انسان بھی کیا چیز ہے کبھی تو المناک حادثے کو بھول جاتا
ہے تو کبھی معمولی سی بات کو تمام عمر اپنے ذہن میں سمائے رکھتا ہے ،کبھی
مشکل کام کو آسان سمجھتا ہے تو آسان کو مشکل ترین ،دیکھا جائے تو دنیا میں
کوئی بھی کام مشکل نہیں اور اگر کوئی انسان کچھ کرنا نہ چاہے تو اس کیلئے
سانس لینا بھی مشکل کام ہوتا ہے ،ایسے بھی انسان ہیں جو چاند پر گئے ماؤنٹ
ایورسٹ کی چوٹی پر جھنڈے گاڑھے ،سمندر وں کو کھنگالا وغیرہ،بات ہمت ،صبر
اور برداشت کی ہوتی ہے اور سب ناممکن ممکن ہو جاتا ہے ۔کئی انسانوں کو بھول
جانے کی بیماری ہوتی ہے تو کچھ جان بوجھ کر اپنے فرائض سے بہانوں کی صورت
میں جان چھڑاتے ہیں اور کئی لوگ ایسے منجدھار میں بھی پھنس جاتے ہیں کہ
فیصلہ کرنا تو دور کی بات اپنا منہ بھی نہیں کھول سکتے ،وقت بہت ظالم ہے
لیکن وقت ہمیں مواقع بھی فراہم کرتا ہے کہ میں ہوں ناں مجھ سے فائدہ اٹھاؤ
لیکن آج کا انسان اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اپنے سوا کسی کی پرواہ نہیں کرتا
فرق اتنا ہے کہ انسان دو ٹانگوں پر اور حیوان ٹانگوں اور ہاتھوں کے بل چلتا
ہے۔یہ کوئی نئی دلیل ،حکایت یا فلسفہ نہیں کہ دنیا کے تمام والدین اپنی
اولاد سے بے پناہ محبت اور پیار کرتے ہیں انکی خاطر دنیا کی تمام صعوبتین
برداشت کرتے ہیں لیکن بدلے میں کچھ نہیں مانگتے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے عمر
کی اس سٹیج تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اولاد کے فرائض کا آغاز ہوتا ہے یعنی
انکی بڑھاپے میں دیکھ بھال کرنا لیکن آج کے دور میں یہ سب ناممکن سا ہو گیا
ہے کیونکہ اولاد اگر چاہے بھی تو کچھ نہیں کر سکتی، رشتوں کی ڈوریں مختصر
اور اتنی کچی ہو چکی ہیں کہ ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتی ہیں ۔جرمنی کے معروف
فیملی میگزین کو ایک سترہ سالہ لڑکی کارینا نے انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ
جوانی میں تقریباً ہر انسان بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے قدم قدم پر نئے
تجربات حاصل کرنے کی کوشش میں غلط اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا لیکن
کئی اقدام کی پاداش میں کچھ لوگوں کو سبق ملتا ہے تو کچھ پچھتاوے کی آگ میں
جلتے ہیں بات وقت کی بھی ہے کہ وہ کسی کی ملکیت یا جاگیر نہیں کہ جب چاہے
استعمال کرے۔کارینا نے بتایا کہ جعلی کارڈ سے نائٹ کلب میں داخل ہونے کی
کوشش ناکام ہوئی کیونکہ دربان نے شک کی بنا پر پولیس کو فون کر دیا ،مجھے
ایڈوینچر کی تلاش تھی لیکن قانون کہتا ہے کہ ہر جرم کی سزا میرے پاس ہے ،جرمنی
میں پولیس کے پاس اختیارات ہیں کئی جرائم اور معاملات کا فیصلہ پولیس سٹیشن
میں ہی ہو جاتا ہے، دو گھنٹے کی انویسٹی گیشن کے بعد مجھے گھر فون کرنے کی
اجازت دی گئی میری ماں بھاگتی ہوئی آئی پولیس نے چند دستاویزات اسے تھماتے
ہوئے کہا کہ لڑکی سترہ برس کی ہے اسلئے ہم اسے لاک اپ میں نہیں رکھ سکتے
لیکن جرم سرزد ہوا ہے اور اسکا جرمانہ ادا کرنا ہوگا دو روز بعد فلاں فلاں
نرسنگ ہوم یعنی اولڈ ہوم میں اسے سولہ گھنٹے کام کرنا ہوگا ان کاغذات پر
سائن کریں اور اپنی بیٹی کو لے جائیں،میں نے شکر ادا کیا کہ صرف دو ہی دن
ہیں اور اولڈ ہوم گھر سے زیادہ دور بھی نہیں ،دل تو نہیں چاہتا تھا لیکن
مجبوری تھی۔دو روز بعد صبح نو بجے اولڈ ہوم پہنچی تو میٹرن کی کڑک آواز سن
کر سہم گئی سوچا یہ اولڈ ہوم ہے جیل وہ عورت کچھ زیادہ ہی بے رحم لیکن
قوانین کی پابند تھی ،دل سے پھر آواز نکلی دو دن کی بات ہے ۔میٹرن کے کہنے
پر پہلے دن ایک رہائشی عورت کی الماری صاف کرنے پر لگا دیا جو کچھ دیر قبل
اولڈ ہوم چھوڑ چکی تھی وہ کہاں گئی اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا اور نہ
جاننا چاہتی تھی کہ چلی گئی یا مر گئی،اسی کمرے میں ایک دوسری خاتون مسز
اینجل بھی رہائش پذیر تھی وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ تھی میں نے اس
سے سوال کیا کہ وہ یہاں کیوں رہتی ہے تو اس نے آبدیدہ ہو کر جواب دیا اسکے
بچے نہیں چاہتے کہ میں ان کے ساتھ رہوں میں اپنا سب کچھ کھو چکی ہوں اپنا
گھر اپنی اولاد اپنے پڑوسی یہاں اکیلی ہوں اور کوئی مجھ سے ملنے نہیں آتا
یہ کہتے ہوئے اسکے آنسو نکل آئے میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور غصے سے سوچا
کہ کیا فیملی ایسی ہوتی ہے ایسا کیوں کیا اسکے بچوں نے۔غصے اور نفرت سے
دیگر الماریا ں صاف کیں اور ریسپشن پر بتا دیا اگلی ڈیوٹی دیگر رہائشیوں کے
بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کی تھی ایک بیڈ سے لحاف اٹھایا تو پیشاب کی بدبو سے
مجھے الٹی ہونے کو آئی ناک اور منہ پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ نرس کی آواز آئی
شہزادی صاحبہ خوشبو اور بد بو کے چکر میں رہو گی تو کام کون کرے گا چلو
جلدی سے شیٹ بدلو مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن خاموش رہی مجبوری تھی۔نرس کے
جانے کے بعد ایک عمر رسیدہ عورت کمرے میں داخل ہوئی اور کہنے لگی میرا نام
ڈورفر ہے کل رات کو باتھ روم نہیں جا سکی اسلئے،وہ میری طرف دیکھ کر
مسکرائی اور میں نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا اور کہا کوئی بات نہیں ،
مسز ڈورفر نے مجھ سے پوچھا تم یہاں کیا کر رہی ہو ،مجھے شرم محسوس ہوئی کہ
اسے وہ سب کچھ بتاؤں جو میرے ساتھ پیش آیا تھا بات کو ٹالنے کے لئے کہا کہ
نرسز کی مدد کیلئے آئی ہوں ،مسز ڈورفر نے مجھے اپنے پاس بیڈ پر بلایا اور
میرے ہاتھ پر اپنا کمزور ہاتھ رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے میرا گال سہلاتے
ہوئے کہا گڑیا تو کتنی پیاری اور اچھی ہے یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے
دل تیزی سے دھڑکا اور میرا ذہن ماضی کے دریچوں میں بھٹک گیا دنیا میں ایک
ہی انسان تھا جو مجھے گڑیا کہتا تھا وہ میری نانی تھی جو اب اس دنیا میں
نہیں ہے اور آج مسز ڈورفر کے ہونٹوں سے گڑیا سن کر میرے انگ انگ میں عجیب
سی لہر دوڑ گئی مجھے انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کاش آج میری نانی زندہ ہوتی
اور میرے گال چومتی اور کہتی گڑیا تو کتنی پیاری ہے میری آنکھوں میں آنسو آ
گئے ۔مسز دورفر نے بتایا کہ وہ تین برس سے یہاں رہائش پذیر ہیں ان سے ملنے
کوئی نہیں آتا انکے پوتے پوتیاں بھی ہیں سب انہیں بھول چکے ہیں لیکن وہ کسی
کو نہیں بھولیں بھول جانا آسان نہیں ہوتا اولاد کتنی ہی بری کیوں نہ ہو ماں
باپ انہیں کبھی نہیں بھول سکتے ۔مسز ڈورفر کے علاوہ اولڈ ہوم میں کئی میاں
بیوی بھی رہائش پذیر تھے جنہیں کبھی کوئی نہیں ملنے آیا اور کئی لوگوں کے
دل سے آہ نکلتی تھی کہ ہم نے ایسا کون سا جرم کیا کہ تم سب ہمیں بھول گئے ۔دو
دن کے تجربات نے مجھے انتہائی رنجیدہ اور سنجیدہ کر دیا میں نے سوچا جب تک
زندہ رہوں گی ان لوگوں سے ملنے آیا کروں گی تاکہ انہیں محسوس ہو کہ وہ
اکیلے نہیں ہیں انہیں کوئی بھولا نہیں ،اور یہ فیصلہ بھی کیا کہ غلطیوں سے
سبق سیکھا ہے اب اپنی تعلیم اور پروفیشن پر دل لگا کر محنت کروں گی تاکہ
اچھی سے اچھی جوب ملے اور بڑھاپے میں اپنے والدین کو اپنے ساتھ رکھوں گی نہ
کہ نرسنگ ہوم کے ان جلادوں کے سپرد کروں گی۔
|