مسئلہ کشمیر پر ترک موقف سے بھارت میں کھلبلی

محمدقاسم حمدان
ترک عوام نے مغرب کے غلیظ پراپیگنڈے اورہر ہتھکنڈے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اردوان کے شانے سے شانہ ملایا ۔صدارتی ریفرنڈم میں فتح نے یہ ثابت کردیا کہ ترکی کو بام عروج تک پہنچانے میں طیب اردوان کا اقتدار میں رہنا ازحد ضروری ہے ۔طیب اردوان تو ایک عزم، ارادہ،استقلال واستحکام ،مضبوط چٹان اور مرد میدان کا نام ہے ۔وہ 2023کے بعد یورپ سے کیے ذلت آمیز معاہدوں کی زنجیریں توڑنے کے بعد ترکی کو ملت اسلامیہ کا رول ماڈل بنانے میں پرعزم ہیں ۔ریفرنڈم میں انہیں یورپین متعصبانہ ،تضحیک آمیز جس رویے کا سامنا رہا اس کاسبب ترکی کی اسلام کی طرف مراجعت ہے ۔اردوان یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ترکی کے استحکام کا راز مضبوط معیشت میں مضمر ہے ۔انہوں نے آئینی ریفرنڈم میں تاریخی کامیابی کے بعد کئی ایک ممالک کا دورہ شروع کیا ہے اس دورے کا اختتام امریکہ میں ہو گا اور پھر وہ بر سلز میں نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔

اردوان 30اپریل کو دوروزہ دورے پر بھارت آئے ۔ ترکی کے ساتھ رشتے کی راہ نکالنے کا سہرا واجپا ئی کے سر جاتا ہے 2001 میں ایڈوانی ترکی گئے ۔ 2003 میں واجپائی نے ترکی کا تاریخی دورہ کیا 2015 میں مودی G.20 کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے اور ترکی کی برق رفتار ترقی سے استفادہ کے لئے اردوان کو دورہ بھارت کی دعوت دی ۔اردوان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں تاریخی خطاب کیا ۔جامعہ ملیہ نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی ۔اکتوبر 2009میں دورہ پاکستان کے دوران اردوان کو پاکستان کا اعلی ترین اعزاز نشان پاکستان پیش کیا گیا ،جامعہ فاتح ،جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے بھی انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی گئیں ۔فروری 2004میں جنوبی کوریا اور فروری 2009میں ایران نے انہیں اعزازی شہریت عطا کی ۔

بھارت کو ایک بڑی تجارتی منڈی سمجھا جاتا ہے اس لئے تمام ترقی یافتہ ممالک یہاں قدم جمانا چاہتے ہیں ،اردوان بھی اسی نقطہ نظر کے تحت آئے ۔بھارت میں ان کا استقبال جس شان وشوکت سے ہونا چاہیے تھا ویسے نہیں ہوا ۔بھارت کی لے پالک دلی سے تعینات کی گئی ویسرائے حسینہ واجد کی دلی آمد پر مودی بنفس نفیس ایئر پورٹ پر پہنچے اور استقبال کیا لیکن دنیا کی مضبوط ترین معیشت اور خوشحال ترین ملکوں میں سے ایک ترکی جہاں فی کس ماہانہ آمدنی گیارہ ہزار ڈالر کے قریب ہے جبکہ بھارت کی فی کس آمدنی ابھی تین سو ڈالر ماہانہ کے قریب ہے اور آدھی سے زیادہ آبادی سڑک کنارے جنم لیتی ہے اور وہی سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے پر شمشان گھاٹ سدھار جاتی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ اردوان کے خیر مقدم کے لئے مودی اور پرنب مکھر جی کو موجود ہونا چاہیے تھا ۔اس کی بجائے تیسرے درجے کے پروٹوکول افسر کو بھیج کر یہ ثابت کیا کہ وہ ابھی تک سامراج کی چاکری سے باہر نہیں نکلے ۔کیا وہ امریکی صدر یا برطانوی وزیر اعظم کے لئے بھی کسی پرٹوکول افسر کو تعینات کرنے کی جرات کر سکتے تھے ۔اردوان تو نیک نیتی اور صدق دل سے ہندوستان میں غربت وافلاس کو زیرو لیول تک لانے کے لئے آئے تھے ۔بھارت نے جو رویہ اپنایا اس کی وجہ اردوان کا کشمیر پر وہ موقف ہے جس پر بھارت نے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی اور اس کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں آج تحریک آزادی کشمیر شعلہ جوالہ بن چکی ہے ،ہر گھر شہداء کا وارث اور تحریک آزادی کا مرکز بن چکا ہے ۔صدر اردوان نے بھارت میں آمد سے قبل ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کا قتل عام ناقابل قبول ہے ،کشمیر کے پرامن حل کے لئے ترکی اپنے بھر پور وسائل استعمال کرے گا ۔ترکی یہ چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کثیر الجہتی مذاکرات شروع ہونے چائیے ۔ان کے اس بیان سے بھارت کے میڈیا اور سنگھ پریوار میں کھلبلی مچ گئی ۔اردوان نے بھارت جا کر بھی ہر فورم پر کسی لگی لپٹی کے بغیر اور کسی خوف و لالچ سے بالا تر ہو کر کشمیر کی آواز کو ببانگ دہل اٹھایا ۔ان کے دورے کے بعد اگر کشمیر کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک میں جو جوش وجذبہ آیا تھااردوان کے موقف نے اس آتش کو پھر سے جواں کردیا بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے طلبا نے تحریک آزادی کشمیر میں نیا رنگ بھر دیا ہے ۔آزادی کی اس شمع کو فروزاں رکھنے میں طلبا کے ساتھ سا تھ کشمیر کے سکول ،کالجز کی حجاب میں لپٹی ڈل جھیل پر کھلنے والے نرم ونازک پھولوں جیسی بہنیں اور بیٹیاں بھی سروں پر کفن باندھے بھارتی بھیٹریوں کے سامنے ڈٹ گئی ہیں ۔پیلٹ کے خونخوار چھرے ،آنسو گیس کے گولے اور کلاشنکوف کی بارش کی طرح برستی گولیوں کا مقابلہ پتھر وں سے کر رہی ہیں ۔وہ موت کے خوف سے بے نیاز شہادت کی تمنا لئے آزادی سے کم کسی بات پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر قطعا تیار نہیں ۔کشمیر ہی نہیں ہندوستان کی نامور یونیورسٹیوں میں یہ نعرے لگ رہے ہیں کہ ہے حق ہمارا آزادی ،ہم لے کے رہیں گے آزادی ،دل دل پاکستان ،جان جان پاکستان ،ان نعروں کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے لیکن دنیا بھارت سے تجارت کے ذاتی مفاد میں کشمیر میں بلند ہوتے شعلوں پر آنکھیں موند کر گناہ کبیرہ کی مرتکب ہورہی ہے ۔طیب اردوان نے دلی میں کھڑے ہو کر کشمیر کا مقدمہ جس طرح پیش کیا یہ ان کے عظیم لیڈر اور امت مسلمہ کے غمگسار ہونے کی علامت ہے ۔
 
ترک صدر نے مسئلہ کشمیر کے حل پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا جس پر بھارتی میڈیا سیخ پا ہے اور اس کے تن بدن میں آگ لگی ایک بھا رتی صحافی جس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اس نیغصے میں جل بھن کر جب کشمیر کا موازنہ کردوں سے کیا تو تو اردوان نے اسے ترکی بہ ترکی بہت خوبصورت جواب دیا کہ سیب کا موازنہ سنگترے سے نہیں کرنا چائیے ،کشمیر کا مسئلہ کردوں سے مختلف ہے ۔ ترکی نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے۔ 2016میں استنبول میں 13ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر تمام مسلم رہنماوں کو جھنجھوڑتے ہوئے اردوان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو بہترین طریقہ سے حل کرنے کا راستہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنے سے ہی گزر تاہے ۔میاں صاحب کی اقوام متحدہ میں تقریر سے قبل حکومت نے بائیس ممالک میں وفود بھیجے ۔ایک و فدبیرسٹر محسن شاہنواز را نجھا کی قیادت میں ترکی بھیجا گیا اس وفد کی بہترین کارکردگی سے ترکی نے یو این ہی نہیں دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی حمایت کاوعدہ اور وکالت کا اعادہ کیا ۔ڈاکٹر خلیل طوقار صدر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی نے کشمیر میں ہونے والے مظالم ،گینگ ریپس ،ٹارچر سیلوں میں بھارتی بہمیت، گمنام قبروں اور ماوراء عدالت شہادتوں پر پوری کتاب لکھ کر ترکی کے عوام کو ھندووں کی خونخوار فطرت سے آگاہ کیا ہے ۔ترکی میں متعین سفیر پاکستان جناب سہیل احمد بھی وہاں کشمیریوں کی آواز کو اٹھانے میں سرگرم ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ کہ ترکی میں بین الاقوامی سطح پر کشمیر کانفرنس کا پروگرام بھی ترتیب دیا جا رہا ہے ۔

کشمیر پر اردوان کے موقف کو کشمیری قیادت نے بہت سراہا ہے ۔ تحریک آ زادی کشمیر کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے اردوان کے کشمیر پربیان باریکہا ترک صدر پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر کی مرکزی نوعیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور ترکی ہمیشہ کشمیریوں کے احساسات کو سمجھتے ہوئے اسلامی سربراہی کانفرنس میں ہمارے حق خود ارادیت کا معاون رہا ہے ،اور رابطہ گروپ کا سرگرم ممبر ہونیکے ناتے کشمیر کے پائیدار حل میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے ۔ قاہد حریت سید علی گیلانی نے بھی اس موقع پر کہا کہ مذاکرات پاک بھارت کے درمیان ہوں یا دلی اور سرینگر کے یہ ایک لاحاصل عمل ہے اور ان کے سینکڑوں با ر انعقاد سے بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہو گا،مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا پرامن اور قابل عمل حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے نفاذ ہی میں مضمر ہے۔ اردوان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی پیشکش کر کے عا لم ضمیر کو بیدار کیا ہے ۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی ترک صدر کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ھندوستان کے دو طرفہ مذاکرات کے الاپ کو ناقابل اعتبار قرار دیا
ترک صدر نے بھارت کے نیو کلئیر سپلائرز

گروپ میں شمولیت کے دیرینہ مطالبے کو سپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان دونوں کا حق ہے کہ وہ نیو کلئیر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کریں ۔بھارت کو اس حوالے سے پاکستان کی مخالفت سے اعتراز کرنا چائیے ۔صدر اردوان نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا خون کا رشتہ ہے پاکستان میں ہمارے بھائی بستے ہیں ۔نیوکلئیر سپلائرز گروپ کی بات ہو یا کشمیر پر ثالثی اردوان نے مودی کو یہ احساس دلایا ہے کہ ترکی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ضرور رکھنا چاہتا ہے لیکن اسے اپنا رویہ تبدیل کر کے کشمیریوں کا حق خود ارادیت اور حق آزادی تسلیم کرنے کے ساتھ دشمنی کی روش پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.