مشکل حالات میں نئی میزانیہ سازی

آج کل نئی میزانیہ سازی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔متعلقہ ادارے اسے حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن جلد ہی بلایا جائے گا۔بجٹ اسمبلی میں پیش کردیاجائے گا۔ارکان اسمبلی کے مطالعہ کے لئے صرف2دن کا وقفہ ہوتا ہے۔بحث کے بعد اسے منظورکرلیا جاتا ہے۔عوام بجٹ کو اعدادوشمار کا گورکھ دھندا کہتے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ بجٹ کے بعد بھی عوام کی قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔پاکستان جیسا ملک جو کئی سالوں سے شدید دہشت گردی کا شکار ہے۔معیشت کو انرجی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔اس کے لئے عوام دوست بجٹ بنانا آسان بھی نہیں ہے۔دہشت گردی نے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات ڈالے ہیں۔جب بھی دھماکہ ہوتا ہے بے شمار جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔حکومت پر انکے معاوضے کی فوری ذمہ داری آجاتی ہے۔اس کا پہلے سے کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔دھماکہ کی خبر فوراً پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور پاکستان کو کاروبار کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں ہی شامل رکھا جاتا ہے۔باہر کے سرمایہ کار ہمارے ملک کا سفر ملتوی کردیتے ہیں۔صرف چینی مشکل حالات میں ہمارے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں۔پاکستان کا دوسرا بڑا مسٔلہ انرجی بحران کا ہے۔بجلی اور گیس نہ تو تسلسل سے ملتے ہیں اور نہ ہی سستے دستیاب ہیں۔اشیاء سازی پر بڑا دباؤ ہے۔برآمدات تیزی سے کم ہورہی ہیں۔یہ وہ مشکل حالات ہیں جن میں سالانہ بجٹ ترتیب دیے جاتے ہیں۔تیسری مشکل جو بجٹ بنانے والوں کو درپیش ہے وہ پبلک سیکٹر اداروں کو ہونے والا خسارہ ہے۔ایسے اداروں کو انگریزی میںPublic Sector Enterprisesکہا جاتا ہے۔یہ مسٔلہ اس وقت سے موجود ہے جب 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا۔ان ہزاروں اداروں میں سے چند سوہی پرائیویٹ سیکٹر کو واپس ہوئے ہیں۔وفاقی حکومت پر ان اداروں کا بہت بڑا بوجھ ہے۔صرف گزشتہ سال ان اداروں کو چالورکھنے کے لئے140۔ارب روپے بجٹ میں رکھے گئے تھے۔ایسے اداروں کی مثالیں پاکستان سٹیل مل ،پی۔آئی۔اے اور پی۔ایس۔او ۔ہیں۔ان تین مشکل حالات میں ہوتے ہوئے وفاقی حکومت نے اپنا سالانہ میزانیہ تیارکرنا ہے۔گزشتہ سال2016-17ء کے لئے وفاقی حکومت نے4394۔ارب روپے کابجٹ تخمینہ پیش کیاتھا۔نئے سال کے تخمینہ کے ساتھ گزشتہ سال کے حقیقی آمدنی اور اخراجات کے اعدادوشمار پیش کئے جائیں گے۔ہر سال کا بجٹ گزشتہ سال کے بجٹ تخمینہ سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔گزرے ہوئے سال میں معمول کے اخراجات ہی 3400۔ارب روپے تھے۔دفاعی مدد میں بھی بڑی رقم860۔ارب روپے کے برابر تھی۔نئے ترقیاتی اخراجات کے لئے صرف994۔ارب روپے تھے۔مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ رقم بہت ہی کم تھی۔سال کے آخر میں ہمیں پتہ چلے گا کہ ترقی پر واقعی کتنی رقم خرچ ہوئی۔آیئے اب ہم آنے والے سال میں وصولیوں اور اخراجات کی بات کرتے ہیں۔اگر ہم وصولیوں میں بہت زیادہ اضافہ کرلیں تو ہم عوام کی فلاح و بہبود پر بھی زیادہ رقم خرچ کرسکتے ہیں۔ہمارے ہاں گزشتہ سال ٹیکس اداکرنے والوں کی کل تعداد9لاکھ80ہزار تھی۔جن لوگوں نے ٹیکس اداکرناتھا۔انکی تعداد 70۔لاکھ تھی۔یہاں سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکس چوروں کی کتنی بڑی تعداد ہے۔68۔لاکھ لوگ جنہوں نے ٹیکس اداکرناتھا۔انہوں نے نہیں کیا۔ IMF کے مطابق بھی پاکستان میں57۔لاکھ لوگ ٹیکس دینے کے اہل ہیں۔پاکستان میں یہ ایک بہت بڑا مسٔلہ ہے کہ ٹیکس اداکرنے کے اہل لوگ ٹیکس بچانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ٹیکس کے ماہرین اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی کاروباری لوگوں کو ٹیکس بچانے کے لئے مختلف طریقے بتاتے ہیں۔ایسے تمام لوگ حکومتی خزانے کونقصان پہنچانے کے لئے متحد ہوکر کام کررہے ہوتے ہیں۔سلجھے ہوئے معاشروں میں ہر شخص اپنے اوپر لاگو ٹیکس خوشی خوشی اداکرتا ہے۔پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔پاکستانی معیشت کی وصولیوں کے نقطہ نظر سے ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ معیشت کا نمایاں حصہ غیر دستاویزی ہے۔ایسے لوگوں کا ٹیکس سے بچنا آسان ہوتا ہے۔ایک سابق چئیر مین نیب کے مطابق12۔ارب روپے کی کرپشن سالانہ ہوتی ہے۔جورقم وصول ہوتی ہے۔یاخرچ کرنی ہوتی ہے۔اس کا بڑا حصہ راستے ہی میں غائب ہوجاتا ہے۔سمگلنگ نے بھی پاکستان میں ادھم مچایا ہوا ہے۔افغانستان کے 2۔ہزار کلومیٹر باڈر پر یہ کام سالہا سال سے ہورہا ہے۔بغیر کسٹم کے اشیاء پاکستان کے اندر آکر اربوں روپے کا نقصان پاکستانی خزانے کو پہنچاتی ہیں۔پاکستان میں وصولیاں اس لئے بھی نہیں بڑھ سکتیں کہ لوڈشیڈنگ نے سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل کو بند ہونے پر مجبور کردیا ہے۔جب صنعت بند ہوگی تو وصولیوں میں بڑی کمی ہوگی۔IPPSجو اخراجات بجلی پیداکرنے کے لئے کرتی ہیں۔انہیں پوری وصولیاں نہیں ہوتیں۔وفاقی حکومت کی طرف انکے بقایاجات اب پھر400۔ارب روپے کے برابر ہوگئے ہیں۔یہ بھی حکومت پر ایک بوجھ ہے۔موجودہ حکومت نے2013ء میں آتے ہی ایک دفعہ500۔ ارب روپے بنکوں سے لیکر اداکردیئے تھے۔اس مسٔلہ کی اصل وجہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کا بجلی کا بل ادانہ کرنا ہے۔لائن لاسز ایک دوسرا بڑا سبب ہے۔پاکستان جیسے ملک کے لئے جتنی زیادہ وصولیاں ہونگی اتنی ہی زیادہ رقم ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے رکھی جاسکے گی۔ہماری خواہش ہے کہ نئے بجٹ میں تعلیم کے لئے وسائل بڑھائے جائیں۔ہمارے ہاں خواندگی کی شرح 70۔سال گزرنے کے بعد بھی58۔فیصد ہے۔قوم کا ایک بڑا حصہ جاہلیت کے اندھیروں میں زندگی گزار رہا ہے۔صوبوں نے سابقہ میزانیوں میں تعلیم کے لئے وسائل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کیا ہے۔لیکن تعلیم کا مجموعی خرچ ابھی بھی جی۔ڈی۔پی کے2۔فیصد کے برابر ہے۔گزشتہ پی پی پی دور میں7۔فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیاگیا تھا۔موجودہ حکومت کے 4سال بھی گزر چکے ہیں۔بات وہیں کی وہیں ہے۔مجموعی طورپر اسے7۔فیصد ہونا ضروری ہے۔محترم نواز شریف اور اسحاق ڈار کو آنے والے بجٹ میں خواندگی بڑھانے کے لئے کسی میگا پروجیکٹ کا اعلان کرنا چاہیئے۔ان2۔کروڑ26لاکھ بچوں کو سکول میں لانے کے بارے کوئیCalculatedسا منصوبہ بنایا جائے تاکہ ایسے طلباء کا نصف ایک کروڑ 13لاکھ تو آنے والے مالی سال میں سکول میں آکر علم وہنر سیکھ سکیں۔ایسے بچے ہوٹلوں میں برتن صاف کرتے،موٹر سائیکلوں کی شاپس پر گاڑیوں میں ہوا بھرتے اور مختلف دوکانوں پر چند روپوں کے عوض کام کرتے نظر آتے اور قوم کے لئے دکھ کا سبب بن رہے ہیں۔مرکزی حکومت اگر چاہے تو2تا3سالوں میں یہ تمام بچے سکولوں میں واپس آسکتے ہیں۔ذرا دیہاتوں کی طرف جاکر دیکھیں بے شمار سکول بغیر بلڈنگز اور سہولیات کے ہیں۔پنجاب میں13۔دانش سکولز بناکر کام صرف شروع ہوا ہے۔پاکستان کے تمام ہائی سکولوں کا معیار دانش سکولوں کے برابرکرنا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔آنے والے بجٹ میں شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے ۔بالغ افراد کو پڑھانے کے لئے80ء کی دہائی کے روشنی سکولوں کی طرح کی سکیم بننی چاہئے۔21۔ویں صدی میں شرح خواندگی کا58۔فیصد ہونا پاکستانی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ایک میگا پروجیکٹ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے صرف اور صرف شعبہ تعلیم کے لئے۔تحقیق و تخلیق کے لئے بھی زیادہ رقوم مختص ہونا ضروری ہیں۔میرے جیسا شخص جس نے ساری عمر شعبہ تعلیم میں گزاری ہے۔جب اس شعبہ کے مسائل کی بات شروع کرتا ہے۔تو میں یہیں گم ہوجاتا ہوں۔حالانکہ نئے بجٹ کے لئے غربت اور صحت کے بھی بے شمار مسائل منتظر ہیں۔وزیراعظم نے سیاسی جلسوں میں تقریباً60۔ہسپتالوں کا ذکر توکردیا ہے۔لیکن بات سیاست سے آگے بڑھ کر بجٹ میں وسائل مختص کرنے اور تعمیر شروع کرنے سے بنے گی۔پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ والوں نے ان ہسپتالوں کی Feasibility reportضرور تیار کرلی ہوگی اور اب نئے بجٹ میں ان کے لئے وسائل کی Allocationہونی ضروری ہے۔پہلے سے قائم صوبائی حکومتوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے بھی نئے صوبائی میزانیوں میں رقومات مختص کی جائیں ۔سرکاری ہسپتالوں میں جاکر لوگوں کو صحت کی بجائے دھکے ہی ملتے ہیں۔یہ بھی معلوم کریں کہ کروڑوں کی ادویات مریضوں کو ملنے کی بجائے آخر جاتی کہاں ہیں۔اچھی حکومت نتیجہ خیز ہوئی ہے۔اور یہاں کا نتیجہ صحت مند ہوتے ہوئے مریض نظر آنا ضروری ہے۔ڈاکٹروں اور نرسوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس سسٹم نئے بجٹ میں کوئی نظام بنانے کے لئے وسائل مختص کئے جائیں۔اخراجات کے شعبہ میں وہ55۔لاکھ بیروزگار جو تعلیم پانے کے بعد بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔بیروزگاری کی شرح 6۔فیصد سے بھی زیادہ ہے۔کچھ ادارے8.5۔فیصد تک کی بات کرتے ہیں۔خود روزگار سکیموں کو ماثر بنانے کے ساتھ ساتھ مرکز اور صوبے نئی ملازمتوں کے لئے مواقع پیداکریں۔جاب مارکیٹ میں اگر کچھ لاکھ کو روزگار مل جاتا ہے تو15 ۔لاکھ نوجوان ہرسال نئے داخل ہوجاتے ہیں۔نئے بجٹ کے لئے اور بے شمار شعبوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔باقی شعبوں کا ذکر کسی اور کالم کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.