عالمی عدالت انصاف نے دائرہ اختیار کی پاکستانی درخواست
کو مسترد کرتے ہوئے اپنے عبوری حکم نامے میں فاضل عدالت کا حتمی فیصلہ آنے
تک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا اور ہدایت کی
ہے کہ بھارت کو اپنے جاسوس تک قونصلر رسائی دی جائے جبکہاس ضمن میں کیے
جانیوالے اقدامات سے عالمی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عالمی عدالت انصاف کے 11رکنی بینچ کا بھارتی درخواست پر محفوظ کردہ فیصلہ
سناتے ہوئے جج رونی ابراہیم نے کہا کہ کلبھوشن یادیو پاک فوج کی تحویل میں
ہے اور درخواست کے مطابق بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے
قونصلررسائی مانگی تاہم پاکستان نے تحقیقات میں معاونت طلب کرتے ہوئے جواب
دیا کہ قونصلر رسائی کی درخواست کو بھارتی معاونت کے تناظر میں دیکھاجائے
گا۔ دوران سماعت پاکستان نے ثابت کیا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی شہری ہے،
بھارت نے بھی تسلیم کیا اور مارچ 2016 ء سے پاکستانی حکام کی تحویل میں ہے
جسیپاکستانی آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے ذریعے سزا سنائی گئی۔ پاکستان
نے باضابطہ طورپر گرفتاری سے متعلق بھارت کو آگاہ کیا۔
رونی ابراہیم نیفیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ کیس عالمی عدالت انصاف کے
اختیار میں آتا ہے۔دہشگردی میں ملوث شخص پر ویانا کنونشن کا اطلا ق نہیں
ہوتا۔بھارت عدالتی فیصلے تک کلبھوشن یادیو کی پھانسی رکوانا چاہتا ہے اور
ویانا کنونشن کے تحت ریلیف چاہتا ہے۔ بھارت ہمیں کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں
کر پایا۔دونوں ممالک کی قونصلر رسائی پر مختلف آرائسامنے آئی ہیں، پاکستان
نے کہا تھا کہ قونصلر رسائی پر غور کیا جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف کے جج نے کہا کہ ویانا کنونشن کے تحت جاسوس تک رسائی
ممکن نہیں، پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے فریق ہیں۔کلبھوشن کو پاکستان
آرمی ایکٹ 1952ئکے تحت سزا سنائی گئی۔پاکستان نے کہہ دیا تھا کہ
قونصلررسائی بھارت کے جواب سے منسلک ہے۔
رونی ابراہمی نے بھارتی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مزید کہا کہ بھارت نے
عالمی عدالت میں کلبھوشن تک قونصلر رسائی کی درخواست کی۔بھارت کا دعویٰ ہے
کہ کلبھوشن ہمارا شہری ہے اور پاکستان بھی یہ مانتا ہے۔پاکستانی قانون میں
کلبھوشن کے پاس اپیل کیلئے 40 دن تھے مگر اس کی جانب سے کوئی اپیل دائر
نہیں کی گئی۔پاکستان نے دہشتگردی کے الزامات پر کلبھوشن یادیو کو سزا
سنائی۔کلبھوشن کی گرفتاری پر دونوں فریقین کے دلائل مختلف تھے۔
عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت صرف اسی سورت حتمی فیصلہ
سنا سکتی ہے جب اختیار ثابت کیا جائے۔ویانا کنونشن سے جاسوسی کے الزام میں
گرفتار افراد کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔کلبوشن یادیو کو 3مارچ 2016ئکو
حراست میں لیا گیا۔
عدالت نے بتایاکہ کلبھوشن یادیو کے پاس اپیل کیلئے 40 دن کا وقت تھا تاہم
یادیو کی طرف سے کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔پاکستان اور بھارت میں سے کوئی
بھی ویانا کنونشن سے انکار نہیں کرسکتا، دونوں ممالک نے دستخط کیے لیکن
قونصلر رسائی کے معاملے میں دونوں ممالک کید رمیان اختلاف پایا جاتاہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کا اطلاق اس کیس پر نہیں
ہوتا تاہم مکمل شواہد کے بعد بھارت کو ریلیف مل سکتا ہے، بھارت عدالت کو
کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں کرسکا تاہم عالمی عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک
عالمی عدالت نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا۔
عدالت کے جج رونی ابراہم کاکہناتھاکہ عدالت آرٹیکل ون کے تحت اس معاملے میں
مکمل سماعت کا اختیار رکھتی ہے اور جاسوسی کے الزام میں گرفتار افراد کو
ویانا کنونشن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یادرہے کہ پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا اعتراف کرنے والے جاسوس
کلبھوشن یادیوکے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کیس کی سماعت کے دوران
پاکستانی وکلائنے بھارتی وکلائکے دلائل مسترد کردیئے تھے اور ایسے جوابات
دیئے کہ بھارتی وکیل کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ پاکستان نے موقف اپنایا کہ
کلبھوشن ویڈیو بیان میں اپنے جاسوس ہونے کا اعتراف کرچکا ہے لہٰذا اس پر
ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ معاملہ ہنگامی نوعیت کا
بھی نہیں، بھارت کے پاس کلبھوشن یادیو کو جعلی پاسپورٹ پر بھجوائے جانے
کابھی جواب نہیں اور باضابطہ طورپر بھارت کو گرفتاری کی اطلاع دی گئی تھی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذ کر ہے کہ بھارت نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے
خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تھا جس کے بعد ایک ہی سماعت میں عدالت
نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت رکنے کے بعد
بھارت میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مستقبل میں اس
کیس کے حوالے سے پاکستان کو بڑی کامیابی ملے گی کیونکہ ہمارے پر ٹھوس ثبوت
موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کلبھوشن یادیو بھارتی جاسوس ہے۔ ابھی
بھارتی میڈ یا اور حکومت کلبھوشن یادیو کی پھانسی رکنے کے معاملے پر
شادیانے بجا رہے ہیں لیکن یہ زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گا۔انہوں نے کہا کہ
پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ کلبھوشن یادیو بھارتی جاسوس ہے جو
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ان کا کہناتھا کہ اب
پوری دنیا کی نظر اس کیس پر ہو گی،جب پاکستان ثابت کرے گا کہ کلبھو شن
یادیو بھارتی جاسوس ہے تو اس سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آئے
گا۔انہوں نے مزید کہا کہ عالمی عدالت میں پاکستان کو پورا موقع ملے گا کہ
وہ اپنا موقف بیان کرسکیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجو ہ نے کہا کہ کلبھوشن کے لئے وکیل ہم نے
بلایا،ساری ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے سے ملک آگے نہیں چل سکتاسب کو اپنی
ذمہ داری ادا کرنا ہوگی اور فوج اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔
کلبھوشن یادیو کیس،حتمی فیصلہ آنے تک عالمی عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن
یادیو کی پھانسی پر عمل درآمد روکدیا، قونصلر رسائی دینے کا حکم
تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ گزشتہ دنوں فوج اور
بالخصوص مجھے ٹارگٹ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کراچی یابلوچستان میں کچھ ہوتو
فوج کو بلایا جاتا ہے،ریکوڈ ک پر فوج کام کررہی ہے،انڈس واٹر ٹریٹی پر فوج
کام کررہی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ دہشتگردی کے خلاف ہم نے جرات آمیز جنگ
لڑی،فوجی جوانوں کو آرام کا وقت نہیں مل رہا، کوئی جوان شہید ہو تو غم اپنے
دل پر محسوس کرتاہوں اور میں روز اپنے بچوں کا درد سہتا ہوں۔فوج پر تنقید
آسان ہے مگر اس کی تکلیف کا کسی کواحسا س نہیں،مجھے احساس ہیجوان 24گھنٹے
ڈیوٹی دیتے ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ ڈان لیکس پر جب پہلا فیصلہ کیا تو میرے بیٹے نے کہا کہ
آپ نے ایک پاپولر لیکن غلط فیصلہ کیا لیکن جب دوسرافیصلہ کیا تو بیٹے نے
کہا کہ آپ نے غیر مقبول مگر درست فیصلہ کیا ہے،نوجوان نسل سٹریٹ فارورڈ ہے
اور ہماری سمت درست بہتر بنادے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتہا پسندی کی ایک نئی جہت پروان چڑھ رہی ہے
اور نفرت کا کلچر تیزی سے فروغ پارہا ہے،نفرت کے فروغ سے بھارت اپنا قومی
تشخص مسخ کررہا ہے،انتہا پسند ہندو تنظیم نے ہندو توا اور گاؤ رکھشا جیسی
مہم شروع کررکھی ہے اور بھارت کے مغربی علاقوں میں مساجد اور گردوارے جلائے
جارہے ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ کو مکمل طور پر بحال کریں
گے،انتہا پسندی کی بنیاد کوئی نظریہ یا مذہب نہیں،انتہا پسندی کا مقصد نفرت
اور عدم برداشت پیدا کرنا ہے۔ |