پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے قبل سندھ میں پاکستان پیپلز
پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف اور ن لیگ صوبائی حکومت کے
خلاف محاذ آرائی کی سیاست کا آغاز کرچکی تھیں ۔ پی پی پی نے وفاق کیخلاف
بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ، زرعی پانی اور کراچی میں پانی کی قلت اور سندھ میں
نئے کنکشنز نہ دینے پر تحریک چلانے کا اعلان کردیا تھا ۔ ایم کیو ایم سندھ
کی دوسری بڑی سیاسی جماعت اور صنعت و حرفت کے مرکزی شہر میں میئر شپ کی
حامل پارٹی بھی وسیم اختر کو اختیار اور حقوق کی فراہمی کیلئے آواز بلند
کررہی تھی۔ ادھر کراچی کے سیاسی افق پر نمودار ہونے والی پاک سر زمین پارٹی
اپنے قائد مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ضمیر جگانے کی مہم کے بعد عوامی مسائل
بالخصوص کراچی کے کھنڈر بن جانے پر دل گرفتہ ہورہی تھی اور اسی دکھ کے ساتھ
اس نے حکومت ِ سندھ کو کراچی کے مسائل کے حل کیلئے 16نکاتی چارٹر پیش کرنے
کے بعد اپنے مطالبات منوانے کیلئے 6اپریل کو کراچی پریس کلب کے باہر
احتجاجی کیمپ لگانے پر مجبور ہوگئی ۔جماعت اسلامی کراچی کے ایک اور اہم اور
بڑے مسئلے یعنی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور kالیکڑک کی اوور بلنگ کیخلاف
احتجاج کرتی ہوئی نظر آئی جس میں اصل ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹہرایا گیا۔
لوڈشیڈنگ اور بجلی کے غلط بلوں کا معاملہ پورے کراچی کا مسئلہ ہے لہٰذا اسے
بھر پور عوامی پذیرائی ملی ۔ تحریک انصاف بظاہر کسی تحریک کو لیکر شہر کے
مسائل پر سڑکوں پر دکھائی نہیں دی البتہ دبے لفظوں میں یہ بھی سندھ حکومت
کیخلاف ہی بیانات اور دیگر جماعتوں کی حمایت کرتی رہی ہے ۔ دوسری جانب میاں
نواز شریف بنفس نفیس سندھ میں وارد ہوئے ، جلسے کئے ، پیکجز کا اعلان بھی
کیا ساتھ ہی سندھ حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ۔ حکومت سندھ ناہل ٹہرائی
گئی ، یہ تمام تر صورتحال پیدا کرنے کا مقصد 2018میں ن لیگ کو صوبے میں نئے
انداز میں متعارف کرانا تھا ۔ یعنی حکومت میں رہ کر اگلی باری پھر ہماری
کیلئے فضا سازگار بنانا مقصود تھا ۔ یو ں سمجھ لیجئے کہ پاناما کیس کے
فیصلہ آنے سے قبل حکومتی جماعت کے سوا سب نے طے کرلیا تھا کہ شاید اب ن
لیگیوں کا وقت قریب آن پہنچا ہے لہٰذا وہ کمر بستہ ہوکر سندھ میں براجمان
ہوچکی تھیں ۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد صورتحال میں تبدیلی آنے کے
بجائے صوبے میں سیاسی درجہ ء حرارت میں بھی موسم کی مناسبت سے اضافہ ہوا
اور موجودہ صورتحال یہ بن گئی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے یہاں پکے ڈیرے
ڈال لئے ہیں اور سندھ اس وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے ۔ حکمراں
جماعت سمیت پی پی پی ، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی پی ایس پی ، تحریک
انصاف،اور مختلف مذہبی و تعصب پر مبنی سیاست کرنے والی جماعتوں نے یہاں نئی
سیاسی جدجہد کا آغاز کرلیا ہے اور انہیں انتہائی شدت سے سندھ بالخصوص کراچی
کو درپیش مسائل اور اس پیدا ہونے والی صورتحال کا درد ستانے لگا ہے ۔ ہر
سیاسی جماعت اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کو تیا
رہوگئی اور اپنے وجود اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی لگن اور جستجو میں جلس،
جلوس کررہی ہے اور عوام کو جمع کرکے ریلیاں نکالی جارہی ہیں ، ساتھ ہی اس
تگ ودو میں بھی مصروف ہیں کہ میڈیا بھی انہیں نمایاں جگہ مل جائے ۔
23اپریل کو ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے قوت کا مظاہرہ کیا۔ ن لیگ جس
کا سندھ میں سوائے گورنر کے کوئی نمایاں مقام نہیں اس نے پاناما کیس میں
خودساختہ اپنے لیڈر کی بریت کے حق میں ریلی نکالی اور سندھ کی عوام پر باور
کرایا کہ میاں نواز شریف کا کرپشن سے کوئی لینا دینا نہیں ، یہ تو مخالفین
کی سازش تھی جو ناکام ہوگئی ۔ دوسری طرف سندھ کی حکمرانی کرنے والی جماعت
پی پی پی جو پاناما کے فیصلے سے قبل ہی وفاقی حکومت سے خفا تھی اس نے ریلی
نکالی اورا پنے احتجاج میں گو نواز گو کے نعرے کا بھی اضافہ کردیااور وفاق
کی پالیسیوں پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور 26اپریل سے سندھ سمیت کراچی میں
مزار قائد کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کرڈالا۔ پی پی پی کی مرکزی قیادت
نے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا بصورت دیگر تحریک کو ملک بھر میں
شروع کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔اتوار ہی کے روز صوبے کی دوسری بڑی سیاسی
جماعت ایم کیو ایم نے کراچی میں حقوق ریلی نکالی ۔ ریلی میں پارٹی قیادت نے
کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک حقیقت ہے اسے تسلیم کیا جائے ، اسے کوئی
تقسیم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے مہاجر مظلوم اور مہاجر
مقتول کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیا ہے ۔ ان کا اولین مطالبہ تھا کہ
وسیم اختر کو اختیارات کی تفویض کا تھا جس پر حکومت سندھ قابض ہے ۔ یہ ریلی
بنیادی طور پر سندھ حکومت کے خلاف تھی جو وفاق کی پالیسیوں کے خلاف کررہی
ہے ۔ فاروق ستار کہہ رہے تھے کہ افر میئر کراچی کو اختیارات مل گئے تو وہ
بتادیں گے کہ ایم کیوایم کیا کرسکتی ہے ۔ انہوں کہا کہ اس ریلی سے سندھ کے
شہری علاقوں کے حقوق کی بحالی کا آغا ز ہوگیا ہے جو سندھ کے دیہاتوں تک
جائے گی ۔ا نہوں نے عندیہ دیا کہ 2018 کے انتخابات میں سندھ کا وزیراعلیٰ
ان کی جماعت سے ہی ہوگا۔ 23اپریل ہی کے روز مصطفیٰ کمال نے اپنا 18روز کا
دھرنا سمیٹتے ہوئے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کردیا کہ یہ کیمپ ان کی احتجاجی
تحریک کا پہلا مرحلہ تھا ، اگلے مرحلے میں وہ ملین مارچ کیلئے عوامی رابطہ
مہم شروع کریں گے اور 14مئی کو لاکھوں لوگوں کے ہمراہ مارچ کرتے ہوئے
حکمرانوں کے محلات کا گھیراؤ کریں گے ۔ انہوں نے حکمرانوں کو متنبہ کیا کہ
اس سے قبل عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں کے تک آن پہنچیں ان کے مسائل حل کئے
جائیں ۔
سندھ میں جاری اس تمام تر سیاسی صورتحال کا موازنہ ماضی کے حالات سے کیا
جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اب سندھ کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے جارہا ہے ،
اس تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل پوشیدہ ہیں ۔ اول عوام نے قبضہ گیری ، سیاست
میں تشدد اور سیاسی گٹھ جوڑ سے بیزاری کا اعلان کردیا ہے ۔ دوسرے اب سندھ
میں جاگیردارانہ سوچ، وڈیرہ شاہی افکار اور ذاتی و معاشی مفادات کی سیاست
مسترد کردی گئی ہے ۔صوبے میں اس نئی سیاسی کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد کہا
جاسکتا ہے کہ اب یہاں مخصوص سیاسی جمود ٹوٹے گا، کئی بڑے بڑے سیاسی بر ج
زمین بوس ہوں گے ، کراچی کے رستے ہوئے زخموں پر ماتم کیا گیا، نوحہ خوانی
کی گئی لیکن اب ان زخموں پر مرہم رکھا جانے کا امکان رو شن ہورہاہے ۔
ماضی میں سندھ میں ہونے والی سیاست مخصوص پیرائے میں ہوتی تھی جس کا محور
تعصب اور جاگیردارانہ نظام تھا، اسی منفی سیاست نے عروس البلاد شہر کو
کھنڈر اور ذرخیز صوبے میں غربت ، افلاس، پسماندگی ، بدحالی ، بیروزگاری اور
بربادی کی رلا دینے والی صورتحال سے دوچار کیا ۔ سندھ کو ایک بڑے معاشی
پیکج اور اچھی طرز حکمرانی کی ضرورت تھی جو مفادات کی بھینٹ چڑھی ۔ کراچی
آپریشن نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا اور موثر انداز میں کئی بڑی خرابیوں
کا خاتمہ ممکن ہوا، صوبہ ء سندھ میں موجودہ سیاسی گہما گہمی اسی آپریشن کے
مرہون ِ منت ہے ۔
سیاست میں اختلافات اور اختلاف رائے یقینی بات ہے ، اسے جمہوری روایات کا
حصہ سمجھا جاتا ہے ، البتہ بلیم گیم کا سلسلہ اس سیاسی گہما گہمی کا جزو ہے
جو ہماری طرز سیاست کی فرسودگی ہے ، اسے قصہ ء پارینہ سمجھ کر بھول جانا ہے
بہتر ہوگا ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی محسوس کرلینا چاہئے کہ نعروں ،
دھرنوں ، احتجاج اور دھمکیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ، اگر عوام کے
دلوں میں جگہ بنانی ہے تو طزر سیاست میں تہذیب اور بردبار ی کو لانا ہوگا ،
رواداری اور عوامی فلاح کیلئے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا ناگزیر ہوچکا
ہے ۔ سندھ نے غلط طرز سیاست سے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کیا ہے ، اب
یہ اس کااور متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ وقت سندھ کی تقسیم کا نہیں بلکہ سندھ کی
وحدت میں دلکش سیاسی چمن کی آبیاری کا وقت ہے ۔ کراچی خون ریزی اور بدامنی
کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اب یہاں نئی تہذیبی اور سیاسی ماہیت کی ضرورت
ہے ۔سیاست دان جس طرح سماجی و سیاسی تضادات کی روش پر چل رہے ہیں یہ ایک
ایسی چنگاری ہے جس کے بھڑک جانے سے پورا صوبہ خاکستر ہوسکتا ہے ۔ دانش مندی
اور سیاسی بصیرت متقاضی ہے کہ روادارانہ سیاست کو فرسودہ روایتی سیاست پر
ترجیح دی جائے تاکہ مملکت کی تمام اکائیاں سیاسی اختلافات کے باوجود قومی
یکجہتی ، جمہوری رویوں اور معاشی ترقی و خوشحالی کے اجتماعی اور مشترکہ
ایجنڈے سے منسلک ہوجائیں ۔ سارے کام اچانک نہیں ہوجاتے اور نہ جادو کی کوئی
چھڑی گھمانے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں البتہ تمام اسٹیک ہولڈرز اگر خلوص ِ دل
سے اپنے جمہوری ایجنڈے ، سیاسی لائحہ عمل اور ملکی سلامتی سے جڑے ہوئی قومی
و نظریاتی منزل کا تعین کرلیں تو مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔
یاد رکھیئے ملکی تاریخ کے ہر اندھیرے اور اجالے کا ایک حوالہ کراچی اور
سندھ کی سیاسی کشمکش بھی رہی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سندھ میں سیاسی گہما
گہمی کو تعمیری انداز میں لیا جائے جو اس قدیم اور ثقافت کے امین صوبے کی
تقدیر بدل سکتا ہے ۔
|