سرینگر کی بیٹیاں

میں سرائے بالا نزدبڈشاہ چوک میں قائم اپنے دفتر’’روزنامہ الصفا‘‘ سے لالچوک کی طرف نکل پڑا۔ امیرا کدل پار کرتے ہی عبد اﷲ نیوز ایجنسی ہے۔ اس کے نزدیک اے ایف پی کے جانباز صحافی لولی سنگھ اور اظہار وانی کا دفتر تھا۔ اظہار وانی گزشتہ برس نوجوانی میں اﷲ کو پیارے ہو گئے۔اﷲ مغفرت فرمائے۔ ان کا چہرہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔ کرگل جنگ کی رپورٹنگ کرنے کے لئے ہم سرینگر سے کرگل روانہ ہوئے تو زوجیلا پہاڑ کے قریب ڈرائیور نے گاڑی سے اتار کر پیدل چلنے کو کہا۔ ایک دوست کا پاؤں پھسل گیا اور وانی صاحب نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انہیں ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا۔لال چوک میں ان کے دفتر سے آگے بی ایس ایف کے اہلکار نے روک لیا اورشناختی کارڈ دکھانے کی ہدایت کی۔میرا پریس کارڈ گھر رہ گیا تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، اہلکاروں نے دیوار کے ساتھ منہ کرتے ہوئے وہاں بٹھا دیا۔کچھ سیکنڈ ہی گزرے تھے چند خواتین فوری طور پر میرے پاس آئیں اور میرے ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔ بھارتی اہلکاروں سے کہا کہ اسے کیوں پکڑ رکھا ہے۔ ایک نے کہا یہ میرا بیٹا ہے، دوسری نے کہا یہ میرا بھائی ہے،وغیرہ وغیرہ،اور وہ مجھے بھارتی اہلکاروں سے چھین کر لے گئیں۔ایسے لا تعداد واقعات ہم نے وادی کے شہر و گام میں دیکھے اور سنے، جب بھارتی فوج کے چھاپوں اور کریک ڈاؤن کے دوران گھر میں مجاہدین کی موجودگی پر مکین خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ مجاہد کو کو پکڑ کر اپنی کنواری بیٹی کے کمرے میں اس کے ساتھ سلا دیا اور فوجیوں سے کہا کہ اندر کمرے میں ان کی بیٹی اور داماد سوئے ہیں۔ مجاہدین نے ماں بہن کی عظمت کی لاج رکھی۔ ہو سکتا ہے کہ جہالت یا نادانی میں بعض مجاہدین نے تحریک کا غلط استعمال کیا ہو۔ کیوں کہ اس وقت کوئی تربیت نہ تھی۔طویل غلامی کا بھی اندازہ نہ تھا۔مگر کشمیری عوام نے بالخصوص نے تحریک میں منفرد او بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ دنیا میں عزت اور عصمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ کشمیری خواتین نے اسے بھی آزادی پر نچھاور کر دیا۔ کنن پوش پورہ ضلع کپواڑہ کا دیہات ہے۔ جہاں فروری 1991کی رات کو بھارتی ریگولر فوج کی 4راجپوتانہ رائفلز یونٹ کے اہلکاروں نے دو بستیوں پر دھاوا بول دیا اور 8سے 80سال کی عمر کی بچیوں اور خواتین میں کوئی تمیز نہ کی،سب کو درندگی اور حیوانیت کا شکار بنایا۔26سال بعد بھی ملوث فوجیوں کو سزا نہ ملی۔خواتین کی عزتیں پامال کرنا بھارتی فورسز نے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔جس طرح بھارت نے کشمیر کو اپنی کالونی کا درجہ دے رکھا ہے۔ اسی طرح کشمیریوں کو بھی بھارت اپنا زر خرید غلام سمجھتا ہے۔ بھارتی فوجی کشمیریوں کی حفاظت کے لئے وادی پر قابض ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں ۔ جدید اسلحہ سے لیس فوجی نہتے کشمیریوں کو اپنی حفاظت پر مامور کرتے ہیں اور ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز نے دیہات میں کشمیریوں کو فورسز کیمپوں اور چوکیوں کا پہرہ دینے کے لئے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ لوگ رات بھر لالٹین اور دیگر روشنی کا بندو بست کرتے ہوئے رات بھر فوجی تنصیبات کے گرد گشت کرنے پر مجبور کئے گئے۔ ان سے بیگار لینے کا یہ عمل برسوں تک جاری رکھا گیا۔ اسی طرح روزانہ صبح نہتے اور غیر تربیت یافتہ شہریوں کو سڑکوں پر بارودی سرنگیں صاف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آگے لوگ پیدل چلتے ، پھر ان کے بعد وہاں سے بھارتی فوجی اور ان کی گاڑیاں گزرتیں۔ آج بھی ایک نوجوان کو فوجی گاڑی کے آگے باندھ کر بھارتی فوج نے عوامی پتھراؤ سے بچنے کے لئے کشمیری کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ کشمیر میں نہتے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے لا تعداد حربے بھارتی جابر اور قابض فوج استعمال کرتی رہتی ہے۔ مگر بھارتی فورسز کے بدترین جنگی جرائم پردنیا کے انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں۔

تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بھارت نے کشمیر میں مظالم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پاکستان یا آزاد کشمیر میں آزاد فضاؤں می رہنے والے زبانی کلامی ہی کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا دم بھرتے ہیں۔ عملی طور پر کبھی کبھار ٹوکن کے طور پر چند درجن لوگ سڑک پر نکل کر فوٹو سیشن کراتے ہیں۔ پھر کشمیر اور مظلوم کشمیری کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جنگ بندی لائن توڑنے کے کئے دعوے اور وعدے کئے گئے لیکن ان پر آج تک عمل نہ ہوا۔ آزاد کشمیر کے عوام اگر ہزاروں کی تعداد میں ہفتے میں ایک بار ہی سڑکوں پر آئیں اور جنگ بندی لکیر کی جانب ٹوکن پر امن مارچ کریں تو بھی مسلہ اجاگر ہونے میں مدد مل سکے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کشمیر اور شہید کے نام پر کئی عناصر کاروبار کر رہے ہیں۔راولپنڈی اسلام آباد میں بھی ایسے عناصر سرگرم ہیں۔ جو مسلہ کشمیر کو کیش کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ کرکٹ کھیل کر اور کبھی پوسٹ کارڈ مہم کے نام پر لاکھوں روپے کما کر کشمیری شہید کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔یہ انوکھی یک جہتی ہے۔ جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔یہ ذلت آمیز مذاق ہے جو کشمیریوں کی عظیم قربانیوں اور شہیدوں کے مقدس لہو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ سب تاریخ رقم کر رہی ہے۔شاید مورخ یہ سب رقم کر رہا ہے۔ کشمیری کبھی بھی بکے اور جھکے نہیں۔ انھوں نے سرینڈر نہ کیا۔ پیسوں اور کرسی کی لالچ بھی کشمیری کے ضمیر کا سودا نہ کر سکی۔ کشمیری خواتین کا تحریک آزادی میں نمایاں کردار ہے۔ ان کی قربانیاں لازوال ہیں۔ ان عزت مآب ماٗوں، بہنوں ، بیٹیوں نے بار بار میدان میں نکل کر آزادی کے لئے مارچ کئے۔ گزشتہ 30سال میں کشمیری خواتین پیش پیش رہیں۔ ہر احتجاج اور مظاہرے میں خواتین اور بچے شامل رہے۔ آج پہلی بار کشمیر طلباء اور طالبات گزشتہ کئی دنوں سے سڑکوں پر ہیں۔ کشمیریونیورسٹی کی دلیرطالبات پہلے بھی میدان میں نکلی ہیں۔ آج سکولوں اور کالجوں کی طالبات بھارتی فوجیوں کو للکار رہی ہیں۔ ان پر پتھر اور جوتے برساتی ہیں۔ پہلے بزرگ خواتین قابض فوج پر کانگڑیاں برساتی تھیں ۔ آج سکولوں کالجوں کی بچیاں بھارتی فوجیوں پر جوتے اور پتھر مارتی ہیں ۔ بھارت اسی رحجان سے خوفزدہ ہے کہ دودھ پیتے بچے بھی فوجیوں پر پتھر مارتے ہیں۔ ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ یعنی آئیندہ سو سال تک کچمیری خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ مگر طالبات کے مسلسل مظاہروں اور سنگبازی نے بھارت کو حیران کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک اور فرٰیڈم فائٹرز نسل پیدا کریں گے جس کی رگ وپے میں آزادی ہو گی۔ بھارت سے نفرت اور انتقام کا جذبہ کشمیر پر بھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ بھارت کشمیریوں کی گولی، پتھر پر بھی پاکستانی کا الزام لگاتا ہے۔ مگر وہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق آزادی کی جنگ کو ختم نہ کر سکا۔ سرینگر کی ماؤں، بہنوں،بیٹیوں کو لاکھوں سلام ۔ جو ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں پتھر اٹھا کر بھارت کو للکار رہی ہیں۔ وہ دنیا کو بتا رہی ہیں کہ کشمیری بھارت سے چھین کر آزادی لیں گی۔کیوں کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت کی غلامی کا خاتمہ اور آزادی چاہتا ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485060 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More