ناصر باغ میں پی پی کی مرکزی قیادت نے ’’پنکھی
احتجاج‘‘ کیا۔ یہ احتجاج لوڈشیڈنگ کے خلاف تھا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،
احتجاج کرنے والے ہاتھوں میں پنکھیاں اٹھاکر خود کو ہوا دے رہے تھے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی تصویر بھی اخبارات کی زینت بنی ہے، جس میں وہ
ایک ہاتھ سے پنکھی ہلا رہے ہیں تو دوسرے سے بائیں مونچھ کو تاؤ دے رہے ہیں۔
پی پی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت نے قوم سے بجلی دینے کے وعدے پورے نہیں
کئے، اگر حکومت پاناما اور ڈان لیکس سے بچ بھی نکلی تو لوڈشیڈنگ سے نہیں بچ
پائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میاں شہباز شریف ہر بات پر نام تبدیل کرنے
کی بات کرتے ہیں، یہ کام پورے ملک کے مشورے کے بعد کیا جائے گا۔ پیپلز
پارٹی کے اس احتجاج پر پنجاب حکومت کے ترجمان نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پی پی کا یہ اقدام’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مترادف ہے، پی پی نے اپنے
دور میں ایک میگا واٹ بھی بجلی نہیں بنائی ، جبکہ ن لیگ کے دور میں ہزاروں
میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی، اور یہ بھی کہ غیر اعلانیہ
لوڈشیڈنگ وہاں ہو رہی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی خود کو اپوزیشن ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے،
مگر قوم ہے کہ اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہو رہی۔ پی پی کے
سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کئی مرتبہ واضح اعلانات کئے ہیں کہ اب
مفاہمت کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے، اب کھلی جنگ ہوگی، میثاقِ جمہوریت کی
بساط بھی لپیٹ دی گئی ، مشورے ختم، مخالفت شروع ۔ جلسوں میں میاں صاحبان کو
للکارنا اب اُن کا مزاج بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخواہ میں ایک جلسہ
میں زرداری نے یہاں تک کہا کہ ہم شہباز شریف کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالیں گے
، جو انہوں نے پختونوں کے کھائے ہیں۔ پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنا اتنا اہم
نہیں تھا، یہ محاورہ اکثر لوگ استعمال کرتے ہی رہتے ہیں، مگر اس کی خاص
اہمیت یہ ضرور ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جب آصف زرداری اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے صدر تھے ، تب پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف (جو شاید اس
وقت تک ’خادمِ اعلیٰ‘ کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے) اپنی ہر تقریب اور
جلسے میں یہی اعلان کیا کرتے تھے کہ زرداری کے پیٹ سے باہر بھیجے ہوئے پیسے
نکلواؤں گا، اور (وفاقی حکومت ملنے کی صورت میں )اسے اسلام آباد کی سڑکوں
پر گھسیٹوں گا۔موصوف کے برادرِ بزرگ کو حکومت ملے ہوئے چار سال کا عرصہ بیت
چکا، اگلے الیکشن کی مہم کا آغاز ہو چکا، مگراس دوران کسی نے زرداری کا پیٹ
نہیں پھاڑا، اسلام آبا د کی سڑکیں اور پورے ملک کے عوام زرداری کے گھسیٹے
جانے کے منتظر ہیں۔
سابق دور میں میاں شہباز شریف نے وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کا انوکھا
طریقہ اختیار کیا، انہوں نے صوبے کے چند بڑے شہروں میں ٹینٹ لگوائے، وہاں
دفاتر قائم کئے اور ان میں بجلی کے بغیر یعنی دستی پنکھے سے ہوا لینے کی
روایت کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ سرکاری طور پر ہونے والے اس بندوبست پر
لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، خود میاں صاحب نے ان دفاتر کے دورے
کئے اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اب پی پی رہنماؤں نے وہی
کام میاں برادران کے خلاف شروع کیا ہے تو یہ مکمل غیر قانونی اور غیر
اخلاقی کام ہے، جو کام مسلم لیگ ن اپنے مخالفین کے لئے کرے ، وہ بالکل جائز
اور ضروری، جو کام مخالفین کریں وہ غلط اور نامناسب۔ رہی بات نام کی تبدیلی
والی، تو اس میں بھی پی پی کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے، حالانکہ میاں
شہباز شریف کے بہت سے بیانات و اعلانات ایسے ہیں، جن میں ان کا کہنا ہوتا
تھا کہ اگر میں فلاں کام نہ کر سکوں تو میرا نام تبدیل کر دینا۔ یہ دراصل
میاں شہباز شریف کا اپنا مطالبہ ہے، اگر پی پی والے اُن کی یہ خواہش پوری
کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ یہ بات بھی بہت اچھی ہے کہ
نئے نام کے لئے پی پی اپنے طور پر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی، بلکہ اس
سلسلے میں پورے ملک سے مشاور ت ہوگی، امید ہے اس طریقے سے کوئی اچھا سا نام
سامنے آجائے گا، یا کم از کم متفقہ تو ضرور ہوگا۔انتخابی ضرورتوں کے لئے سب
کچھ چلتا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود دِل نہیں مانتا ، نورا کشتی کا تصور
ذہن سے چِپک کر رہ گیا ہے۔ |