آزادکشمیر میں سیاحوں اور سیاحت کی تلاشی بند کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

آزادکشمیر میں سیاحوں اور سیاحت کی تلاشی بند کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

رب العزت کی طرف سے انسان کے لیے دنیا کی عنائیات میں حسین نظارے ، خوبصورت وادیاں بھی کرم کی نظیر ہیں اور جنت کی مثالیں ہیں، جو فطرت کے شاہکار ہیں۔ ساری دنیا بالخصوص پاکستان کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان ، آزادکشمیر میں کہیں سمندر تو کہیں دریا، کوہ ہمالیہ سے لے کر چوٹیوں سمیت ہر طرح کے موسم اور عنائیات کے ایک سے بڑھ کر ایک سیرو سیاحت کے قدرتی مراکز ہیں، جن میں آزادکشمیر ، میرپور منگلا جھیل سے لے کر باغ سدھن گلی کی وادی، لیپہ کے سرشاداب مناظر، چشموں ، جھیلوں سمیت دریاﺅں کا ماحول اپنی مثال آپ ہے۔ ان سب میں وادی نیلم کا اپنا ایک امتزاج و مزاج ہے، گزشتہ عشرے سے کراچی سے لے کر پشاور تک ملک بھر سے سیر و سیاحت کے دلدادہ لوگوں کا آزادکشمیر آتے ہوئے وادی نیلم کا رخ کرنا اولین خواہش ہوتی ہے۔ جس کی بدولت آزادکشمیر جہاں روزگار کا ذریعہ صرف سرکاری ملازمتیں ہی تھیں روزگار کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باعث لوگ پاکستان کے مختلف شہروں میں پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں یا کاروبار اور محنت مزدوری سے منسلک چلے آرہے تھے، خطہ میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مقامی سطح پر کوئی امکان تھا نہ اس طرف توجہ دی گئی تھی۔ خصوصاً نیلم کے عوام کی پندرہ سال تک بھارتی گولہ باری ، فائرنگ کے مسلسل سلسلے سے زندگی ہی جہنم بن گئی تھی ایسے میں یکدم حالات نے پلٹا کھایاا ، امن قائم ہوا تو ملک بھر سے آنے والے سیاحوں نے نیلم کا رخ کرنا شروع کردیا۔ جس میں یہاں کے میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کا بھی کلیدی کردار شامل ہے، کوہالہ سے مظفرآباد خصوصاً نیلم میں سیاحت کے ثمرات سے کاروبار کا ایک نیا راستہ بننا شروع ہوا جس سے لوگوں کی زندگی میں معاشی لحاظ سے بہتری اور آسودگی کے حالات سازگار ہوتے جارہے ہیں اور اپریل کے آغاز سے ہی سیاحوں کی آمد شروع ہو گئی ہے، دنیا بھر میں جہاں جہاں سیاحتی مقامات ہیں اپنے اپنے مزاج ، عقائد کے مطابق سیاحوں کی آمد کو مختلف نام دیئے جاتے ہیں ، کوئی کہتا ہے سیاحوں کی شکل میں رب کی آمد ہوتی ہے یعنی رزق رب دیتا ہے اور یہ رب کی رحمتیں ، برکات ہیں، لہذا سب کا اس طرح ہی خیال رکھا جائے جس طرح رزق کا تقدس ہے، یہ سیاح اچھا پیغام ، یادیں لے کر واپس جائیں تو ان کے وسیلے سے یہ مہمانوں کی آمد کے میلے ہمیشہ سجے رہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اداروں کے فرائض کی طرف جائے بغیر صرف دو معاملات ایسے ہیں جو فوری نوعیت کے ہیں، ایک کوہالہ سے مظفرآباد ، نوسیری تک اسی طرح پونچھ اور بھمبر، میرپور سے بھمبر تک پلوں، شاہرات پر خصوصاً کوہالہ سے نوسیری سکیورٹی کے نام پر جگہ جگہ گاڑیاں کھڑی کرکے ناکے اور سائیڈز پر بغیر کسی جواز کے تلاشیاں سیاحت کے ساتھ دہشت گردی کے مترادف ہے ، باضابطہ چیکنگ پوائنٹ پر کیمرے نصب ہیں۔ سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خاص اطلاع یا مشکوک حرکات پر، نشاندہی کے مطابق روک کر تلاشی لی جا سکتی ہے مگر اس کے بغیر ماسوائے شناختی کارڈ چیک کرنے کے باقی کس طرح کی پوچھ گچھ اور گاڑیوں سے اتار کر مجرموں کی طرح کھڑے کردینا، رسوا کرنے جیسا عمل ہوتا ہے جس کا حکومت اور انتظامیہ ، پولیس آفیسران کو سختی سے تدارک کرنے کے لیے ہیلپ لائن نمبرات کا اہتمام کرنا چاہیے، بغیر کسی اطلاع ، وجہ کے سیاحوں کو روکا جائے تو کال کرکے شکایات کرسکیں جبکہ تاﺅ بٹ سے کوہالہ اسی طرح باقی اضلاع میں بھی انتظام ضروری ہے ، سیاحوں کو عزت و احترام سے ویلکم کہا جائے نہ کہ تنگ کرکے برے ماحول کو جنم دیں ۔تاجروں کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ ہرہوٹلنگ سے لے کر کمروں ، کھانوں ،اشیاءخورو نوش وغیرہ کا وہی انراخ وصول کریں جو عام طور پر ہوتے ہیں، کمروں کا ہزار ، پندرہ سو روپے کے بجائے پانچ پانچ ہزاروپے کرایہ ، برگر ، انڈے ، چائے وغیرہ سو سو روپے اور کھانوں کا غیر معیاری ہونا پھر مہنگے داموں فروخت کرکے لوٹ مار کرنا روز انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کردینے کے مترادف اور ناشکری کا مرتکب ہو کر عذاب الٰہی کو دعوت دینے جیسا عمل ہے۔ لہذا سیاحوں کے راستے کے تمام ہوٹلوں، خریداری کے مراکز ریسٹ ہاﺅسز وغیرہ پر نمایاں طور پر بڑے بڑے پینا فلیکس یا بورڈ وغیرہ نصب ہونے چاہیے تاکہ ناجائز انراخ کی صورت میں سیاح فوری ہیلپ لائن نمبرات پر اطلاع دیں-

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.