انکی مخالفت کرنے والی لیڈر شپ کو تنقید برائے حقائق دلیل کریں اس طرح اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین کا بھی حق ہے کہ وہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں پر اپنا اختلاقی نقطہ نظر بیان کریں اور اپنی لیڈر شپ بلاول بھٹو ،آصف زرداری کا موقف اجاگر کریں جو وہ بھی اپنے دلیرانہ اندز میں بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں مگر جس طرح ایجنڈے کی کاپی پھاڑنے پر ایک لمحہ رُکے بغیر ایک ایسا الزام جو کسی کے قتل بھی ہوجائیں تو وہ بھی اپنے دشمن پر نہیں لگاتا ظلم عظیم کے مترادف ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوا یہ اچھی بات ہے کہ حکومت انے اسکا احساس کر لیا مگر لفظوں کا ہیر پھر کرنے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے تھی اپوزیشن ایوان میں واپس آئے یا نہ آئے مگر اپوزیشن کو منانے کی روایات پر عمل کرنا چاہیے تھا یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے یہ بہت ہی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ وہ تمام تر وعدے گڈ گورننس میرٹ ،انصاف اجتماعی بھلائی کے کاموں پر خود وزیراعظم کو پہرہ دیتے ہوئے سب کچھ خود ہی کرنا پڑرہا ہے اور انکی کابینہ کا بیشتر حصہ پھر پارلیمانی پارٹی اورجماعتی تنظیموں کے عہدیداران کا کردار محض روٹھی ہوئی محبوبہ والا ہے جو اپنے معاملات کیلئے شوخیاں بکھیرتی ہے مگر اجتماعی امور میں پھپے کٹنی بن جاتی ہے ۔ وزراءکو بیانات دیتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے جو لہجہ اپوزیشن اختیار کرتی ہے وہی حکومت کرنا شروع کر دے تو پھر حکومت اور اپوزیشن میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اپوزیشن کو منانا ایوان کی کارروائی کا حصہ بنائے رکھنا اور تنقید کا حوصلے سے سننا جواب مدبرانہ دینا رابطے میل ملاپ مشورے ساتھ لیکر چلنا حاضر سروس قیادت کی ذمہ داری ہے جب رابطے ختم کر کے مخالفت برائے مخالفت بنا لی جائیں تو پھر جس طرح انسان موت سے نہیں بھاگ سکتا اس طرح مکافات عمل سے بھی نہیں بچ سکتا جسکا ایک منظر سانحہ کی شکل میں آزادکشمیر کے صحافیوں کی واحد نمائندہ تنظیم سینٹرل یونین کے دولخت ہونے کی شکل میں رونما ہوا ہے عظیم صحافیوں کے لیڈر محترم منہاج برنا کے نام برنا سے منسوب پاکستان میں اسی تنظیم کے کریڈٹ میں ویج بورڈ اور آزادکشمیر میں پریس فاﺅنڈیشن جیسے کارنامے ہیں مگر شخصی جنگ نے مکافات عمل بن کر اسے دولخت کر دیا ہے کمال روشنی میں چلنا لوگوں کی قیادت کرنا یا شجر سے پھل توڑ کر کھانا نہیں بلکہ اندھیروںمیں روشنی بننا اور سخت آزمائش میں قافلے کا رخ سیدھے رکھتے ہوئے سنبھالنا ہے اب یہ سی یو جے کے فکری رہنماﺅں وممبران کا فرض ہے کہ مناسب وقت پر کس طرح ورکنگ جرنلسٹوں کی پہچان بحال کرتے ہیں ؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.