لیپ ٹاپ یا کلاشنکوف؟

 وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے سوال اٹھایا ہے ، سوال بہت اہم ہے، ویسے سوال ہوتے ہی اٹھائے جانے کے لئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’ میں بچوں کو لیپ ٹاپ نہ دوں تو کیا کلاشنکوف دوں؟‘‘۔ جواب بہت سادہ اور مختصر ہے، کہ جناب کلاشنکوف نہیں، لیپ ٹاپ دیں۔ جواب پر عمل بھی ہو رہا ہے، کہ لیپ ٹاپ دھڑا دھڑ دیئے جارہے ہیں۔ جب وزیراعلیٰ نے لیپ ٹاپ کی سکیم کا آغاز کیا تھا تو ’بچوں ‘سے یہ کہا تھا کہ اس سے بہتر پاکستان کی تعمیر کا نقشہ بنائیں، اس سے نیا کرپشن فری معاشرہ تشکیل دیں۔ لیپ ٹاپ تقسیم سکیم سے وزیراعلیٰ کو بے شمار امیدیں تھیں، اور اب بھی ہیں، اگر زیادہ امیدیں نہ ہوتیں تو یہ سکیم کب کی دم توڑ چکی ہوتی۔ جن نتائج کا انہوں نے خواب دیکھاتھا، یقینا وہ اس سے مطمئن ہی ہیں تو سکیم زور شور سے جاری ہے۔ پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ جہاں یہ لیپ ٹاپ تقسیم ہونا ہوتے تھے وہاں لاکھوں روپے کے اخراجات کرکے اس سکیم کے بانی خود بہ نفسِ نفیس وہاں تشریف لے جاتے تھے۔ نوجوانوں سے انقلابی خطاب فرماتے ، ماحول کو گرماتے اور لیپ ٹاپ تقسیم کرکے شاداں و فرحاں واپس لوٹ جاتے۔ مگر جب اس روایت نے زیادہ زور پکڑ لیا اور ہر ضلعی صدر مقام پر لیپ ٹاپس کے ٹرک پہنچنے لگے تو پھر وہاں کے مقامی وزیروں وغیرہ سے کام چلایا جانے لگا، مزید بات بڑھنے پر متعلقہ ادارے کے اساتذہ اور اس کے بھی بعد وہاں کے ایڈمن کے ملازمین نے یہ کارِ خیر سرانجام دیا۔

جو نوجوان لیپ ٹاپ کے حقدار قرار پاتے ہیں، ان کی خوشی بھی دیدنی ہوتی ہے، کیونکہ نوجوانی میں جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے ان میں لیپ ٹاپ بھی ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ موجودہ زمانے میں لیپ ٹاپ ایسا خواب نہیں رہا، جس کی حسرت کی جائے، مگر مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟ لیپ ٹاپ میرٹ پر دیئے گئے، مگر میرٹ میں یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ یہ کس کس کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں کے کن شعبوں میں یہ معاون ہے اور کون سے اس کے بغیر بھی اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں؟ پھر دنیا نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ خبر میڈیا میں آئی کہ سیکڑوں نوجوان دومرتبہ لیپ ٹاپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایسی باتوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور انکوائریوں کو عوام کے سامنے کم ہی لایا جاتا ہے، کیونکہ جو سکیمیں وزیراعلیٰ کی من پسند ہیں، ان کے بارے میں وہ کوئی بھی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیپ ٹاپس کے بارے میں مخالفین بھی اپنی سی کوششیں جاری رکھتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ حکومت نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دینے کی سکیم اس لئے شروع کی کہ نوجوانوں کا زیادہ رجحان عمران خان کی طرف تھا، اس سکیم سے انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ لیپ ٹاپ سے نہ تو تعلیمی معیار میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی شرح خواندگی میں۔

رہی بات لیپ ٹاپ اور کلاشنکوف کے فرق کی تو جناب ! اپنی قوم جدید دور کے آلات کے استعمال میں طاق ہے، کہا جاتا ہے کہ جس قدر پاکستان میں موبائل استعمال کئے جاتے ہیں، شاید ہی کسی اور ملک میں اتنے ہوں، ان میں استعمال ہونے والی ’سِموں‘ کی تعداد شاید پاکستان کی پوری آبادی کے برابر ہی ہو۔ اس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ موبائل پاکستان کے ہر فرد کی اتنی ضرورت ہے کہ اس کے پاس ہر صورت میں ایک سے زیادہ سمیں ہوں۔ ان کا اتنا درست استعمال نہیں ہوتا جتنا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اب نیٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے، وٹس ایپ اور سماجی رابطوں کے دیگر ذرائع کو بروئے کار لا کر اپنی قوم بھر پور مصروفیت میں اپنا وقت گزارتی ہے، آپ کسی وقت بھی کسی کو فارغ بیٹھا نہیں دیکھیں گے۔یہی کچھ لیپ ٹاپ کے ذریعے ہو رہا ہے، بلکہ موبائل سے بھی زیادہ ۔ نیٹ کی سہولت عام ہے، وائی فائی بہت سے مقامات پر مفت دستیاب ہے، ویسے بھی کمپنیوں نے سستے پیکیج دے رکھے ہیں، کون نہیں جانتا کہ اپنی قوم لیپ ٹاپ کے غیر ضروری اور فضول استعمال سے اخلاقی تباہی کے دہانے کے قریب پہنچی ہوئی ہے ، بہت کم لوگوں کو حقیقی ضرور ت ہے، ورنہ فرق یہی ہے کہ کلاشنکوف انسان کو قتل کرتی ہے اور ’یہ‘ انسانیت کو۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472278 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.