حکیم الامت ، ترجمان حقیقت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال
رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمان کے چار عناصر گنوائے کہ اگر یہ چار خوبیاں کسی
بندہ میں ہوں تو وہ ایک مسلمان کا درجہ رکھتا ہے وگرنہ وہ نام نہاد کھوکھلا
، دکھاوئے کا مسلمان ہے۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں
تو بنتا ہے مسلماں قہاری! مطلب قہر و غضب والا، جوش و جذبے والا۔ اگر
معاشرہ میں کوئی برائی دیکھے تو اس پر قہر و غضب بن کر ٹوٹ پڑے اور اپنے
قوت بازو سے اس کا منہ پکڑے اور حق کی موڑ دے، جس طرح اللہ کریم قہار ہے وہ
کسی برے شخص پر اپنا قہر برسائے بغیر نہیں رہتا۔ اسی طرح یہ صفت اس کے بندے
میں بھی ہونی چاہیے کہ وہ براہیوں پر قہر ثابت ہو۔ غفاری! مطلب معاف کرنے
والا، رحم دل،اپنے ہم مذہب بھائیوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا۔ خود میں
قوتِ برداشت رکھنے والا۔ اگر افراد معاشرہ میں سے کسی سے اس کے ساتھ کوئی
زیادتی سر زد ہو جائے تو اس میں برداشت اور معاف کرنے کا جذبہ بھی ہونا
چاہیے ۔ جس طرح اللہ کریم غفار ہے اور معاف کرنے کا جذبہ رکھتا ہے تو اس کی
یہ صفت اس کے بندے میں بھی ہونی چاہیے نا ، کہ وہ لوگوں سے معافی و برداشت
کا رویہ رکھے اور درگذر کرے۔ قدوسی ! مطلب پاکیزہ، ہمیشہ پاک صاف رہنے
والا۔ یعنی بندہ ہر طرح کے گناہوں سے پاک ہو، اس کا دل پاکیزہ اور صاف
ستھرا ہو ، اس پر کوئی سیاہ داغ نہ ہو۔ بندے کو اپنے رب قدوس کی طرح پاکیزہ
و پاک صاف رہنا چاہیے ہر طرح کی براہیوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں سے۔ جبروت !
مطلب سخت جان والے، اپنے زور، اپنی طاقت کے بل بوتے پر مقاصد کو پانے والے،
رعب، دبدبے اور ہیبت والے۔ یعنی اہل کفر اس کے وجود سے ڈر رکھنے والے ہوں ۔
اس کے وجود میں اتنا رعب، دبدبہ ہو اہل کفر اس کی ہیبت سے تھڑ تھڑ کانپنے
لگیں اور اس سے ٹکر لینے کی جرات نہ کر سکیں ۔ جس طرح اللہ کریم جبار ہے
اور کوئی اس سے ٹکر لینے اور مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا ہے اسی طرح اس کے
بندوں کو بھی ہیبت، رعب و جلال والا ہونا چاہیے۔ حضرت اقبال علیہ رحمہ کے
اس شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ یوں تو خالق کی ساری خوبیاں ، ساری صفات،
سارے اوصاف کی جھلک اس کے بندے سے عیاں ہونی چاہیے اور اس کے کردار سے
چھلکتی نظر آنی چاہیے لیکن اگر بندہ اپنے خالق کی ساری خوبیاں اپنے اندر
نہیں سمو سکتا تو کم از کم ان چار کا ہونا بے حد ضروری ہے اس کے بغیر گذارا
نہیں ، ان کے بغیر اس کا بندہ، اس کا ماننے والا مسلمان بیکار ہے وہ کوئی
حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ ایک مسلمان کا کردار ہی ان چار خواص سے تشکیل
پاتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان سے ان چاروں اوصاف کی جھلک نظر نہیں آتی تووہ صرف
نام کا مسلمان ہے حقیقت میں اس کا اسلام اور مسلمانیت سے کوئی تعلق واسطہ
نہیں ہے اور نہ کوئی رسول اللہﷺ سے نسبت۔ اللہ کریم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ
سے نسبت بھی صرف اسی کی قابل قبول ہے جس میں ان چاروں اوصاف کی جھلک پائی
جاتی ہو۔اگر کسی مسلمان کے کردار سے ان اوصاف کی جھلک دیکھائی نہیں دیتی تو
وہ کوئی نسبت، کوئی تعلق نہیں رکھتا رسول اللہ ﷺ سے، وہ لاکھ نسبت کے دعوے
کرتا پھیرے ، لاکھ نعرے لگاتا پھیرے غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے ، ایسی
کھوکھلی غلامی کوئی معنی نہیں رکھتی جس میں آپ ﷺ کے اوصاف و کردار کی کچھ
جھلک ہی نہ ہو۔ یہ مسلمان کے چار اوصاف کوئی محض اقبال ؒ کے تخیل کے الفاظ
کر سمجھ معمولی نہ سمجھے ۔ حضرت اقبال ؒ نے یہ اپنے پاس سے بیان نہیں کیے
یہ پورے قرآن کی روح ہے ۔ پورا قرآن ایک مسلمان سے تقاضاہی انہی چار اوصاف
کا کر رہا ہے۔ حضرت اقبال ؒ کوئی معمولی انسان نہیں تھے انہوں نے پورے قرآن
کا نچوڑ، پورے قرآن کا مفہوم ، پورے قرآن کا ایک مسلمان سے تقاضا صرف چار
الفاظ میں سمو کے رکھ دیا اور یہ اقبال کی فکر کا امتیاز ہے کہ وہ اپنے ہر
تصور کی تشکیل قرآن کریم ہی کی رہنمائی میں کرتے تھے۔ یوں تو قرآن کریم کی
بہت سی آیات ایک مسلمان سے ان چاروں اوصاف و کردار کی متقاضی ہیں مگر میں
یہاں ایک ایسی آیت کا حوالہ پیش کرتا ہوں جس میں یہ چاروں اوصاف ذکر کرنے
سے پہلے نسبت کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جو اللہ کے رسول ﷺ سے نسبت والے ہیں
وہ ان چاروں اوصاف کے مالک ہیں اور جن میں یہ اوصاف نہیں پائے جاتے وہ اپنی
نسبت کہیں اور جوڑ لیں اللہ و رسول ﷺ ایسی نسبت ہرگز قبول نہیں کریں
گے۔قابل قبول نسبت کے اوصاف اللہ کریم قرآن مجید میں یوں بیان کر رہا ہے۔
مُّحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی
الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً
یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَاناً سِیْمَاھُمْ فِیْ
وُجُوْھِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ
وَ مَثَلُھُمْ فِیْ الْاِنْجِیْلِ o (سورۃ الفتح 48: 29) ’’ محمد ﷺ اللہ کے
رسول ہیں اور جو لوگ آپ ﷺکی معیت میں ہیں (جو آپ ﷺ سے نسبت والے ہیں ، جو
آپ ﷺ سے تعلق و رابطے والے ہیں ) وہ کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں ۔
آپس میں بہت رحم دل ہیں ۔ہم ہر وقت انہیں رکوع و سجود میں دیکھتے ہیں ۔ دوڑ
لگاتے ہیں ، ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں اپنے رب کے فضل اور اس کی رضا کو
پانے میں ۔ ان کے چہروں پر نشان پڑ گئے ہیں کثرت سجود کے اثر سے۔ان کی یہی
مثالیں ، ان کے یہی اوصاف ہم نے تورات میں بھی بیان کیے اور یہی مثالیں
انجیل میں بھی بیان کیں ۔‘‘ الکفار سے مراد صرف کافر لوگ ہی نہیں ، سب برے
کام،سب برے دھندے، سب گندے اور غلط اطوار میں بھی الکفار میں داخل ہیں وہ
ان سب پر بہت سخت اور شدت رکھنے والا ہو، جہاں جو برائی دیکھے اسے پکڑ کر
اس کا منہ حق کی طرف موڑنے والا ہو۔ اس آیت کریمہ کے شروع میں پہلے نسبت
بیان ہوئی ہے کہ مُّحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ محمد
کریم ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو آپ ﷺ کے ساتھ والے ہیں ، جو آپ ﷺ سے نسبت
والے ہیں ، آپ ﷺ سے تعلق و ربط رکھنے والے ہیں وہ آج کے بد عمل، بد
کردارنام نہاد مسلمان نہیں بلکہ ان کے عناصر، ان کے کردار، ان کے اوصاف یہ
ہیں ، ان خواص کا حامل شخص مسلمان ہوتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ کریم
فرما رہے ہیں کہ ایک مسلمان بننے کے یہی خواص ہیں جو ہم نے قرآن میں بیان
کیے ہیں اور یہی اوصاف ہم نے اس سے پہلے تورت اور انجیل میں بھی بیان کیے
تھے کہ جس شخص میں یہ چار خواص ہوں گے وہ سچا اور ہمارا پسندیدہ مسلمان
ہوگا۔ یہی وہ چار عناصر ہیں جو حضرت اقبال علیہ رحمہ اپنے شعر میں بیان
کیے۔ مضمون: فکرفردا- صالح وخالد، داعش اور ہم قہاری و غفاری و قدوسی و
جبروت 1۔ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ کافروں پر سخت ہیں ۔ قہاری ہے؟ 2۔
رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ آپس میں بہت رحم دل ہیں ۔ غفاری ہے؟ 3۔ تَرَاھُمْ
رُکَّعاً سُجَّداً ہر وقت رکوع و سجودو اذکار میں ہوتے ہیں ۔ قدوسی ہے؟ 4۔
یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَاناً دوڑتے ہیں اپنے رب کے
فضل اوراس کی رضا کو پانے میں ۔ جبروت ہے؟ اگر اب بھی کسی کو سمجھ نہ آئے
کہ حضرت اقبال علیہ رحمہ نے یہ چار عناصر اپنے تخیل سے بیان کیے یا قرآن کی
روح سے تو وہ اپنی عقل کا علاج کروائے۔ یہ چار عناصر ملیں تو ایک مسلمان
بنتا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی نسبت بھی استوار ہوتی ہے۔اللہ کریم نے یہ
چار اوصاف بیان فرمانے سے پہلے نسبت بیان کر کے اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی
ہے کہ میں اپنے رسول ﷺ سے صرف اسی کی نسبت قبول کروں گا جس میں سے مجھے ان
اوصاف جھلک نظر آئی ۔ آج جوبد عمل، بد کردارنسبت کے دعویدارنسبت کا ڈنڈورا
پیٹھ رہے ہیں کہ ہم نے ان کی نسبت سے پار ہو جانا ہے وہ درس فکر حاصل کریں
۔ اس آیت مبارکہ اور قرآن کریم کی منشوعات کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے نسبت
والوں کے اوصاف پر آئیں تو ان کی نسبت بھی قابل قبول ہوگی اور دنیا و آخرت
میں سرخرو بھی ہوں گے۔ چھلکتی نہیں کیوں کردارِ مسلم سے ان کی رنگ بو سرد
کیونکر ہو گیا آخر مسلم کا لہو؟ صد افسوس کہ آج یہ خوبیاں مسلمانوں میں
موجودنہیں ہیں ۔ اقبال علیہ رحمہ نے جس وقت یہ شعر لکھا اس وقت بھی مسلمان
یہ خوبیاں کھو چکے تھے آج تو معاملہ بہت دور چلا گیا ہے۔ اسلام کی تاریخ
میں یہ خوبیاں اسلام کے ابتدائی ادوار میں دیکھنے کو ملتی ہیں جب مسلمان
پوری طرح اپنے خالق کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان کے خالق کی تمامی صفات کی
جھلک ان کے وجود و کردار سے چھلکتی نظر آتی تھی تو وہ اپنے غالب خالق و
مالک کی طرح دنیا پر غالب تھے،وہ قہار کی طرح کفار پر قہر تھے ، وہ رحمان
کی طرح آپس میں رحیم تھے۔ دنیا ان کے وجود سے کانپتی تھی اور خالق نے اپنی
پیدا کردہ ہر چیز کو ان کے دست انگشت میں دے دیا تھا وہ جس طرف چاہتے تھے
ہواؤں کا رخ موڑ دیتے تھے۔سمندر کی ظلماتی موجیں بھی ان کے آگے کوئی حیثیت
نہیں رکھتی تھیں ۔ انہوں نے اپنی منزل و مقصود کے راستے میں حائل ہونے والی
سمندری موجوں کو بھی اپنے گھوڑوں کی ایڑیوں سے کچل کر سخت اور ہموار کر کے
رکھ دیا ۔ لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشت بنیاد کلیساء بن گئی خاک
حجاز ہو گئی رسواء زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور
نیاز آفسوس کہ آج مسلمان کے انداز و اطوار بدل گئے، آج مسلمان کے کردار و
فلسفے بدل گئے، مسلمان کے شعار و عناصر بدل گئے ۔ آج کے مسلمان کا سب کچھ
بدل چکا ہے،آج دولت مسلمان کا دین ہے، دولت اکٹھی کرنا اس کا حرص، چاہے اسے
حاصل کرنے کیلئے اسے انسانیت کے خون سے کیوں نہ کھیلنا پڑے وہ کھیلے گا۔آج
کا مسلمان خود پرست اور نفس پرست ہے وہ اپنے مطلب خود غرضی اور مفاد پرستی
سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں ۔شائد کہ آج کا مسلمان نہیں جانتا کہ خود پرستی
اور نفس پرستی ہی دراصل بت پرستی ہے اس کو ترک کرنے کے بعد ہی خدا پرستی کی
منزل شروع ہوتی ہے۔ آج کے مسلم معاشرہ میں کسی اجتماعی عمل کی کثرت دیکھنے
کو ملتی ہے تو وہ صرف دو ہیں ، ہاتھ میں سگریٹ، منہ پہ گالی۔آج کے بد نصیب،
بد عمل و بد کردار مسلمان کے پاس ہے کیا سوائے ان دو چیزوں کے ؟ بلاوجہ
ہنسی مذاق کے طور پر ماں ، بہن، بیٹی کی گالیاں بکناآج پوری قوم کا معمول
بن چکا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اسے گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا ، اس طرح کثرت سے
گالیاں بکی جاتی ہیں جیسے بہت ثواب کا کام ہو اور نہ سننے والے کی طرف سے
کسی رنج اور غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ آج دنیا میں میر صادق و میر
جعفر دیکھنا ہوں تو وہ مسلمانوں کی صفوں سے ملتے ہیں ۔زوال کا یہ عالم ہے
کہ اگر ہم مسلمان آگے ہیں تو صرف فیشن میں ، بے حیائی و بے پردگی میں ،
فحاشی و عریانی میں ، بد عنوانی، خرد برد اور مکاری و عیاری میں ، بد
گفتاری و بد کرداری میں مسلمان آج سے سب دنیا سے لیڈ کر رہے ہیں ۔ اخلاقی
زوال کی یہ صورت ہے کہ ’’بالی ووڈ‘‘میں مسلمانوں کا سکہ چل رہا ہے اور اس
پر فخریہ مضامین بھی لکھے جاتے ہیں ۔ فحش بینی و فحش گوئی میں مسلمان آج
پوری دنیا سے سبقت لے رہے ہیں ۔ آج کے مسلمانوں کے مرکب و عناصر کا مشاہدہ
کرنا ہو تو یہ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مکاری و عیاری و غداری و ہیجان اب بنتا
ہے ان چار عناصر سے مسلمان ۔۔۔۔ بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و رباعی پہ اتراتا ہے مومن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو وہ
رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن ۔۔۔۔ شاہین کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملاں سے مجاہد کی اذاں ہے مانا کہ ستاروں سے آگے بھی ہیں جہاں
اور شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟ آج وہ شاہین تو مر کھپ گئے ، آج ان
کے پر اڑان بھرنے کی قوت وطاقت سے محروم ہیں ۔ ان میں نہ وہ ہمت رہی، نہ ہو
جذبے رہے ، نہ وہ جنون رہا۔ ضمیر بہت مدت سے محو نوم تھے کہ حرکت نہ کرنے
کی وجہ سے دیمک لگ گیااور سب جوش و جذبے کھا گئی اور قوم کو ایسا مدہوش کر
کے رکھ دیا کہ اب یہ قوم ثورِ اسرافیل سے ہی جاگے گی اس سے پہلے بیدار ہونے
والی لگتی نہیں ہے۔ میں نے ایک نظم سنی ’’ اے اقبال ؒ تیرے دیس کا کیا حال
سناؤں ‘‘۔ یہ سن کر میرے دل میں گمان پیدا ہوا کہ میں کیوں نہ براہ راست
رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے آپﷺ سے عرض گذار و ملتجاء ہوں اور آپ ﷺ کی
بارگاہ میں امت کا حال پیش کر کے آہ زاری کروں کہ حضور ﷺ! امت کے حال پر
نظر فرمائیے۔ حضور ﷺ ! امت کی کشتی بھنور میں پھنسی ہے کوئی کنارہ نہیں مل
رہا، حضور ﷺ ! آپ ﷺسالار ہیں امت کی کشتی کے ، آپ ﷺ ہی کسی کنارے لگا سکتے
ہیں ۔بس گمان کا آنا ہی تھا کہ اشک بار آنکھوں کے ساتھ الفاظ اور جملوں کا
ایسا نزول ہوا ، ایسی عنائت ہوئی کہ یہ انتہائی جامع اور رقت طاری کر دینے
والی دکھ بھری داستان وجود میں آئی جس کی پہلے نظیر نہیں ملتی جس امت کے
سبھی حالات کا تذکرہ، امت کے تمام دکھوں اور مرضوں کا رونا حضور ﷺ کی
بارگاہ میں پیش کیا گیا ہو۔ یہ الگ سے کتابچہ کی شکل میں موجود ہے ، اس میں
اقبال ؒ کے انداز، تخیل ، فکر و سوچ کی یاد تازہ ہو گی۔ مضمون: ترکی میں
تختہ پلٹ کی کوشش یا رسول اللہ ﷺ! تیری امت کا کیا حال سناؤں ؟ مسلم کو تو
نہیں بیداری سے لگن کس کو جگاؤں ؟ اے مسلماں ! قرآن کا آئینہ اپنے سامنے
رکھ کرذرا اپنی شکل دیکھ اور خود سے خوف کھا کر چلا، اور ڈر کر بھاگ جا
کیونکہ تیری شکل و صورت بدلی ہوئی ہے، تیرا رنگ و روپ بری طرح مسخ ہو چکا
ہے توکتنا بد نما بنا ہے ، تو قرآن و سنت کا متقاضی مسلمان نہیں رہا۔ تیری
شکل و صورت بڑے بڑے شیطانوں جیسی بنی ہے۔ کھوکھلی نسبت، زبانی دعوے کسی کے
کچھ کام نہیں آئیں گے۔ ایسے کھوکھلے نسبت کے دعویداروں کو ہٹا دیا جائے گا
راستہ سے ، روک دیا جائے گا سامنے آنے سے کہ نہ خود شرمشار ہو نہ ہمیں آ
شرمشار کر۔ نہ اللہ و رسول ﷺ ان کو منہ سے لگائیں نہ ان کی کوئی سنیں گے۔
آج ہماری کتنی دعائیں سنی اور قبول کی جاتی ہیں ؟ اللہ کریم کا تو اعلان ہے
ادعوااستجلکم کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا اور تاریخ گواہ اس نے دعا کے لئے
اٹھے ہاتھ گرنے سے پہلے دیا بھی ہے ، بات سنی بھی ہے اور مدد کو پہنچا بھی
ہے مگر آج کیوں نہیں دیا جا رہا؟ آج کیوں نہیں فرشتے بھیج رہا ہماری مددو
نصرت کو؟ آج وہ ہماری کیوں نہیں سنتا؟ اللہ کریم تو فرماتا ہے مجھ سے فریاد
کرو میں سنتا ہوں مگر آج ہماری کیوں نہیں سنی جاتیں ؟ اللہ کریم کا تو عہد
ہے کہ اگر میرا بندہ مجھے ایک بار پکارے تو دس بار جواب دیتا ہوں جی میرے
بندے بول کیا چاہتا ہے؟ مگر آج ہمیں یہ جواب کیوں نہیں آتا؟ کیا کبھی کسی
نے یہ سوچا؟ کیا کبھی کسی نے اس پر غور و خوض کیا؟ وہ کریم تو آج بھی سنتا
ہے مگر ہو کوئی اس کا بندہ اس سے فریاد کرنے والا، وہ آج بھی قبول کرتا ہے
مگر ہو کوئی اس کا بندہ اس سے مانگنے والا۔ وہ تو آج بھی دس بار جواب دیتا
ہے جی میرے بندے بول مگر ہو کوئی اس کا بندہ اس کو پکارنے والا۔ وہ ہم جیسے
بد عمل ، بدکرداروں اور کھوکھلی نسبت کے دعویداروں کو کیونکر جواب
دے؟کیونکر سنے؟ کیونکر قبول کرے اسے کیا پڑی ہے ہم جیسے بدعملوں سے منہ
لگانے کو؟ وہ اپنے بندوں کے عمل، کردار ، صالح و پاکیزہ اطوار سے خوش ہو کر
جی جی کرتا ہے، بد عمل، بد کردار تو اسے ایک نظر نہیں بھاتا خواہ وہ لاکھ
اللہ اللہ کرنے والا ہو بلکہ وہ ایسوں پر اور زیادہ غضب ناک ہوتا ہے۔ ہم
دنیا میں دیکھتے ہیں کہ حقیقی والدین اپنی نافرمان، گستاخ، بد کردار اور
ذلت و رسوائی کا موجد گندی اولاد کو عاق کر دیتے ہیں اور قطع تعلق، قطع
رحمی کر لیتے ہیں تاکہ وہ مزید ہماری بدنامی اور ذلت کا باعث نہ بنے
حالانکہ ان کا آپس میں ایک خونی رشتہ ہوتا ہے مگر بدعملی اور غلیظ طریق
اپنانے پر سب ناطے منقطع ہو جاتے ہیں ۔پھر اگر وہ والدین اس کے ساتھ کوئی
ظلم و زیادتی ہوتی سنیں تو بھاگ کر اس کی مدد کو نہیں جاتے بلکہ ان کے
الفاظ ہوتے ہیں کہ یہ ہے ہی اسی قابل اس کے ساتھ اور ہونی چاہیے، اسے بھوکا
پیاسا دیکھ کر بھی ان کو رحم نہیں آتا۔ اللہ کریم کی طرف سے بھی یہی کچھ
ہوتا آج ہمیں دنیا میں دیکھائی دے رہا ہے۔یہی کچھ آج ہمارے ساتھ بھی ہو رہا
ہے اور ہمیں ہوتا نظر بھی آ رہاہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہماری صفوں میں موجود
نہیں ہے اگر وہ ہمارے ساتھ ہوتا تو ہم دنیا میں اس قدر ذلیل و رسوا نہ ہو
رہے ہوتے۔ وہ ہم پر ظلم و زیادتی ہوتے دیکھ کر ہماری مدد کو کیوں نہیں آ
رہا؟ آج ہم پر اس کے فرشتے کیوں نہیں اترتے ہماری نصرت کو؟ اللہ کریم کے
ساتھ ہمارا رشتہ کیاہے؟ ہمارا کیا ناطہ ہے جس کا وہ لحاظ رکھے؟ کیا نسبت ہے
ہماری اللہ کریم سے وہ ہمیں عاق کیوں نہیں کر سکتا ہے؟ وہ ہم سے سب تعلق
منقطع کیوں نہیں کر سکتا ہماری بداعمالیاں اور بد کرداریاں دیکھ کر، شیطانی
فعل، گندے اور غلیظ اطوار دیکھ کر؟ اس نے ہم سے تعلق منقطع کر رکھا ہے ، وہ
ہم سے منہ پھیرے ہوئے ہے ورنہ اس کا کیا سبب ہے کہ وہ ہماری کیوں نہیں
سنتا؟ آج ہماری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں ؟ اس کے حقیقی چاہنے والوں کے تو
دعا کیلئے اٹھے ہاتھ گرنے سے پہلے اس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے
مگر آج وہ ہماری دعائیں ، ہماری آہ و زاری قبول کیوں نہیں کررہا ؟ اسے پوری
دنیا میں ہماری ذلت و رسوائی دیکھ کر رحم کیوں نہیں آتا؟ اس کا سبب ہم خود
ہیں ۔ہمارا اس کریم کے ساتھ رشتہ و ناطہ صرف ایک اس کی حقیقی بندگی کی صورت
میں ہے۔ جب ہم اس کے حقیقی بندے بنیں گے تو وہ ہمارا حقیقی وارث بھی بنے
گا۔جب ہم اس کی سن کر اس کی راہ پر چلیں گے تو وہ ہماری بھی سنے گا۔جب ہم
اس کے کہے پر عمل کر کے دکھائیں گے تو وہ ہمارے کہے کو بھی شرف قبولیت سے
نوازے گا۔ وہ تو ہمہ وقت تیار ہے اپنے بندوں کی سننے کو ہم اس کے حقیقی
بندے بن کر تو دیکھیں ۔ تم ڈھونڈتے ہو کامیابیاں در بدر مگر تم ہوتے کہاں
ہو جب آتی ہے صدا ’’حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح‘‘۔۔؟؟ |