اے امریکہ کے نومنتخب متنازعہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، ہیلری
کلنٹن کو منظم منصوبہ بندی سے شکست دے کر جو انتخابات تم نے جیتے ہیں ،
تمہاری اس جیت کو ابھی تک امریکی عوام نے تسلیم نہیں کیا ، تمہارے آنے والے
فیصلوں کو تو تمہاری اپنی عدالتیںرد کررہی ہیں ۔ کونسا شہر ہے جس میں سکون
کی فضا تمہارے آنے کے بعدقائم ہے ، تم تواپنی صدارت کا حق کھو چکے ہو ،تم
ریسلنگ کے باہر کھڑے ایک اچھے تماش بین تو ہو سکتے ہو ، ایک اچھے پیسہ
لگانے والے شاطر تو ہو سکتے ہیں اس کے ساتھ ایک اچھے اور منجھے ہوئے اداکار
تو ہوسکتے ہو لیکن ایک امریکی صدر نہیں ہوسکتے ۔ تمہارے خلف اٹھانے کے بعد
سے اب تک تمہارے سارے اقدامات پرتمہاری اپنی کابینہ بھی متفق نہیں ہے ،
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تمہاری اولاد تک کو تمہارے کیلئے ٹی وی شوز
میں وکالت کرنے پڑ تی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ تمہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ پاکستان کیسا ملک ہے اور اس
پاکستان کی کیا حیثیت اور حاصیت ہے۔ تمہارے علاو ہ خود کو سپر پاور کہنے
والا روس تک پاکستان سے امیدیں لگا کر مثبت سرگرمیوں پر آگیا ہے اور اس کے
ساتھ معاشی طور پر طاقتور ترین ، ویٹو پاور رکھنے ولا چین بھی پاکستان میں
اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہ پاکستان کو دنیا میں اپنا
بہترین دوست کہتا ہی نہیں کر کے بھی دیکھاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس پاکستان کی
بات تمہارے کےلئے صرف اتنی ہی کافی ہے کہ یہ پاکستان ہے اور پاکستان اس
دنیا کی ایٹمی قووتوں میں ایک قوت ہے ۔ 55سے زائد اسلامی ممالک کی واحد
ایٹمی قوت ہے جس کے ایٹم بم پر فلسطین میں نعرے لگتے رہے ہیں ۔ کشمیر میں
بھارتی مظالم انتہا تک پہنچ جانے کے باوجود بھی وہاں کی عوام پاکسان ،
پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ یاد رکھنا کہ یہ
افغانستان نہیں ہے ، بلکہ ایک اک ایٹمی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس
کی عوام کے جذبات کے سامنے امریکہ تو کیا امریکہ کے تمام پجاری بھی سامنے
نہ آسکتے ہیں نہ ٹہر سکتے ہیں۔
پاکستان کی افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا احسن انداز میں جانتی ہے ،
بھارت ایک جانب اپنا سارا زور لگاکر اپنی منظم و غیر منظم سرگرمیاں رکھ کر
بھی اپنی حدود میں اور افغانستا ن کے حدود سے پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کی
خواہش کو پورا نہیں کرسکا ، اس کا اکھنڈ بھارت کا خواب ، بس ایک خواب ہی
رہے گا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، ذرا اپنے ہی کابینہ سے تو پوچھو کہ بھارت
کی اندرونی کیا صورتحال ہے ۔ کشمیر کے علاوہ کتنی اور آزادی کی تحریکیںوہاں
چل رہی ہیں ؟ وہاں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ
کیا سلوک ہوتا ہے۔ پاکستان کی عوام ، اس کی فوج وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہر
وقت ہمہ تن پرجوش ہونے کے ساتھ ہوش میں ہے۔ اس ملک کی ہر سیاسی ، مذہبی
،سماجی اور دیگر جماعتوں کے لاکھوں کارکنوں سمیت پوری عوام ملک کے دفاع
کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔ لہذا امریکہ اپنے کسی بھی
مذموم مقصد کے حصول کیلئے پاکستا ن میں کسی بھی طرح کی فوجی کاروائی سے
قطعی پرہیز کرئے ۔ یہی اس کیلئے بہتر ہے اگر وہ سمجھے ، اگر وہ نہیں بھی
سمجھتا تو امریکی عوام کو اپنے صدر کی سمجھ کیلئے اس کی یاد دہانی کیلئے
اپنی کاروائیاں تیز کرنی چاہئیں ۔
چند روز قبل امریکہ کا یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے محالفین کو جنہیں وہ دہشت
گرد کا نام دیتا ہے انہیں ختم کرنے کیلئے پاکستان میں نشانہ بنا سکتا ہے ۔
اپنے ان مقاصد کے حصول کیلئے وہ کسی بھی طرح کی کاروائی کر سکتا ہے ۔ کیا
اس امریکہ کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان اس وقت عالمی دہشت گردی کا کس طرح
سے مقابلہ کر رہا ہے؟ پاکستان ایک سپر پاور ایٹمی قوت ہے لہذا کسی بھی ملک
کی یہ جرائت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان میں اپنی منافقانہ سرگرمیوں
کیلئے کوئی بھی اقدام اٹھائے ، پاکستان کی اک مظبوط فوج ہے جسے عوام کی
پوری پشت پناہی حاصل ہے ۔ اس کے ساتھ عوامی جمہوری حکومت ہے جس کی ملک
کیلئے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کی نہ صرف تمام سیاسی ، مذہبی جماعتیں
تائید کرتی ہیں بلکہ ملک کے معاملے میں وہ اپنا وزیر اعظم سے ہر طرح کا
اختلاف ایک جانب رکھ کر ایک صف میں متحد ہو جاتی ہیں ۔ علامہ اقبال نے انہی
کیلئے کہا تھا کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا
نہ بندہ نواز ۔۔۔۔
پاکستان میں اس وقت جس سیاسی جماعت کی حکومت ہے وہ ، وہی جماعت ہے جس نے آج
سے برسوں قبل گذشتہ صدی کے آخر میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد 28مئی کو
ایٹمی دھماکہ کیا اور اس دن کو امت مسلمہ نے یوم تکبیر کا نام دیا ۔ ایک
سیاسی جماعت توکیا ملک کی کوئی بھی سیا سی جماعت پاکستان کیلئے ہر دم تیار
ہے ۔ اسی وطن عزیز کی حفاظت کیلئے عمران خان و نواز شریف ایک ہی صف میں ہیں
، اسی طرح سراج الحق وفضل الرحمن بھی ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں ، ان کے ساتھ
جماعتہ الداواءکے امیر مجاہد وطن کشمیر حافظ سعید بھی نظر بندی کے باوجود
ملک کی سلامتی کیلئے سب سے آگے ہیں ۔ حافظ سعید نے تو یہ کہا تھا کہ یہ سال
کشمیر کیلئے اہمیت کا سال ہے اور یہ سال کشمیر کی آزادی کا سال ہے لیکن
حکومت نے بھارت کو خو ش کرنے کیلئے انہیں نظر بندکردیا ، وہ حافظ سعید کہ
جس پر کوئی الزام نہیں آج 100دنوں سے زائدہوگئے نظر بند ہیں ۔ اس کے باوجود
ان کی جماعتہ الداواءکا ہر کارکن ملک کی خدمت کیلئے سرگرم عمل ہے ۔ اس کے
ساتھ ان کا انسانیت کی خدمات کا جذبہ عملی طور پر جاری ہے ۔ حیرت ہے کہ
امریکہ کو تکلیف ایک ایسے فرد سے ہے جس پر پورے ملک کی 18کڑور زائد عوام
میں سے کسی کو کوئی گلہ نہیں، وہ سب عوام ان کے ساتھ ہیں ۔
امریکہ کو اپنے بیانات پر ازخود ایک بار ہوش میں رہتے ہوئے غور کرنے کے بعد
پاکستان کی حدود میں کسی بھی نوعیت کی کاروائی سے متعلق بیان کو واپس لینا
چاہئے اس کے ساتھ کسی بھی کاروائی سے قبل حکومت پاکستان سے باقاعدہ اجازت
کی بات کرنی چاہئے ۔ پاکستانی حکومت و افواج اپنی ملکی حدود کی حفاظت سمیت
دشمنوں سے نبردآزماہونا خوب جانتی ہے ۔ ایک امریکی صدر تو کیا دنیا کے کسی
صدر کو ، کسی بھی ملک کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان وہ ملک جو
لاکھوں قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور سخت محنت کے بعد
یہ ملک ایٹمی قوت بنا ۔ لہذا ایک ایٹمی اسلامی ملک کی سرحدوں کی حفاظت اس
ملک کی افواج بخوب جانتی ہیں ۔ |