”آزاد کشمیر اسمبلی کی 12نشستیں اور پہلی محبت سے معاشقہ “

پاکستان میں ٹویٹ کا ڈان لیکس ایشو پر تصفیہ ہو جانے کے بعد پورے ملک کی طرح آزاد کشمیر میں بھی ن لیگ والے خوش ہیں تو حقیقت پسند سیاسی حلقے بھی مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیںاور پاک افواج کے آئین قانون ڈسپلن کے پابند ہونے کا بھی لائق تحسین ثبوت ہے جس کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ کے ساتھ چین کے سرکاری دورے پر روانہ ہو گئے ہیں جس میں سی پیک سے متعلق اہم معاہدات پر دستحط ہو ں گے، اس کے ابتدائی مرحلے میں جب صدر پاکستان و آصف علی زرداری چین کے دورے پر گئے تھے تو آزاد کشمیر کے وزیر اعظم وقت چوہدری عبدالمجید کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم آزادکشمیر، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو بھی ساتھ لے جاتے تو عملی یکجہتی کی نئی تاریخ رقم ہو جاتی وہ نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ دیکھنے آئے تو کشمیر کی بیٹیوں سے متعلق دو لفظ بول دیتے یہ سب بھی مریم کی طرح میری بیٹیاں ہیں ان پر ظلم و ستم بند کیا جائے مگر اس وقت ڈان لیکس کا شور تھا کوئی بات نہیں، اب چین جاتے ہوئے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے سربراہان حکومت کو بھول جانا ان کے دعوے وعدوں کو روائیتی سیاست کا رنگ دینے کے مترادف ہے جس پر گلگت بلتستان میں مخالفین نے وزیر اعلیٰ کو طعنے دینا شروع کر دیئے ہیں یہاں آزاد کشمیر کی مختلف صورتحال ہے اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی نے گلگت صوبہ نان ایشو چھوڑ کر اندرون آزاد کشمیر حقیقی ایشوز پر توجہ دینی شروع کر دی ہے۔ پارٹی صدر لطیف اکبر کی صدارت میں پارلیمانی پارٹی عہدیداران ٹکٹ ہولڈر کے اجلاس میں اندرون ایشوز کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر یوم احتجاج منانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ یہی وہ فریضہ ہے جس پر پوری جان فشانی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے ، وزیر اعظم فاروق حیدر نے بھی کوٹلی ایل او سی پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے زخمی ہونے والے شہریوں کی عیادت کرتے ہوئے ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے کے احکامات جاری کئے ہیں ، میرپور ڈویژن کے تین روزہ دورے اور پھر نیلم میں جا کر برائے راست عوامی مشکلات سے عوامی آگاہی تعمیر و ترقی سرکاری امور سے متعلق نگرانی کے تاثر کو فروغ دیا ۔ آزاد حکومت کے وجو دمیں کشمیری مقیم پاکستان جن کو مہاجرین کی اصطلاح میں قانون ساز اسمبلی کے اندر بارہ نشستوں پر نمائندگی حاصل ہے کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے جس پر سب مختلف رائے رکھتے ہیں ان کے حوالے سے گزشتہ انتخابات سے قبل ایک رٹ پٹیشن عدالت العالیہ میں زیر سماعت رہی جہاں سے خارج ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں طویل بحث چلی ، موجودہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ریٹائرڈ منظور الحسن گیلانی سمیت سینئر وکلاءنے ان نشستوں کو غیر آئینی قرار دیا تمام جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن اور بار ایسوسی ایشن سمیت مکاتب فکر کی رائے لی گئی جو آئینی قانونی پہلوﺅں سے اتفاق رائے پر مبنی تھی ،عام انتخابات آئے تو خاموشی چھا گئی چیف جسٹس اعظم خان بھی ریٹائرڈ ہو کر چلے گئے ۔ اب انتخابات کو گزرے نو ماہ مکمل ہونے پر ایک بار پھر سینئر قانون دان کے ڈی خان امجد علی خان نے اپنی اپیل میں بھولے بسرے قصے کو تازہ کر دیا ہے، جو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ابراہیم ضیاء، جسٹس راجہ سعید اکرم پر مشتمل بینچ تشکیل پایا ہے ، اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے بارہ نشستوں کو ختم قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئین کا حصہ ہیں نہ قانونی حیثیت رکھتی ہیں کشمیری مقیم پاکستان وہاں کے شہری ہیں جن کو سینیٹ قومی صوبائی اسمبلیوں ، سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی حاصل ہے تو ہر شعبہ زندگی میں وہ تمام تر حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کو شہریوں کو ملتے ہیں، نیز آزاد کشمیر کے آئین اسمبلی حکومت کا اختیار خطے کے اندر کی حدود میں ہوتا ہے اس سے باہر نہیں ہوتا۔ جو شخص آزاد خطہ کے اندر ٹیکس ادا کرتا ہے وہی یہاں حکمرانی کا حق رکھتا ہے جو یہاں ٹیکس ادا نہیں کرتا اسے یہاں نمائندگی اور حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ڈوگرہ کے ریاست میں نافذ العمل قانون شہریت کے تحت بھی جو لوگ ریاست چھوڑ کر باہر منتقل ہو چکے ہیںوہ ریاست میں ازخود تمام حقوق سے دستبردار ہو گئے ہیں ۔ وکلاءنے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے آزاد کشمیر حکومت کشمیر کونسل یہاں کے بجٹ کے پیسوں سے بیرون آزاد کشمیر ایک بھی پیسہ سکیموں یا کسی بھی نام پر خرچ نہیں کرسکتی ہے۔ اب دیکھنا ہے فریقین و بارہ ممبران جواب میں کیا عذر ، جواز ، اصول پیش کرتے ہیں ۔ اس کے بہت سے ظاہری پوشیدہ پہلو ہیں جو سماعت کے آغاز سے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ کے ڈی خان کا شمار جرات مند دلیر اصول و دلیل کی بات کرنے والے وکلاءمیں ہوتا ہے، یہ بھی گزشتہ انتخابات میں انصاف میرٹ اجتماعی بھلائی کے ویژن سے متاثر ہو کر ن لیگ میں شامل ہوئے تھے ، مگر یہ خود تو نہیں تاہم ان جیسے دیگر بائیں بازو کی جماعتوں سے شامل ہونے والے بڑے بڑے ناموں سمیت سادہ کارکنوں ووٹرز کے تاثرات سننے کا موقع ملتا رہتا ہے جن کا خیا ل ہے سیاست واقعی بے رحم کھیل ہے۔ صرف تبدیلی نام کا اہتمام ہوا تھا عملاََ وہی پہلے والی جماعت اپنے پورے مائنڈ سیٹ مزاج عادات کے ساتھ برسر اقتدار ہے ، باہر سے تو صرف مشتاق منہاس ، چوہدری محمد سعید ، نواز شریف کی قربت داری سے داخل ہو گئے ، باقی سب وہی پرانے گملے ہےں جو سارے کھیل میں اپنی پہلی محبت سے اوپر سے نیچے تک ناز و نخروں کے ساتھ معاشقہ چلا رہے ہیں۔ یہ سب متمئن اور خوش ہیں مگر پہلی محبت کے علاوہ دیگر جماعتوں سے آنے والے کارکن لیڈر ووٹرز نئی رتوں کے جنون میں مر مٹے تھے اب اپنی پرانی صحبتوں کو ڈھونڈ رہے ہیںمگر پہلی محبت سے تعلق رکھنے والے سادہ لوح کارکن اور ووٹر ز بھی گھریلو خواتین کی طرح آپس میں گلے شکوے میں ہی مصروف رہتے ہیں ان کا بھی اپنا رونا ہے پہلی محبت میں بھی اس وقت کے گروپ کو درجہ اول حا صل ہے پہلی محبت کو دوسرا درجہ اور ہم جو اس وقت بھی خا ص میں شما ر نہیں ہو تے تھے کو اب بھی تیسر ے،چو تھے درجے کا حقدار بھی نہیں سمجھا جا رہا ہے صورتحا ل بس یو ں ہے بقول شاعر:
وہ ساری خوشیاں جو اسنے چاہیں
اٹھاکر اپنی جھولی میں بھر لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے

 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.