نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلام، مسلمان اور عرب اقوام
کے خلاف پوری دنیا خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا میں ایک لہر اٹھی جس
کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا
اور جیسے ہی کسی یورپی ملک یا امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما
ہوتا تو سب کی انگلیاں مسلمانوں اور خاص طور پر عرب باشندوں کی طرف اٹھنا
شروع ہوجاتی تھیں۔
ایسے میں امریکہ میں صدارتی انتخابات شروع ہوئے تو ڈونالڈ ٹرمپ کی تقاریر
نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ یقین ہوچلا تھا کہ اگر ٹرمپ منتخب ہوگئے
تو صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں مسلمانوں کے لیے پرسکون
زندگی بسر کرنا کافی مشکل ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا کہ ٹرمپ کی صدارت کے
ابتدائی ایام ہی میں متعدد مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر
پابندی عائد کردی گئی اور خیال کیا جارہا تھا کہ شاید یہ سلسلہ بڑھتا چلا
جائے اور امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان ایک طویل خلیج حائل ہوجائے لیکن
صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف ایک طرف خود امریکہ کے اندر سے آوازیں بلند
ہوئیں تو دوسری طرف سعودی عرب کے حکام کی جانب سے کافی تگ و دو کی گئی تاکہ
معاملات اس سے زیادہ نہ بگڑیں۔
انہی کوششوں ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے
پر سب سے پہلے ایک مسلمان ملک یعنی سعودی عرب آچکے ہیں جہاں وہ صرف سعودی
حکام ہی نہیں بلکہ اکثر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کریں گے
یا مشترکہ اجلاس کی صدارت کریں گے اور شاید یہ اجلاس ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت
گیر نظریات میں لچک لانےکا سبب بنے گا۔
امریکی صدر کے سخت گیر موقف کے ساتھ سعودی حکمرانوں کوکافی عرصہ سے ایک اور
چیلنج کا بھی سامنا ہے اور وہ ہے امریکی اور یورپی عوام کے سامنے سعودی عرب
کا اپنا شدت پسند چہرہ ۔ امریکہ اور یورپ کی طرف سے عرب دنیا اور خاص طور
پر سعودی عرب کو عورتوں کے حقوق ، غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ ناروا سلوک اور
خواتین پر تشدد اور بلاجواز پابندیوں کی وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا
جاتا رہا ہے۔ سعودی حکام کی جانب سے اس مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے وقتا
فوقتا مختلف اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں جن میں خواتین کو ووٹ، ڈرائیونگ
اور محرم کے بغیر ملکی و غیر ملکی سفر کرنے کی اجازت خاص طور پر قابل ذکر
ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے پہلے صدارتی سفر پر ریاض میں ہیں اور
ان کے سفر کے پیش منظر یا پس منظر میں ایسی خبریں گردش کررہی ہیں جو اس بات
کی علامت ہیں کہ سعودی عرب امریکہ اور خاص طور پر مغربی دنیا کے سامنے اپنا
سافٹ امیج پیش کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔ سعودی کا صحیح چہرہ پیش کرنے
کے لیے مختلف نوعیت کے تعمیراتی و ترقیاتی معاہدوں کے ساتھ ایسے معاہدے بھی
کیے جارہے ہیں جن میں سعودی عرب میں تاریخی اور آثار قدیمہ کی کھدائی اور
ان پر تحقیاتی نوعیت کا کام شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹورازم کو مزید فروغ دینے
کی کوشش بھی کی جائے گی۔ عرب ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی گردش کررہی
ہیں کہ سعودی حکمران ڈونالڈ ٹرمپ کی مس یونیورس اور مس ٹین یو ایس اے کی
فرنچائز میں سرمایہ کاری کے علاوہ سعودی دوشیزاؤں کو بھی مقابلہ حسن میں
شرکت کی اجازت دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
ان خبروں کے خلاف اگرچہ سعودی عرب کے سخت گیر موقف رکھنے والے افراد کافی
تنقید کررہے ہیں لیکن دارالحکومت ریاض کے روشن فکر حلقے اور امریکہ اور
یورپ میں مقیم عرب شہری اسے شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل قرار
دے رہے ہیں۔ |