کئی مہینوں کی سر توڑ جدوجہد اور آخری ہفتے میں کپتان کا
جلسہ اس سے پہلے آگاہی کیمپس ریلی کی تیاری اور عین جلسے والے دن اسلام
آباد کے ایک سرے پر واقعہ ٹی وی چینیل پر چھ بجے ریکارڈنگ اور دوسرے کونے
پر ایک اور چینیل پر ایک ٹاک شو میں شرکت گویا نس پج کی انتہا رہی خان خود
تو تھکتا نہیں ساتھیوں کو بھگا بھگا کر تھکا دیتا ہے۔اگلے روز جب ذرا سکون
ملا تو ایک حکم نامہ وزارت داخلہ کا تھا کہ چل نلے نوں چلئے ۔نلہ گھوڑا گلی
شاہ مقصود روڈ پر جبری پل کے ساتھ ہرو کنارے ایک جنت نظیر گاؤں ہیں۔اسی جگہ
ہم کوئی اکسٹھ سال پہلے اس جہان رنگ و بو میں آئے۔پھر یہ سسرال بھی ہو
گیا۔ہنسی خوشی بیگم و بیٹی کے ساتھ ایک مدت بعد لانگ ویک اینڈ گزارنے پہنچ
گئے اب تو گاؤں دو گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں پہلے کسی زمانے میں اس گاؤں تک
پہنچنے کے لئے گھوڑا گلی لورہ سے ہوتے ہوئے یا کبھی حسن ابدال ہر ی پور شاہ
مقصود کے راستے کوئی پانچ گھنٹوں میں پہنچتے تھے۔ایک راستہ ترناوہ تا
کوہالہ بھی کوئی بیس سال چلا ۔اہل تدبر نے سوچا موئن جو دڑو بہت دور ہے اسے
ہی بنا دیتے ہیں اور آج یہ راستہ کسی شیر شاہ سوری کہلانے والے کو ترس رہا
ہے۔ترناوہ سے براستہ دیسرہ اس سڑک کی تعمیر بہت ضروری ہے
اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انگریز دور کی ایک سڑک جو وہ گھوڑوں کے لئے بنا
رکھی تھی اس پر تارکول بچھا کر بنا دی گئی ہے۔پیر سوپاوہ ٹاپ کو اسلام آباد
جانے والی سڑک اب ایک ایسا راستہ بن گیا ہے جس پر سیاحوں کی آمدو رفت کے
علاوہ جبری کرہکی لسن مساح گوجری دکھن پیسر کوہالہ کملی برکوٹ مکھنیال اور
ہزارہ کی دو تحصیلوں کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔پیر سوہاوہ سے آگے لامونٹانا
سے جڑی سڑک جو کے پی کے میں داخل ہوتی ہے کمال کی سڑک ہے کارپٹ کے ساتھ
دائیں بائیں چار چار فٹ سیمینٹڈ کونے اس سڑک کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں ۔
گر چہ تکنیکی طور پر اسلام آباد سے پیر سوہاوہ روڈ انتہائی ناقص ہے
انجینئرنگ طور پر اس میں بڑے نقائص ہیں کئی ایک موڑ ایسے ہیں جہاں اچھی
خاصی گاڑیاں بھی ہف جاتی ہیں اسے درست کئے بغیر اس سڑک کو مستقبل میں نتھیا
گلی ملانا مشکل ہو گا ۔پیر سوہاوہ سے کوہالہ تک سڑک کا خواب ایوب خان نے
دیکھا تھا اور اس کے لئے بعد میں آنے والے سارے لوگ کوشاں رہے۔اب یہ
خوبصورت سڑک تھانہ لورہ کی حدود تک تو بن چکی ہے باقی کا اﷲ ہی حافظ ہے۔اس
جگہ جہاں تھانہ لورہ کی حدود شروع ہوتی ہے وہاں سے آ گے سڑک کسی رہبر کی
متلاشی ہے سنا ہے اب لوگوں کی قسمت کھلنے والی ہے عمران خان نے جہاں ملین
سونامی کا پہلا پودا لگایا تھا وہ بورڈ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انہیں آواز دے
رہا ہے کہ ہماری بھی سنیں۔
درکوٹ سے پندرہ کلو میٹر پہلے اور اس کے بعد پانچ کلو میٹر سڑک نامی چیز کا
وجود ہی نہیں ہے گاڑی ایسی سڑک پر ہچکولے کھاتی درکوٹ گاؤں سے ایک گلی میں
داخل ہوتی ہے جہاں سے کوہالہ شروع ہو جاتا ہے۔
اسی جگہ سے اگر اہل در کوٹ مہربانی کریں تو نلہ صرف دو کلو میٹر پر ہے لیکن
کیا جائے ہم لوگ صدقہ جاریہ نہیں کرتے اس مختصر سی زندگی کے لئے چند فٹ
راستہ نہ دے کر کون سا ثواب کمایا جا رہا ہے؟ بائیں ہاتھ جبری کی جانب جانے
والے راستے پر ہمیں اپنی منزل کی طرف جاتے ہوئے احساس ہوا کہ لوگوں نے ووٹ
نون لیگ کودیئے صوبائی اور قومی کی دونوں سیٹیں میاں صاحب کو ملیں لیکن اس
علاقے کی دو تین اہم سڑکوں کا نہ بننا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ کے پی کے
سے مایوس ہو چکے ہیں اور انہیں یہ علم ہو گا کہ کتاب ٹیکہ جنگل پٹواری ٹھیک
ہونے کے بعد ان کے نصیب میں کوئی سیٹ نہیں۔میں ایک ماں سے ملا جس نے کہا
بھائی اﷲ کا لاکھ لاکھ شکرر ہے کہ اب اسکولوں میں استاد آتے ہیں ہمارے بچوں
کو ملیشیا کے استحصالی لباس سے جان چھڑوائی گئی اب ہمارے بچے اسلام آباد کے
بچوں کی طرح اچھا لباس پہن کر جاتے ہیں۔اسکولوں میں کتابیں مفت مل رہی ہیں
ہسپتال جاؤ تو ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔جنگل کی بات کی تو کہنے لگی کہ محافظوں
نے جنگل کا ایک تیلا بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔وہیں ارشد بھی بیٹھا ہوا تھا
جو ایک ٹیکسی چلاتا ہے کہنے لگا ہمیں اسلام آباد رہنے کی کیا ضرورت ہے
ٹھنڈے پانی کے چشموں تازہ آب و ہوا میں ہمارے بچے پل بڑھ رہے ہیں۔ اس کا یہ
بھی کہنا تھا کہ پہلے جب میں گاڑی ہری پور لے کر داخل ہوتا تھا اچھی خاصی
رقم پولیس کو نذرانے کے طور پر دینی پڑتی تھی اب وہ عزت سے بلاتے ہیں۔علاج
معالجے کی سہولتیں لاہور میں نہیں ہیں ہمیں اﷲ کے کرم سے سرکاری ہسپتال میں
مل جاتی ہیں اس کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد کا کمپلیکس ہسپتال اسلام آباد سے
اچھا ہے ۔بھائی میر افضل نے بتایا کہ کہ ہمیں اﷲ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ
اس حکومت نے ہمیں سکھ کا سانس لینے دیا ہے ۔ارشد وہ نوجوان تھا جو دو سال
پہلے میرے گھر آ کر کہہ گیا تھا خان کو کہنا ادھر ووٹیں مانگنے نہ آئے۔یہاں
کوئی تبدیلی نہیں آئی۔یہ وہ کٹر مسلم لیگئے تھے جو قیام پاکستان سے لے کر
اب تک مسلم لیگ کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرے گاؤں
میں انگلش میڈیم اسکول راستے کی تعمیری کام بڑی شد و مد سے ہو رہے ہیں
ویلیج کونسل کے چیئرمین نے مجھے بتایا کہ فنڈز کی بھرمار ہے اور کام اتنی
تیزی سے ہو رہے ہیں کہ لوگ خوش ہیں۔میرے ساتھ لامنٹانا سے گاؤں کے دو لوگ
بھی سوار ہو کر آئے تھے ان میں ایک لیڈی کونسلر تھی میرے گاؤں کے حجام کی
بیوی تھی اس نے تایا کہ میں نے لیراں میں ایک کنواں کھدوایا ہے جس سے سب کو
فائدہ ہو رہا ہے۔جنگلات اس علاقے کا ایک بڑا کاروبار تھا لوگ لکڑیاں کاٹ
کاٹ کر اس کا صفایا کر رہے تھے اب کسی کی جرائت نہیں کہ ایک بوٹا بھی کاٹ
سکے محافظوں کو نوکریاں گھر کے پاس مل گئی ہیں انہوں نے جان پر کھیل کر
جنگل کو بچایا ہے پچھلے سال تو ایک گاؤں میں محافظ شہید بھی کیا گیا ۔میں
نے اپنے خوبصورت گاؤں کو بدلتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔سر سبز و شاداب مئی کے اس
مہینے میں وہ سارا علاقہ دیکھنے لائق ہے اب تو سنا ہے زمینوں کی خرید و
فروخت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے یہاں سیر گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔نلہ
گاؤں کے پی کے کا ایک گاؤں ہے جو ہزارہ کا ایک کونہ ۔اس علاقے کے ایم پی اے
مسلم لیگی ہیں انہیں اپنے اقتتدار کا سنگھاسن اپنے نیچے سے سرکتا ہوا
دکھائی دیتا ہے جبری بنگلہ نجف پور روڈ کی تعمیر کے لئے صوبائی حکومت نے دو
کروڑ دئے ہیں اور دیگر تعمیری فنڈز کے لئے گیارہ کروڑ رکھے گئے ہیں شنید ہے
حضور کی راجگیری کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے انہوں نے عدالت کا درواز کھٹکھٹا
کر حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے۔میں حیران ہوں یہ کون سا منصف ہے جو لوگوں
کی فلاح و بہبود کے راستے کی دیوار بن گیا ہے اور یہ کیسا نمائیندہ ہے جو
لوگوں کی زندگی آسان بنانے کی بجائے مشکل تر بنا رہا ہے؟جناب میاں صاحب
اپنے اس مہربان کو سمجھائیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے چار سال پہلے جب اقتتدار سنبھالا تھا تو لوگ کہتے
تھے کہ یہ خود منت کر کے مستعفی ہو جائیں گے بعین اس طرح جس طرح جواہر لعل
نہرو نے کہا تھا پاکستان چھ ماہ کے اندر اپنی موت آپ مر جائے گا۔یہاں
پاکستان زندہ و تابندہ ہے اور اسی طرح کے پی کے حکومت گڈ گورننس کے لحاظ سے
پاکستان کی بہترین حکومت قرار دی گئی ہے جس کی پولیس مثالی ،پٹوار کا نظام
اچھا اسکول ہسپتال بہتر ہیں امن و امان کی صورت حال پورے پاکستان سے بہتر
ہے یہاں کسی چھوٹو گینگ کا وجود نہیں ہے۔استاد بہترین معاوضہ پا رہے
ہیں۔ڈاکٹروں کو ایک لاکھ کے قریب تنخوا مل رہی ہے اور دیہات میں پابندی سے
نوکری کا ایک معاہدہ کرنے کے بعد اب کوئی ٹرانسفر نہیں کروا سکتا۔
دوستو!میں تحریک انصاف کا میڈیا پرسن ہوں لیکن میرا اﷲ جانتا ہے یہ تحریر
حب عمران میں مبتلاء ہو کر نہیں لکھی میں نے اپنے بھانجے کے ساتھ گاؤں کے
دور دراز علاقے میں گھوم پھر کر یہ تحریر لکھی ہے مسلم لیگ نون کے کٹر بندے
کے گھر سے حاصل کردہ معلومات میری اس تحریر کا باعث بنی ہیں۔مجھے کہنے
دیجئے کہ نلہ بدل چکا ہے اور اسی طرح خیبر پختونخواہ بھی۔انشاء اﷲ اگلا
الیکشن پی ٹی آئی کا ہے بشرط کے اس علاقے کے بڑے اب ٹوپی کسی اور کے سر
رکھیں اگر ٹکٹیں گھر میں ہی بانٹنی ہیں تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ پی ٹی
آئی پھر ہری پور ہار جائے گی۔میرے کہنے کا مطلب ہے ووٹ بن چکے ہیں اب
امیدوار کوئی نیا شخص ہو۔اس بدلے ہوئے پختوخوا میں پی ٹی آئی کے بڑوں کی
ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔
|