کشمیری سنگ باز

محمد عبداﷲ حیدر آباد
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قومو ں کو آزادیاں حاصل کرنے کے لئے آگ اور خون کے دریاؤں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی صبح روشن دیکھنے کے لیے کتنی تاریک اور غمگین راتوں کو اپنی آنکھوں پر جھیلنا پڑتا ہے۔ اس نعمت آزادی سے فیضیاب ہونے کے لیے کتنے بوڑھے باپوں کو اپنے جواں سال بیٹوں کیمیتوں کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے، کتنی ماؤں کو اپنے بیٹوں کے سر سہرے سے سجنے کی بجائے کفن میں میں لپٹے دیکھنے پڑتے ہیں، تب جاکر آزادیوں کا سورج غلامیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں کو چیرتا ہوا طلوع ہوتا ہے۔ چشم فلک نے سینکڑوں قوموں کو اپنی آزادی کی جنگ لڑتے اور لہو بہاتے دیکھا ہوگا مگر آفرین ہے اس خوش نصیب کشمیری قوم پر کہ جو کئی دہائیوں سے ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اور اپنی آزادی کی خاطر قربانیاں دے رہی ہے۔ سلام ہے، ان کے جذبہ حریت کو جو وہ سالہا سال کی سربیت کی داستانوں کے باوجود بھی اپنی آزادی کے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور ہر بڑھتے ظلم کے ساتھ ان کے مطالبہ آزادی میں شدت ہی آرہی ہے۔ کوئی ذرا سی کمی بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
بھارت کی ظالم افواج کے ہر ظلم و ستم کے جواب میں کشمیریوں کا فقط ایک ہی نعرہ ہے، وہ ہے
’’ہم کیا چاہتے .....آزادی۔‘‘

یوں تو بھارتی افواج قیام پاکستان سے ہی جموں و کشمیر کی وادی میں بربریت کا کھیل کھیل رہی ہیں اور ہر طرح کے ظلم روا رکھنے کے باوجود بھی وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں ناکام رہی ہیں اور آزادی کی تحریک پہلے سے زیادہ آب و تاب سے سامنے آتی جارہی ہے۔ مگر گزشتہ سال جولائی میں بطل حریت برہان وانی کی بھارتی افواج کے ہاتھوں شہادت کے بعد سے جیسے جیسے مظالم میں اضافہ ہوتا گیا، ویسے ویسے کشمیریوں کی آ زادی کی تحریک میں تیزی آتی گئی اور تحریک میں اب یہ تیزی فقط آزادی کے مطالبوں، جلسے ،جلوسوں اور نعروں تک محدود نہ تھی، بلکہ اب کی بار بچے،بوڑھے، جوان، عورتیں اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سب کچھ چھوڑ کربھارتی افواج کی بکتر بند گاڑیوں اور گنوں کے مقابلے میں ہاتھوں میں پتھر لیے سڑکوں پر آموجود ہوئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد تحریک انتفاضہ میں بدل چکی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سکول بیگز میں بجائے کتابوں کے پتھر جمع کرکے لے جارہے ہوتے ہیں اور جہاں بھارتی افواج کی کوئی ٹولی نظر آتی ہے، ادھر ہی یہ ننھے منے سنگ باز پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں ۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت نے اپنے تئیں ہر کوشش کر کے دیکھ لی کہ کسی بھی طریقے سے کشمیریوں کے اس جذبہ حریت اور بھارتی افواج سے نفرت اور انتقام کو ختم کرسکے اور نہیں تو اس کو اقوام عالم کے سامنے واضح ہونے سے روک سکے۔ اس مقصد کے لیے کرفیو کا نفاذ، میڈیا پر پابندی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش غرض یہ کہ ہر حربہ استعمال کیا گیا مگر اہل حریت نے بھارت سے نفرت اور آزادی کی لگن اور تڑپ کا پیغام ہر طرف پہنچاکر بھارت کی ناک میں دم کیا۔ اس کے لیے انہوں نے بھارتی کرنسی اور اپنے سیبوں پر بھارت سے نفرت اور آزادی کے نعرے لکھ کر پوری دنیا کوپیغام دیا کہ وہ صرف آزادی چاہتے ہیں۔

برہان وانی کی شہادت سے شروع ہونے والی سنگبازی کی تحریک جو اب تحریک انتفاضہ میں بدل چکی ہے جس کی بھاگ دوڑ اب کشمیری طلبا ء و طالبات کے ہاتھوں میں ہے۔ ان میں سکول کے ننھے منے طلبا سے لے کر یونیورسٹی کے پوسٹ گریجوایٹ طلبا و طالبات بھی شامل ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں، جن میں سے کسی کا بھائی شہید ہے تو کسی کا باپ، کسی کی ماں بھارتی دکھوں کی ماری ہے تو کسی کی بہن لاپتہ…… اسی وجہ سے ان کشمیری طلبا کے دلوں میں بھارتی افواج کے لیے نفرت اور انتقام کا ایک لاوہ ہے جو پھٹ رہا ہے اور اک سیل رواں ہے جو بھارت کے سبھی لشکروں کو بہا لے جائے گا۔ ان شاء اﷲ

انٹرنیت اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی حالیہ ویڈیوز جنہوں نے وادی کے ہر پیر و جواں کو بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا کر دیا ہے کہ جس میں کشمیر کی شہزادیاں اپنے سکول اور کالج بیگ پہنے ہوئے ہاتھوں میں پتھر لیے بھارتی افواج کی بکتر بند گاڑیوں اور توپوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہیں اور بزدل بھارتی فوجی ان کے سامنے بھاگ رہے ہیں۔ یہ کشمیر کی وہ عفت مآب بیٹیاں ہیں جو اپنے بھائیوں اور باپوں کی شہادتوں کے بعد بیرونی دنیا کے ابن قاسموں کاانتظار کرنے کی بجائے خود میدان میں نکل آئی ہیں ۔ اس تحریک انتفاضہ کے روح رواں وہ طلبا ہیں جو ساری ساری رات پتھر جمع کرتے ہیں اور صبح ہوتے ہی سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکل کر کشمیر کی گلیوں اور کوچوں میں ظالم و جابر بھارتی افواج کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ ماہ ایسے ہی ایک مظاہرے کے بعد بھارتی فوج ایک کالج میں گھس گئی اور وہاں موجود پچاس کے قریب طلبا و طالبات کو زخمی کردیا۔

یہ خبر پوری وادی میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور آناًفاناًسبھی تعلیمی اداروں کے طلباو طالبات نے ہاتھوں میں پتھر لیے اپنے زخمی بھائیوں اور بہنوں کا بدلہ لینے کے لیے سڑکوں پر آکر بھارتی افواج پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ بھارتی سورماؤں نے اس صورتحال میں گھبرا کر اندھا دھند فائرنگ اور شیلنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں سینکڑوں طلبا و طالبات زخمی ہوگئے اور کئی اپنی جان کی بازی ہار کرہمیشہ کے لیے جیت گئے۔ انہی میں سے ایک کشمیر کا نوجوان صحافی بھی تھا۔

بھارتی افواج اس تحریک انتفاضہ کی وجہ سے زبردست دباؤ اور خوف کا شکار ہے۔ اسی گھبراہٹ اور خوف کی وجہ سے ان ظالم بھارتی درندوں نے ایساکام کیا کہ جس نے چنگیز اور ہلاکو خان کی یاد تازہ کردی کہ جو اپنے مخالفین کے سروں کے مینار بنایا کرتے تھے، کچھ ایسا ہی کام بزدل بھارتی فوج نے سنگ بازی سے بچنے کے لیے ایک کشمیری نوجوان کو گرفتار کیا اور پھر اس کو اپنی فوجی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر کئی دیہات کے چکر لگاتے رہے اور سنگبازوں پر خوف و حراس طاری کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر اس واقعہ نے کشمیریوں کے غم و غصہ اور جذبہ انتقام کو اور زیادہ ہوا دی اور کشمیری طلبا پہلے سے زیادہ بپھر کر بھارتی فوج پر حملے کر نے لگے ۔

یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعلیمی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں ، امتخانات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوچکے ہیں ، طلبا و طالبات اپنے اپنے بستوں میں کتابوں کی بجائے پتھر لیے صبح سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جمع ہوتے ہیں اور اس کے بعد سارا دن بھارتی فوج کے ساتھ ان کی جھڑپیں چلتی رہتی ہیں ۔بہتا لہو، گرتی لاشیں، اٹھتے جنازے ان کے رستے کی رکاوٹ نہیں ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کی زبانوں پر یہی نعرے ہیں’’ ہم کیا چاہتے ؟ آزادی‘‘ …… ’’تم کیسے نہ دوگے…… آزادی‘‘…… ’’ہم چھین کر لیں گے‘‘ ……’’آزادی…… پاکستان کا مطلب کیا …… لا الہ الا اﷲ‘‘ …… ’’کشمیر بنے گا…… پاکستان‘‘…… !

پیلٹ کے چھرّوں، ربڑ کی گولیوں، شیلنگ اور اندھا دھند فائرنگ کے مقابلے میں فقط پتھر لیے کشمیر کی یہ مٹھی بھر ابابیلیں ابرہہ(بھارت)کے لاکھوں ہاتھیوں (فوجوں)پر پھر بھی بھاری ہیں۔ان کی اس تحریک انتفاضہ سے بھارتی فوجوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور ان کے جرنیل کشمیر کے بھارت کے ہاتھوں سے پھسلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کثیر تعداد میں وائرل ہونے والی ویڈیوز دنیا کو مسلسل ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو ان کشمیری طلبا کو اپنے مستقبل،اپنے گھر ، اپنے ماں باپ سے بے نیاز کر کے ان کو برستی گولیوں کے سامنے سینہ چوڑا کرکے کھڑا کر رہی ہے، وہ کونسی وجہ ہے کہ جو گرتی لاش کی جگہ لینے کے لیے ہزاروں کو لاکھڑا کرتی ہے۔ وہ چیز وہ وجہ آزادی کی تڑپ، لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی ودیعت کردہ جرات اور جہادی جذبے ہیں جو ان کے سینوں میں موجزن ہیں اور ظالم بھارتی افواج سے نفرتوں کے سمندر ہیں جو ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور بھارتی افواج کو ان کے ظلم سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.