پاکستان کی شان ، پاک افواج

کتنے ہی قوم کے بیٹے خون میں نہلا چکے ہیں جن میں کیپٹن جنید،سپاہی امجد علی اورلیفٹینٹ خاورشہاب جیسے نوجوان شامل ہیں ۔ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں جو دیارغیر میں کسی اور نام سے اور کسی اور ہی شہریت سے دارفانی کو کوچ کرچکے ہیں ۔عمر مبین جیلانی جیسے کتنے ہی گمنام اسلام وپاکستان دشمن عناصر کے قبضے میں ظلم وستم سہہ کربھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہے ہیں ۔بعض اوقات تو ان کی میتیوں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے ادھوری میت ہی گھر کو بھجوادی جاتی ہے اور بعض معاملات میں تولواحقین کو چہرہ توکجا جسم کا کوئی حصہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوتا ۔فوج کا کام بلاشبہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے لیکن پاک فوج ایک لمبے عرصے سے ملک کے اندر جاری دہشت گردی کو قابو کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہے ۔ایسے کتنے ہی دہشت گردانہ منصوبے ہیں جو پاک فوج نے اپنی جان پرکھیل کر ناکام بنائے اور جن کی خبر تک ہمیں نہ ہوئی۔ایک واقعہ پر آسمان سرپر اٹھانے والے ہم لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس سے پہلے کئی واقعات ومنصوبے ایسے ہیں جن میں ہماری پاک فوج ،خفیہ اداروں اور پولیس کے جوانوں نے جان پر کھیل کر عوام کی جان کی حفاظت کی ہے ۔

اندرون خانہ ہوتی دہشت گردی کو قابو کرنے اور مودی سرکار کی طرف سے سرحدوں پر ہوتی دن رات ہوتی گولہ باری میں صف اول پر پاک فوج کے جوان ہی نظر آتے ہیں ۔سی پیک منصوبے کی حفاظت میں جُتی پاک فوج کو جہاں بیرونی سازشوں سے نمٹنا پڑرہا ہے وہی اندرون خانہ پک رہی کھچڑی سے بچنے کی کوششیں بھی کرنی پڑرہی ہیں ۔ایک ٹوئٹ پر اس قدر ہنگامہ اور اس قدر نعرے بازی کہ الامان الحفیظ!جمہوریت کی افادیت کو اپنی جگہ رہنے دیں ، اسی افادیت سے پی پی نے کئی ادوار حکومت میں گذارے اور اسی جمہوریت کے طفیل میاں صاحبان آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ نہ عوام کو روٹی ملی ، نہ کپڑا اور نہ ہی مکان اور نہ ملک کا قرض اترا۔عوامی طاقت سے شکست دینے کی باتیں کرنے والے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنا کیوں بھول جاتے ہیں اور یہ کس کوشکست دینے کی باتیں کررہے ہیں؟الغرض اس وقت پاک فوج اس قدر مصروف ہے کہ اسے اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ماضی قریب میں کئی بار ایسے ہوا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کے خلاف بے بنیاد مفروضے تراشے گئے ۔صاحبان اقتدار کے دلوں میں خوف کی پرچھائیاں اٹھی ہوں گی جب انہوں نے لکھا پڑھا ہوگا کہ ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘۔ایک بار تو بوٹوں کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی ہوگی لیکن اس بار ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جنرل (ر)راحیل شریف سے پہلے جنرل (ر) اشفاق کیانی نے ملازمت کے دورانیے میں توسیع کے باوجود جمہوری حکومت کو اپنی حکومت پوری کرنے دی۔راحیل شریف اس وقت اسلامی عسکری اتحاد کی کمان اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں بلاشبہ یہ ہم سب کے لیے قابل اعزاز بات ہے ۔آصف علی زرداری کے دورحکومت میں زرداری حکومت کو جو کچھ بھی کہا وہ عدلیہ نے کہا ،اس وقت کے چیف جسٹس نے ہی گیلانی صاحب کو گھر کی راہ دکھائی ۔پچھلے چند سال سے پاک فوج نے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔حکمرانوں کو سپریم کورٹ میں بلایا گیا ، انہیں گھر کی راہ دکھلائی گئی اور ان کے خلاف مظاہرے کیے گیے ۔ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے ایسے میں اگر پاک فوج کچھ کر گذرتی تو کون پوچھنے والا تھا ؟

پاک فوج کے خلاف ایک پنڈورا بکس کھولا جارہا ہے جس کی تانیں کہیں اور سے ہل رہی ہیں ۔واشگٹن سے نئی دہلی تلک باور کروایا جارہا ہے کہ ہم تو کام کررہے ہیں لیکن پاک فوج ہماری راہ میں حائل ہے ۔میرا یقین کامل ہے کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ پاک فوج کا ہے کہ اس نے اس قدر کامیاب سیکیورٹی کا انتظام کیا کہ یہ منصوبہ پروان چڑھا ۔آپ حکمرانوں کی لاکھ تعریفوں کے پُل باندھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اگر اس وقت سلامت ہے تو اللہ کے فضل وکرم کے بعد پاک فوج کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہے۔پاک فوج کو ایک طرح سے بے دست وپا کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں جس کی چالیں چل رہی ہیں۔فرق صرف اتنا سا ہے کہ پہلے یہ منصوبے کہیں اور بنتے تھے اور اب پاکستان میں بن رہے ہیں ۔سی پیک منصوبے نے امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی ٹھیکیداری کے آگے ایک طرح سے فل سٹاپ لگادیا ہے ۔بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نہتے کشمیریوں پر مظالم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور ہمارے حکمران بھارتی بزنس ٹائیکون سجن جندال سے ملنے کو بے چین ہیں ۔سجن جندال کے متعلق رائے عامہ میں یہ بات مشہور ہے کہ اس کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘سے ہے اس طرح کے بندے سے پاکستانی حکمرانوں کا ایسے وقت میں ملنا جب کشمیریوں پر بھارتی فوج اور انتظامیہ ریاستی دہشت گردی کی مرتکب ہورہی ہو بہت سارے سوالات کو جنم دیتی ہے لیکن کیاکریں جمہوریت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت اُڑی فوجی کیمپ پر حملے کا الزام ہمیشہ کی طرح پاکستان اورجماعۃ الدعوۃ کے امیرپروفیسر حافظ محمد سعید پر لگاتاہے اور اس کے بعد سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ کھیلا جاتا ہے جس پر بھارتی میڈیاخود ہی سوالات کی بوچھاڑ کردیتاہے ۔حکمران عناصر اور دوسرے لوگ پاک فوج کے خلاف جو مرضی بولیں ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں ہوتا مگر پاک فوج کی طرف سے ایک ٹویٹ پر وہ اودھم مچایا جاتا ہے کہ دوست دشمن کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے ۔دشمن عناصر کیا ہمارے حکمرانوں سے خوف زدہ ہیں ؟بھارت کیا حکمرانوں کے پاکستان کھپے اور قرض اتارو ملک سنوارو جیسے نعروں سے ڈرتا ہے ؟اس سوالات کا جواب یقینانفی میں ہوگا ۔حالیہ مردم شماری کے دوران کئی ایسے واقعات نظروں سے گذرے جو آنکھوں میں آنسو لے آئے ۔چھوٹے بچوں کو فوجی جوانوں سے ہاتھ ملاتے اور سیلوٹ کرتے دیکھا ، بوڑھی ماؤں کو مضبوط کندھوں پر سلامتی کے ہاتھ پھیرتے اور بہنوں کو فوجی بھائیوں کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے دیکھا۔

پاک فوج پاکستان کی فوج ہے اور ماضی قریب میں پاک فوج کوشش کرچکی ہے کہ حتی الامکان ارباب اقتدار سے دوررہا جائے۔یاد رکھیں اس بار اگر پاکستان پر آنچ آئی تو ہم بنگلہ دیش نام رکھ کر مستقبل کے سہانے خواب نہیں دیکھ پائیں گے ۔دشمن جانتا ہے کہ یہ 1971ء نہیں بلکہ2017ء ہے اور پاک فوج دنیا کی مانی ہوئی افواج میں سے ایک ہے ، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور دورمار کرنے والے بہترین ٹیکنالوجی سے لیس میزائل ہیں ۔ پاک فوج کے ہاتھوں لگنے والی پے درپے چوٹوں سے تخریب کاروں کے دماغ اضطراب میں مبتلا ہیں اور سامنے آنے سے ڈرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب ایک اور طرح سے کھیل کی بساط بچھائی گئی ہے ۔پاک فوج کو تہس نہس کرنا امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے کسی پاکستانی کا نہیں ۔ہم کتنے ہی احتجاج سہہ چکے ہیں اور کتنی بار دھرنوں اورجلسوں جلوسوں کی شکل میں ماڑ دھاڑ کو برداشت کرچکے ہیں ۔پاک فوج ہمارافخر ہے اور ہمارا سرمایہ ہے ۔اس کے ساتھ حکومت وقت کو محاذآرائی سے بچتے ہوئے معتدلانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ماحول کو ٹھنڈاکرنا ہوگا ۔کیونکہ ہمارے سیاست دان ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ عوام ان کی خاطرٹینکوں کے آگے لیٹ جائے اور نہ ہی فوج اس بار اس موڈ میں ہے کہ اقتدار میں آئے ۔حکومت آپ کے ہاتھ میں ہے تو اپنے قابل فخرادارے کو عزت دیں اور لیکس والے معاملے پرپاک فوج کے تحفظات کو دورکریں ۔حکومت اپنا کام کرے اور فوج کو اپنا کام کرنے دیں اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے ۔

Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61791 views Master in Islamic Studies... View More