سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے

گرمی کے آتے ہی پاکستان کا موسم بھی گرم ہو گیا ۔کچھ اور طرح کی ہوائیں گردش عمل میں آگئیں پانامہ لیکس کا فیصلہ سن کرکہیں خوشی تو کہیں غم۔ کرسی والوں کی طمانیت اور اپوزیشن کا واویلا ۔کراچی میں پاک سر زمین کا دھرنا۔۔رہی سہی کسر پی پی پی ہوش میں آکر پوری کر رہی۔ویسے کمال کی بات ہے کہ واویلا وہی کرتے ہیں جن کو کرسی ملی ہوتی یا جن سے کرسی چھن جاتی .رہے عوام تو وہ لوٹن کبوتر ہیں ان کی معصومیت کا یہ عالم کے ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون درست اور کون غلط ہے وہ محض ٹاویں تکے پہ چلتے ملک کی باگ ڈور اپنے تئیں سیانے لوگوں کے سپرد کر کے اپنے گھر اور زندگی کی باگ ڈور نبھاتے عوام کو اور بہت سی فکریں لاحق ہوتیں وہ تمام عمر ان مصیبتوں سے نبرد آزما رہتے جو قوم کے نمائندے ان کو تحفتا بطور صلہ رحمی عنایت کرتے۔آخر تان ٹوٹتی تو اس ایک جملے پہ آخر پاکستان ہے ناں یہاں یہی کچھ ہونا۔میں آپ سے ایک سوال کرتی ہوں کہ اس میں پاکستان کا کیا قصور بنتا ۔درحقیقت جیسی روح ویسے فرشتے۔آج کا کالم ایک سوال ہے ہم سب کے لیےکہ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔بانی پاکستان نے ہمیں آزاد وطن دیا ابھی وہ اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا بھی نہ کر پائے تھے کہ نقارہ اجل آ پہنچا۔اب ملک سنبھالنے والے ہاتھوں سےنکل کر یتیم کیا ہوا سب نے اسے نوچنا کھسوٹنا شروع کر دیا۔سب نے حسب مقدور اپنا حصہ ڈالا۔کسی نے کم اور کسی نے ذیادہ پھر بھی اللہ کی رحمت رہی اور ملک چلتا رہا۔ نامساعد حالات۔ کرپشن۔ بےایمانی۔ دہشتگردی ۔سیاسی چپقلشوں میں گھرا یہ بے سہارا وطن مالا مال ہی کرتا رہا اور بغیر ستونوں کے ڈٹ کے کھڑا اپنوں کے وار سہتا رہا ۔انگلیوں پہ گن کے حساب لگائیں کہ کتنے حکمرانوں نے اسے کچھ دیا اور کتنے اس سے لینے کے درپے ہوئے۔کتنی بار یہ لہو لہو ہوا مگر ہمیں ماں کی آغوش سا تحفظ دیتا رہا ۔اب ہم اس کو برا کس منہ سے کہتے ہیں ارے احمقو یہی تو ہے جس نے تمہاری بدبختیوں کو ڈھانپ رکھا ورنہ کون تمہیں پوچھتا۔ذرا خود پہ سے اس کی شناخت ہٹا کر دیکھو کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی۔پانامہ لیکس کا تو فیصلہ جو ہو سو ہو مگر جلسوں دھرنوں کی بہار آگئی ہے ۔وزیر اعظم نے اوکاڑہ میں جلسے سے خطاب کیا خوب گرجے اور برسے اسی گرج برس میں اندر کا قدامت پسند آدمی باہر آگیا اب یہ جوش بیاں میں ہوا یا پی ٹی آئی کا غصہ تھا جو کونے میں کھڑی خواتین پہ نظر پڑتے ہی باہر آگیا کہ میری مائیں بہنیں جلسے میں آئی ہیں اور ایک مخالفین کا جلسہ ہوتا ہے سب نے ٹی وی پہ دیکھا کہ وہاں موجود خواتین کیا کر رہی تھیں؟؟ سننے اور پکڑنے والوں نے اس سوال کو پکڑا اور سوالیہ نشان بنا دیا گویا اس سوال کی معنی خیزی کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں ۔جواب میں عمران صاحب نے ٹویٹ کیا ۔کہ نواز شریف کے اس بیان سے ان کے اندر کا فاشسٹ سامنے آگیا ہے۔وہ بھول گئے کہ ان کی گرفتاری اور جلا وطنی پہ کلثوم نواز شریف نے کیا کیا تھا۔گو اب دوبارہ بیانات کی بارش میں ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے کے چکر میں خواتین کو آڑ بنا کر سیاست سیاست کھیلا جائے گا۔۔جب کہ سب جانتے کہ پی ٹی آئی کا جلسہ نوجوان قوم کا جلسہ ہوتا چونکہ عمران خان بطور کرکٹر پہلے ہی نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے سو سیاست میں گرچہ وہ واویلا مچانے کے علاوہ ابھی کوئی چوکا چھکا مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔مگر جلسوں میں لوگ اکٹھے کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے اور جلسوں میں ذیادہ تعداد خواتین کی ہی ہوتی ہے۔اب نواز شریف کا یہ سوال کہ خواتین کیا کر رہی تھیں تو صاحب سب حسب سابق تھا پینٹ سے سجے چہرے جن پہ بلی کی مونچھیں اور جھنڈے بنائے گئے تھے ۔اس میں کوئی نئی بات نہیں تھیں مگر بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ۔ہم بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتے تھے کہ سرگوشی میں ایک بچے کے کان کچھ کہتے وہ اگلے بچے کے کان میں وہی بات کرتا آخری بچے تک وہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی۔ سو اب بھی یہی ہو رہا اب اس بات کو اس طرح کھینچا جائے گا کہ کاواں دے اڈار بننے میں وقت نہیں لگے گا۔سب باتوں کے قطع نظر اگر ہم مثبت نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس طرح خواتین کے بارے میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کوئی اچھی بات نہیں مگر شاید سیاسی مداری سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے پہ عمل کرتے نظر آتے ہیں۔بہتر ہے کہ اس بات کا بوریا بستر گول کر کے شرافت ۔دیانت اور دل سے قوم کی اور ملک کی خدمت کی جائے۔اور اپنی اپنی سیاسی دشمنیاں نہ نکالی جائیں۔