عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدنواز شریف ہٹاؤ مہم کے
اگلے مورچے کے سپاہی ہیں۔میاں صاحب کے قدموں میں جیتی گئی سیٹ نچھاور کرنے
کا اعلان کرنے والے شیخ رشیدآج کل حکومت کے بد ترین مخالف بن اکرسامنے آئے
ہیں۔ان کی سیاست کی آخری خواہش نوازشریف کو سیاست میں ناکام بنانا ہے۔شیخ
صاحب اس کار خیر کے لیے کسی بھی حد تک چلے چانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ کسی
سے بھی مل سکتے ہیں۔اور کسی کے پاس جانے کو بھی تیار ہیں۔ان چارسالوں میں
شیخ صاحب نے متحدہ ۔پی پی ۔عوامی تحریک۔ ق لیگ او ر تحریک انصاف ہر جماعت
کی کمر ٹھوکی ۔ہر جماعت کو اپنی خدمات فی سبیل اللہ پیش کرتے رہے۔اب ان کی
بد قسمتی کہ تما م تر بھاگ دوڑ کے باوجود شیخ صاحب کی یہ آخری سیاسی خواہش
پوری نہیں ہوپارہی۔اپنی ناکامی کا اعتراف شیخ صاحب اب خود بھی کرنے لگے
ہیں۔فرماتے ہیں کہ ہم نے نواز شریف کو ہٹانے کے لیے دھرنے سمیت ہر حربہ
آزمالیا۔لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اب آسمانی بجلی ہی نوازشریف کو ہٹا سکتی
ہے۔اگلے سودن نواز شریف کے لیے اہم ہیں۔ممکن ہے ۔نوے دن سے پہلے ہی جے آئی
ٹی نواز شریف کو ہٹادے۔ان کا مذید کہنا تھا۔کہ نواز شریف ملک کا بادشاہ
بننا چاہتے ہیں۔سرکاری وکیلوں نے پاناما کیس میں نواز شریف سے فیس وصول
کی۔نوازشریف کے لیے حالات ٹھیک نہیں دیکھ رہا۔عمران خان اتنے کچے سیاست دان
نہیں۔کچھ سوچ کر ہی انہوں نے دس ارب کی بات کی ہوگی۔راؤ تحسین سرکاری افیسر
ہیں۔ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ابھی تو ٹریلر ہے۔اصل فلم پناما جے آئی ٹی
میں چلے گی۔ڈان لیک کی رپورٹ میں اصل مجرم کو بچالیا گیا۔یہ فیصلہ آدھا
تیتر آدھا بٹیر ہے۔
قوم پچھلے چار سالوں سے ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔اسے ایک طرف نواز شریف حکومت
کی اچھی بری پرفارمنس کا سامنا ہے۔اور دوسری طرف نواز شریف حکومت کے
مخالفین کا ایک نان سٹاپ گو نواز گوکا سلسلہ بھی جاری ہے۔مخالفین کا تعلق
یا تو زرداری دور سے ہے ۔یا پھرکچھ لوگ مشرف دور کے وابستہ گان ہیں۔قوم
حکومت اور مخالفین دونوں کی باتوں میں سے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کی
مشقت میں پھنسی ہوئی ہے۔دونوں طرف سے چکنی چپڑی باتو ں کا ایک لمبا چوڑا
سلسلہ جاری ہے۔مگر قوم کسی ایک کا فریق کا کھل کر ساتھ دینے میں دشواری
محسوس کررہی ہے۔بحیثیت مجموعی وہ نوا ز شریف حکومت سے مطمئن نہیں ۔مگر مشرف
اور زرداری دور کے متعلقین جب اپنے اپنے دور کی خوشحالی کا ذکر کرتے ہیں۔تو
قوم کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آجاتی ہے۔یہ ایسی مسکراہٹ ہے جو کسی کا
سفید جھوٹ سنتے ہوئے خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔وہ مسکراہٹ جو جھوٹے او رمکار
شخص کی ایمانداری اور شرافت سے متعلق تقریر سننے کے دورا ن بے ساختہ چہرے
پرآجاتی ہو۔جب کراچی کا امن تباہ کرنے والے نوا زشریف کو بدامنی کا ذمہ دار
قرار دیں گے۔تو ایسی مسکراہٹ آئے گی ہی۔جب ایوان صدر سے وزیر اعظم ہاؤس تک
کے تما م بڑے عہدے داران میگا سکینڈلز میں پھنسے ہوئے تھے۔اس دورکے کچھ لوگ
نوا ز شریف دورکو بد ترین کرپٹ دور قراردیں تو بھلا مسکراہٹ کیسے نہ آئے
گی۔جب جمہوریت کی پیٹھ میں چھر اگھونپ کر ایک فوجی جرنیل کو دس بار وردی
سمیت اپنا صدر بنانے کی بات کرنے والے آج نواز شریف کو جمہوریت کے لیے ایک
بڑا خطرہ قرار دیں تو یہ مسکراہٹ خود بخود نمودار ہو جائے گی۔
شیخ صاحب پناما اور ڈان لیکس کی بات کررہے ہیں۔مگر جو آثار نظر آرہے ہیں۔ان
کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہوتانظر نہیں
آرہا۔ڈان لیک پر ملٹر ی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ تشویش تو تھی۔مگر اس کا خیال ہے
کہ اس معاملے پر وزیر اعظم یا وزیر داخلہ سمیت کوئی بڑی شخصیت کوتاہی کی
مرتکب نہیں ہوئی۔اگر چہ اعتزاز احسن او رکچھ دیگر دانا قسم کے لوگ ڈان لیک
کے اصل ذمہ دار ان نوازشریف او ر مریم نواز کو ٹھہراتے ہیں۔مگر حقیقت میں
ایسا کچھ نہیں ہے۔یہ باتیں کسی کے بیمار ذہن کی تخلیق تو ہوسکتی ہیں۔مگر
ملٹر ی کی طرف سے ابھی تک ایک بھی اشارہ ایسا نہیں ملا جس سے وزیر اعظم کو
اس معاملہ میں ذمہ دار سمجھاگیاہو۔ ڈان لیک پرابتدا میں فوج کے اندر کچھ بے
چینی تو پیدا ہوئی مگر بعد میں اس معاملہ کو زیادہ اہمیت کا قرار نہیں دیا
گیا۔کم از کم اتنا اہم نہیں سمجھا گیا کہ کچھ تلٹ پلٹ کردیا جائے۔اب جبکہ
یہ معاملہ سلجھ گیا ہے۔اور اس انداز میں سلجھا کہ بد خواہوں کے سینے پر
سانپ لوٹ گیا۔حکومت کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔دوسری طرف پاناما معاملہ
ہے۔شیخ صاحب اور ان کے ہمنوا شاید خود بھی یہ معاملہ سلجھائے جانے کی تمنا
نہیں رکھتے۔ان کی خواہش ہے کہ اگلے الیکشن تک یہ شور شرابہ جاری رہے۔الیکشن
میں بھولے بھالے عوام کو بہکانے کا یہ بہتر سامان ہوگا۔یہ لوگ اب جے آئی ٹی
کی کاروائیوں میں سو طرح کی رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔اسے اس طرح سے متنازعہ
بنانے کی کوشش کی جائے گی۔کہ اس کی ساکھ متاثر ہوجائے ۔
شیخ صاحب آج آپ اعتراف ناکامی کررہے ہیں۔آپ کو اب صر ف آسمانی بجلی کے
ذریعے نواز شریف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔دراصل ایسی بات نہیں ہے۔آپ نے
نوازشریف کو ہٹانے کے لیے درست راستہ نہیں چنا۔آپ قوم کو ایک برے انتخاب سے
بچنے کے لیے ایک زیادہ برا نتخاب پیش کرنے کی غلطی کررہے ہیں۔قوم بھلا آپ
سے کیسے متفق ہو سکتی ہے۔آپ کوئی مناسب راستہ اختیار کریں۔قوم لبیک کہے
گی۔اس سلسلے میں ایک مشورہ حاضر خدمت ہے۔آپ جن لوگوں کی مخالفت کررہے
ہیں۔ان سے بہتر لوگ متعارف کروادیں ۔قوم آپ پر یقین کرلے گی۔آپ کواپنا
احسان مند تصور کرے گی۔آپ کو نہ لمبے چوڑے دھرنے دینا پڑیں گے۔نہ لمبی چوڑی
ریلیاں نکالنا پڑیں گی۔اور نہ بار بار ادھر سے ادھر کی پیغام رسانیوں کی
بدنامی کا سامنا ہوگا۔شیخ صاحب آپ کے مخافین جو سودا بیچ رہے ہیں۔قوم آپ کی
تلقین و نصیحت کو مستر د کرکے اس سودے کے حق میں فیصلہ دے رہی ہے۔آپ اس سے
بہتر سودا لے آئیں۔قوم فوری متوجہ ہوگی۔ یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے۔جس کے لیے
آپ کو آسمانی بجلی گرنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ |