سانحوں کا سلسلہ

سانحوں کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا، المیے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دہشت گردی کے عفریت نے ہمارے ملک میں یوں پنجے گاڑے ہیں کہ اس کا خون پینے کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ اس بار اس عفریت نے اپنا نشانہ بلوچستان کے شہر مستونگ کا بنایا ہے، جہاں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکُش حملہ ہوا جس میں تیس قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور عبدالغفور حیدری سمیت 37 افراد زخمی ہوگئے۔

یوں تو پورا پاکستان ہی دہشت اور وحشت کے ہرکاروں کی زد میں ہے لیکن بلوچستان کا المیہ یہ ہے کہ وہاں علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذہب کے نام پر خون بہانے کا مکروہ عمل کرنے والے بھی لاشیں گرانے میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ میں رہائش پذیر ہزارہ برادری باربار اس دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف علیحدگی پسند بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کے ساتھ معصوم شہریوں کو بھی ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ مستونگ کے سانحے کے اگلے ہی روز گوادر کے علاقے گنت پیشکان میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 9 مزدوروں کو قتل اور دو کو زخمی کردیا۔ یہ مزدور سڑک کی تعمیر میں مصروف تھے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں دہشت کا یہ سفاکانہ کھیل عرصے سے جاری ہے۔ اس سے قبل سفاک دہشت گردوں نے کوئٹہ میں دہشت گردی کی دو وارداتوں میں وکلاء، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے 70بے گناہوں کو شہید اور لگ بھگ اتنے ہی لوگوں کو زخمی کردیا تھا۔ دہشت گردی کی پہلی واردات میں علی الصبح بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا اور جب ان کی میت سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی تو اسپتال کی ایمرجینسی کے مرکزی دروازے پر خودکش حملہ آور نے ہجوم کے بیچ میں آکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس وقت وکلا، صحافیوں اور مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرا مینوں، پولیس اہل کاروں اور دیگر افراد سمیت کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے جو خودکش دھماکے کی زد میں آئے تھے۔ صوبائی وزیرداخلہ نے اس واقعے کو خودکش حملے کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

ایسے ہر موقع پر مقتدر طبقے کے افراد رٹے پٹے جملے دہراتے ہیں اور پھر خاموشی چھاجاتی ہے۔ یہ جملے، جو ہر ایک کو یاد ہوچکے ہیں، یہ ہوتے ہیں، آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ جاری رکھیں گے۔ دہشت گردی کی کمر توڑ دی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر دہشت گرد ان دعوؤں پر قہقہہ لگاکر اگلی واردات کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ منظم انداز میں اپنی وارداتیں کرتے ہیں اور لوگوں کی جانیں لیتے ہیں۔

دہشت گردی کا ہر واقعہ ہمارے سامنے یہ سوال کھڑا کردیتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ رُکنے میں کیوں نہیں آتا؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو اسلحہ کہاں سے مل رہا ہے، ان کی مالی معاونت کون کر رہا ہے، آخر ان کے معاون کن کن اداروں میں بیٹھے ہیں کہ یہ منظم انداز میں اپنے اہداف مقرر اور حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں؟ ان کے سہولت کار کون ہیں؟

یہ اور ان جیسے دیگر سوالات لوگوں میں مایوسی پھیلاتے ہیں، وہ صاحبان اقتدار کے ان بڑے بڑے دعوؤں کی بنیاد پر استوار ہونے والی یہ امید کھونے لگتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے اور دہشت اور وحشت کی قوتوں کو عبرت ناک شکست ہوگی۔ دہشت گردی عوام کو مایوس کرنا ہی تو چاہتے ہیں، ان کا مقصد لوگوں سے امید چھین لینا ہے، وہ ہر دل میں روشن اچھے دنوں اور امن کی آس کے دیوں کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ اس امید کو روشن رکھنے کے لیے ضروری ہے دہشت گرد ٹولوں اور ان کے معاونین اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہیں، انھیں تسلسل کے ساتھ انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا اور ٹھکانے لگایا جاتا رہے۔ ان کے ٹھکانے تباہ ہوتے رہیں۔ قوم کے دہشت گردی میں براہ راست ملوث افراد کے ساتھ ان لوگوں کی گرفتار اور انھیں سزا ملنے کی دل خوش کن خبریں بھی ملتی رہیں جو مال ودولت کے ذریعے، نظریاتی مواد فراہم کرکے اور دوسرے طریقوں سے معاونت کرکے دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ صحیح معنی میں دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے کا عمل ہوگا، جس کے اثرات دور رس اور دیرپا ہوں گے۔

دوسری طرف ہم بار بار سُنتے ہیں کہ دہشت گردوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے بیانیے کی ضرورت ہے، مگر یہ اہم ترین ضرورت اب تک پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ دہشت گرد حالات کی جو تصویر پیش کرکے نوجوان اور کچے ذہنوں کو اپنا آلۂ کار بناتے ہیں، اسلام کی جو من مانی کرکے اپنے لیے نظریاتی زمین ہموار کرتے ہیں اور اپنے وحشیانہ اور سفاکانہ اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جس طرح اسلامی لٹریچر کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس سب کے رد اور مقابلے کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں ایسی کوئی مہم نظر نہیں آتی۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کی مالی اور نظریاتی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کیے اور دہشت کے ہرکاروں کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کیے بغیر ہم اپنے ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکتے، لیکن لگتا یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کے باوجود ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوپائے ہیں۔

 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 279364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.