پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام
شعبہ اردو ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی
بچپن کی یادیں انسان کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس عمر میں
اس کے دل و دماغ میں اپنے گھر، خاندان، عزیزو اقارب، ارد گرد کا ماحول،
سکول، جھیل اور دریا، کھیت کھلیان یعنی ہر وہ چیز جس سے اس کا واسطہ پڑتا
ہے ، اس کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوتا ہے۔ زندگی کا یہ ایسا دور ہوتا ہے
جس میں کئی قسم کے سوال بچوں کے معصوم دل ودماغ میں گردش کرتے ہیں۔ جب بھی
اس کے سامنے کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس سے وہ لاعلم ہوتا ہے وہ فورا اس کے
بارے میں جاننے کے خواہشمند ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے سوالات
کا پٹارا لیے پھرتے ہیں۔ ان کے دل میں جس طرح کے بھی خیالات آتے ہیں ان
کاحل بھی وہ فورا ہی چاہتے ہیں۔ آپ ان کے سامنے کوئی بھی بات کریں وہ سوال
ضرورت پوچھیں گے۔ ان کی اسی بے چینی کو سامنے رکھ کر درس و تدریس کے جو
مواد تیار کیے جاتے ہیں ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کیا یہ
بچوں کو مطمئن کر پائے گا۔ ان کے دل ودماغ میں آنے والے خیالات اور سوالات
کا حل اس مواد میں موجود ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ گھر اور خاندان میں
بھی جب اس کے کان میں کوئی ایسی بات سنائی دیتی ہے جسے وہ نہیں جانتا تو وہ
سوال کرنا نہیں بھولے گا۔ یہیں سے اسکی زندگی کی ترقی کا سفر شروع ہوتا
ہے۔اگر اس وقت ان کے سوالات کا صحیح جواب مل جائے تو اس کے سیکھنے کی
صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی بنیا د بھی مضبوط ہوتی ہے جس کی وجہ سے
مزید معلومات اور علم حاصل کرنا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ
بڑا ہوتا جاتا ہے، سکول، کالج کے نصاب اور استاد کی بتائی باتیں سن اور پڑھ
کر اسکی شخصیت میں نکھار آتا جاتا ہے۔یہی باتیں اسے خاندان اور سماج میں
اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔اس لئے والدین کے ساتھ
بڑوں کو بھی چاہیے کے بچوں کے سامنے ایسی باتیں کریں جنہیں سن کر ان کو کچھ
سیکھنے کو ملے، ان کی دلچسپی اس بارے میں پیدا ہواور جس کا سیکھنا ان کے
لئے لازمی ہو۔
عارف کسانہ صاحب کو یا تو پچپن کی یہ باتیں اور تجسس آج بھی بے چین کرتے
ہیں یا پھروہ اس موضوع پر لگاتار سوچتے رہتے ہیں۔اسی لئے جب انہوں نے بچوں
کے لئے سبق آموز کہانیاں لکھیں تو بچوں کی طرح سوچتے ہوئے چھوٹی ، چھوٹی
باتوں اور سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی تشریح کو اپنی کہانیوں میں
بخوبی سجایا اور سنوارا ہے۔اس موضوع کی بنیاد اور روح دونوں ان کہانیوں میں
سمٹ گئی ہے۔اس طرح جو باتیں ابھر کر سامنے آئیں وہ بچوں کیلئے دلچسپ بھی
بنیں اور علم کا ذریعہ بھی۔ اس طریقہ کار سے بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت میں
اضافہ ہوتا ہے اور مزید جاننے کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ عارف کسانہ
صاحب نے بچوں کو سکھانے کیلئے یہ موضوع چنا جسے جاننا ان کیلئے لازمی ہے
تاکہ بڑے ہوکر ان کی سیکھنے کی طلب بڑھے اور وہ خود اس تعلق کے حوالے سے
چھان بین کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ یہی اس
کتاب کا مقصد ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت قابلِ ستائش ہے اور ان کی اس کوشش
کی تعریف کی جانی چاہیئے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ چھوٹی سے کتاب اور اس میں شامل
کہانیاں بچوں کو اپنا مذہب اور اسکی اہمیت جاننے میں مدد گار ثابت ہونگی۔
امید ہے کہ عارف کسانہ صاحب کی یہ کوشش بچوں کے ادب میں ایک اضافہ ہوگی۔ |