مسئلہ قومی اور مقامی زبانوں کا!

 قومی اور مقامی زبانوں کی اہمیت میں اضافہ کئے جانے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں، یہ کارِ خیر صدرمملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے ایک وفد سے ملاقات میں سرانجام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’․․․ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے اپنی زبان کے ذریعے ہی ترقی کی ہے ․․․تمام متعلقہ ادارے تجربات سے فائدہ اٹھا کر قومی زبان کے فروغ کے لئے کام کریں ․․․اردو کے فروغ کے لئے لسانیات کے جدید اصولوں کے مطابق تحقیق و ترقی کا کام بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا ․․․جدید علوم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان علوم کے تراجم قومی زبان میں کئے جائیں ․․․ ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی اہمیت اجاگر ہونی چاہیے،تاکہ ان زبانوں کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے ․․․‘‘۔ ان معاملات میں انہوں نے اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ کسی بات کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب وہ کسی اہم آدمی کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اب قومی اور مقامی زبانوں کے بارے میں پاکستان کے آئینی سربراہ نے بیان وغیرہ دے دیا ہے، اس لئے فروغ کا کام بہت تیز رفتاری سے جاری ہو جائے گا۔ زبان تو ابلاغ کا اہم تر ذریعہ بھی ہے، بات کی بنیاد زبان ہی ہے، پاکستان میں بہت سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر تمام زبانوں کو اکٹھا کرکے گلدستہ کی صورت میں یوں یکجا کیا جاسکتا ہے۔ یہ گلدستہ ’اردو‘ کہلاتا ہے۔ مگر اپنے ہاں قومی زبان یعنی اردو ہی عدالتوں اور حکومتوں کے ایوانوں میں دستِ سوال دراز کئے ہوئے ہے۔ ایسا عجوبہ کس ملک میں ہوگا جہاں قومی اور سرکاری زبانیں مختلف ہونگی۔ کچھ عرصہ سے اردو سرکاری زبان قرار پا چکی تھی، مگر شاید مقتدر طبقات میں کوئی بھی یہ صدمہ برداشت کرنے پر آمادہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ اوپر سے نیچے تک فیصلہ اور عمل کرنے والی قوتیں اردو کے نفاذ کے بارے میں سنجیدہ ہی نہیں۔

صدر مملکت نے مقامی زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا بھی حکم دیا، تاکہ ان زبانوں کومعدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔ دیکھیں اس حکم پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ یہاں تو قوانین، آرڈیننس اور دیگر احکامات پر عمل نہیں ہوتا، ایک زبانی اور رسمی حکم پر عمل کہا ں سے ہوگا۔ مقامی زبانیں دھیرے دھیرے صفحہ ہستی سے اپنا وجود ختم کرتی جارہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اپنی زبانیں بولنے والے جب اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں تو عام آدمی بھی اردو میں بات کرتا ہے، اشرافیہ کی اپنے بچوں سے ملاقات ہو جائے تو وہ انگلش میں بات کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری آنے والی نسل اپنی اپنی مادری زبان سے فارغ ہوتی جارہی ہے۔ مقامی زبانوں کے وجود کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی بندوبست اپنے پاس موجود نہیں، اگر ہے بھی تو ناکافی ہے۔

پاکستان کے آئینی سربراہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دنیامیں اپنی زبان میں ہی ترقی کی جاتی ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنی زبان کو نہیں چھوڑا، بلکہ اب بھی وہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جاکر بھی اپنی زبان اور اپنے لباس کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے ارد گرد جتنے ممالک بھی موجود ہیں، وہ اپنی زبان اور لباس کی مکمل پاسداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو کی خوبی یہ ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں مختلف زبانیں بولنے والے اردو بول، لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ پاکستانی عوام کا دوسرا بہت اہم مسئلہ یہ کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہت ہی کم سطح پر ہے، جس کی وجہ سے انگلش کو سمجھنا اور لکھنا پڑھنا عوام کے لئے آسان نہیں۔ جو انسان اپنی مقامی زبان کے پڑھنے لکھنے پر قادر نہ ہو وہ غیر ملکی زبان کیسے سیکھ سکتا ہے۔ اب تو اپنی حکومتوں نے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی طریقہ تدریس کو انگلش قرار دے دیا ہے، جس سے بچوں کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے، کیونکہ جن بچوں کے والدین خود اَن پڑھ ہیں، ان کے بچوں کو تعلیم جاری رکھنا کتنا مشکل ہے۔ جس ملک میں اپنی قومی اور پورے ملک میں سمجھی اور بولی جانے والی زبان کی بقا کے لئے کوئی اہتمام نہ کیا جارہا ہو، قوم کے لئے آسانی پیدا کرنے کا بندوبست نہ ہورہا ہو، اسے سرکاری زبان بنانے میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، وہاں مقامی زبانوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے، یا اُن پر کون توجہ دے گا؟ ہاں البتہ پاکستان کے آئینی سربراہ کے حکم دینے پر ممکن ہے مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ قومی زبان کو بھی ابھار کا موقع مل جائے، آخر صدر نے مداخلت کی ہے،کوئی بات تو بننی چاہیے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428153 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.