کیا ہم اب بھی مسلمان بننے کے لیے تیار نہیں ؟؟

ہند میں ہتھکنڈوں کے درمیان پِستی قوم مسلم کے مسائل ،اسباب اور تدارک

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرآج کا مسلمان تذبذب،کشمکش اور انجانے خوف کا شکار ہے۔ہندوستانی سیاست میں اُتھل پُتھل اور مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی جیت کے ساتھ کٹّر ہندوتوا سنگھٹناؤں کے ذریعے کی جانے والی بے لگام حرکات کی بدولت اقلیتی طبقے خوف وہراس کا شکا رہیں۔پچاس سال پہلے جس پارٹی کے پاس صرف دو نمائندے بچے تھے آج وہ پارٹی ہندوستانی آئین سے لفظ’’سیکولر‘‘ہٹانے اور جمہوریت کا گلاگھونٹ کر’’ ہندوراشٹر‘‘ بنانے کے بے راگ نغمے اَلاپ رہی ہے۔مسلسل بیان بازی کا سلسلہ دراز ہے اورمختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مذہب اسلام کو نشانہ بنایاجا رہاہے ۔لَوجہاد ،دھرم پریورتن،گؤکشی ہتھیا،تین طلاق ،تصویر کشی اور گاناگانے جیسے مُدّے اُٹھا کر صرف اور صرف مسلمانوں کو خاموش کرانے اور ڈرانے کامنصوبہ بنایاگیاہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا نتیجہ وہ1947ء میں دیکھ چکے ہیں۔آزادی کے بعدعلاحدگی کے وقت ہندوستان سے مسلمان ایسے خوف وہراس میں مبتلا ہوکر بھاگے تھے کہ انہوں نے اپنے گھر وں کا سازو سامان تک نہیں لیا تھا،حتیٰ کہ وہ عالیشان باڑوں کو تالالگاناتک بھول گئے تھے ،ہماری مساجد میں گھوڑے باندھے گئے،مدرسوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا گیا۔اغیاریہی صورت حال کامشاہدہ دوبارہ کرناچاہتے ہیں مگر دیکھنے کا پیمانہ جداجداہوتا ہے۔کوئی مثبت سوچ کا حامی ہوتا ہے تو کوئی منفی۔ منفی سوچ کا پروَردہ آدھاگلاس پانی کو کہتاہے کہ’’ گلاس آدھاخالی ہے‘‘ مگر مثبت سوچ وفکر کے حامل افراد کہتے ہیں کہ’’ آدھا گلاس بھراہے۔‘‘ایسے میں ہمیں بھی مثبت سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا،جانے والوں کے ڈراور خوف کو دیکھنے کی بجائے رہنے والوں کی ہمت دیکھنا ہیں جن کی اولادیں آج بھی ہندوستان بھر میں خدائے واحد کی بندگی کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں۔

درحقیقت ہمارے یہاں مثبت سوچ رکھنے والے دور اندیشوں کی کمی ہے۔معمولی معمولی باتوں پر جذباتی ہوکر ہنگامی نعروں کی نذر ہوجانا،اَول فَول بیان بازی کرنا،الزام تراشی کرنااور پوری قوم کو اُلجھنوں کا شکار بنا کر احساس کمتری میں مبتلاکرنا،عام بات ہوگئی ہے۔اصل میں نام نہاد دانش وَروں کوقوم کے نام پر اپنی دُکان چمکانا ہوتی ہے ۔جب کبھی ہمارے مدارس پر سوال کیا جاتا ہے تو ایسے میں مدارس کے ذمہ داران کوچاہیے کہ واویلا کرنے کی بجائے بڑے ہی ادب والتماس کے ساتھ فرقہ پرستوں کو مدارس کے دَوروں پر مدعو کریں۔انھیں مدارس کی اصلی صورت حال سے واقف کرایاجائے،انھیں ہمارے کچن بتائے جہاں انھیں بارُود کے موجود ہونے کا خدشہ ہے،انھیں طلبہ کے تختے بتائے جائیں جن پر الزام ہے کہ ان تختوں کے نیچے اسلحے ہوتے ہیں۔ارے یار!ہمارے مدارس کے بچے غُلیل تک چلانانہیں جانتے وہ طلبہ کیا خاک بندوقیں چلائیں گے؟ جن کی حالت نہ صرف قابل توجہ ہے بلکہ حد سے زیادہ قابل رحم بھی۔جو بچہ کہی نہیں چلتا، شرارتی ،غریب ، یتیم اور مفلوک الحال ہوتا ہے انھیں مسلمان مدرسوں میں داخل کرتے ہیں،جن کی پروَرِش کے لیے نہ جانے کتنی منت وسماجت کے بعدکیسے کیسے زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کی رقم جمع کی جاتی ہے۔کچھ تو سوچو!جن کے کھانے کے لیے سہ ماہ کا گلّہ(اناج) تک موجود نہیں وہ لاکھوں روپے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے میں کیسے لگاسکتے ہیں؟ہمارے مدارس کی محتاجی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ بچپن میں جب کو ئی بچہ مَستی کرتا ہے تو والدین کہتے ہیں’’ خاموش ہوجا،ورنہ مدرسے میں ڈال دیں گے ۔‘‘مگر جہاں کہی مدرسے پر اُنگلی اُٹھائی جاتی ہے ہم واویلا بپاکرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں،ذمہ داران کو چاہیے کہ جو لوگ تشددپھیلا رہے ہیں اُن لوگوں کے ساتھ میڈیا کو بُلایاجائے اورمدارس کی اصلی صورت حال سے انھیں آگا ہ کیا جائے تاکہ مدارس کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہو۔

اصل میں ہم نے عملی طور پر اسلام کو پیش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ہمارے یہاں ہر بات پر فتویٰ ہے۔جب کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے احکامات سے پہلے عملی تصویر پیش کی تھی اور آج ہم پریکٹیکل پیش کرنے کی بجائے صرف تھیوری پر اکتفا کررہے ہیں۔غیروں نے ہماری تھیوریز (قرآن واحادیث)کو ہم سے زیادہ پڑھااور سمجھا ہے اسی لیے انھیں اسلام سے ڈر اور خوف ہے۔ہمیشہ کی طرح آج بھی تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل کی ضرورت ہے۔ایک مثال کے ذریعے عمل کی اہمیت کو سمجھیں۔ہمارے تعلیمی ادارے میں پچیس سالوں سے ایک غیر مسلم خاتون سروس کررہی ہیں مگر ہماراپورااِسٹاف مل کراسے اسلام سے متاثر نہیں کرپایاجب کہ وہ اپنے اصول،زبان اور بیان کے اعتبار سے تمام مسلمانوں میں ممتاز ہے۔اسی کے برعکس ہمارا ایک ٹیچر غیر کے ادارے میں جاکر انہی کے رنگ میں رَنگ جاتا ہے۔غیروں کو ہم نے اپنے عمل کے ذریعے سے اسلام کے قریب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی،وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ مسلمان چوری، ڈکیتی، زِنا، مرڈر، جھوٹ،فریب،دغا،جھوٹی گواہی،سود خوری اور اَنگِنت اخلاقی برائیوں کا شکار ہیں۔غیروں اور مسلمانوں کے مابین ایسی کوئی چیز نظرہی نہیں آتی جو مسلمان کو ممتاز کرے۔ جب کہ ہماری تھیوریز میں مذکورہ تمام باتوں کی ممانعت موجودہے۔معلوم یہ ہواکہ اسلام کے خلاف ہونے والی زہر افشانیوں کی سب سے بڑی وجہ کہی نہ کہی ہم خود ہے۔تین طلاق پر جب بات کی جاتی ہے تو مثبت طریقے سے قانونی لڑائی لڑنے کی بجائے ہم سڑکوں پر اُتر آتے ہیں،میمورنڈم دیے جاتے ہیں اور جلسوں جلوسوں میں بے ہنگم بھیڑاِکھٹّاکی جاتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہندوستا ن میں موجود تمام مذاہب میں ہونے والی طلاقوں کا تناسب نکالا جاتا،مسلم سماج میں ہونے والی والی طلاقوں پر روک لگائی جاتی اور جو عورتیں طلاق شُدہ ہے ان کی کفالت اور ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش کا انتظام کیاجاتا۔مگر افسوس!ہمارے سماج میں ایشوزاور اس کے اِزالے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔اولڈہاؤس ، یتیم خانے اور کفالت خانے بنانے کی بجائے اچھی خاصی بنی بنائی مسجداور مدرسے کو منہدم کرکے تعمیر جدید کروانے کا جنون سوار ہے۔آخر غیروں کواسلام کے خلاف بولنے والی عورتیں کہاں سے مل جاتی ہیں؟غیروں کے پہنچنے سے پہلے ہم خود ان تک کیوں نہیں پہنچ پاتے ؟کیوں ان کی فریاد نہیں سُنی جاتی؟اگر وہ ایکٹریا ایکٹریس ہیں اور روپیوں کی خاطر اسلام کو بدنام کررہے ہیں تو انھیں تلاش کرکے کورٹ کی دہلیز تک پہنچاکرجیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں پہنچایاجاتا؟آخر بیان بازیوں کایہ منفی سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟اربابِ سیاست اور اہلِ علم اپنے مفاد کے لیے کب تک قوم کو مسائل میں اُلجھاتے رہیں گے؟شاید اسی لیے شاعر مشرق نے کہاتھا ؂
الٰہی یہ ترے سادہ دل بندے کدھر جائیں

اسلام کے خلاف بیان بازیوں اور زہرافشانی کی بات کی جائے تواس اَمرمیں میڈیا بھی دودھ کادُھلانہیں ہے۔آئے دن اسلام مخالف موضوعات پر ڈیبیٹ(بحث ومباحثہ) کرانامیڈیاٹیم کے لیے ٹی آرپی بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ان پروگرامات میں مختلف لوگوں (نام نہاد ایکسپرٹ)کو بلایاجاتا ہے۔یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام مخالف ذہن رکھنے والوں کو مدعو کیاجاتا ہے اور اسلامی تصور پیش کرنے کے لیے منجھے ہوئے عالم کو بلانے کی بجائے ایسوں کو لایاجاتا ہے جو کم علمی اور کج روی کا شکار ہوتے ہیں۔ڈیبیٹ کے دوران ایسے افراد اغیار کے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے اور ان کی لاجوابی اور خاموشی اسلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔درحقیقت میڈیا کامنصوبہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ڈیبیٹ میں اسلامی اسکالر کے نام پر ایسے کمزوروں کو بُلایا جائے جن کو دورانِ گفتگو خاموش کرایاجاسکے اور یہ نا سمجھ اورکمزور صفت لوگ سستی شہرت اور محض ٹی وی پر آنے کے شوق میں مسلمانوں کی رُسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔اربابِ علم کو چاہیے کہ اس امرمیں سرجوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ طور پر فیصلہ صادر کریں کہ اس طرح کے ٹی وی پروگرامس میں کوئی بھی شریک نہ ہو۔ہاں اگر کوئی اس پایے کا عالم ہو کہ نہ صرف مختلف زبانوں بلکہ متعدد علوم وفنون کا بھی ماہر ہو جو ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دے سکے تو بات جدا ہے۔رہی بات میڈیا اور اسلامی موضوعات کے وضاحت اور ہندوستانیوں کی ذہن سازی کی تو ہمیں چاہیے کہ ہم میڈیاکویقین دلائیں کہ آپ ہمارے دارالعلوم ، دارالقضاء اور دارالافتاء میں تشریف لائیں،ہم آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں اور یہاں آکر ہمارے جید،مستند اور ذی علم علمائے کرام سے سوالات کریں،ان شاء اﷲ تعالیٰ انبیائے کرام کی میراث سے حصہ پانے والے یہ علمائے کرام میڈیااور فرقہ پرستوں کے ذریعے کھڑے کیے جانے والے ہر فتنے کا اپنے جوابات کے ذریعے مکمل سدّباب کریں گے۔

سیاسی شعور کی بات کی جائے تو وہ بھی ہم میں ناپید ہے۔کسی کے بہلاوے میں ہم بہت جلد آجاتے ہیں اور جنھیں ہم اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں وہ قوم کا سَودہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ حکمت عملی کی کمی،منصوبہ بندی کا فقدان اور سیاسی وِژن کا نہ ہوناہے۔جس جماعت پر ساٹھ ستّر سال قبل پابندی لگانے کی بات ہورہی تھی آج وہی جماعت اپنے نمائندے ایوان میں مسلسل بھیج رہی ہے۔ہماری جماعتیں تو صاف وشفاف ہیں،مسلم جماعتوں کے قائدین نے آزادیِ ہند کے لیے اپنی شریانوں سے خون بہایاہے،اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ غیروں نے جتنا پسینہ نہیں بہایاہے اس سے کہی زیادہ ہمارے رہبروں، رہنماؤں اور قائدین نے اپنا خون بہایا ہے، مسکراتے ہوئے تختہ ٔدار کو بوسہ دیا ہے اور انقلاب کی چنگاری کو آزادی میں تبدیل کیاہے۔باوجود اس کے سیاسی میدان میں ہمارے وقعت محض کٹھ پُتلی جیسی ہے۔ایسا لگتاہے کہ بی جے پی کو ہرانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ راقم بی جے پی کی حمایت کررہا ہے۔ یہاں مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت کرنانہیں ہے بلکہ فکروشعور کی بالیدگی مقصود ہے۔ہر سیاسی جماعت کے منشور اور ان کے عملی اقدام پر طائرانہ نظردوڑائے تو معلوم ہوگا کہ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں ہے۔کوئی کھُلا دشمن ہے تو کوئی چھُپا۔ایسے میں ہمیں صرف مسلمان بننا ہے۔کسی کی نیّامیں سوار ہوکر اپنی کشتی ہرگز نہیں تیرائی جا سکتی،اپنی کشتی کی نگہبانی ہمیں خود کرنا ہوگی،کسی جھولی میں بھیک میں پڑے سکّوں کی مانند پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی اہمیت کو جانیں،سمجھیں اور اپنا استحصال ہونے سے محفوظ رہیں۔ہم چاہے جتنے بھی آزاد خیال ہوجائیں،ہم چاہے اسلام سے زیادہ کسی کو بھی چاہنے لگیں،ہم چاہے احکام ِ خداوندی سے زیادہ غیروں کی باتیں مانیں تب بھی بحیثیت مسلمان ہمیں مرنا ہی ہوگا۔ ملیشیا، افغانستان، عراق، اُندلس، ایتھوپیا وغیرہ کے نظارے ہمارے لیے درس عبرت ہے۔وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں غیروں سے کرتے تھے،ان کی محفلوں کی رونق بنتے،بلکہ صرف ان کا نام اسلامی تھا کام مکمل غیر اسلامی۔پھر بھی ان کے گلوں پر چھُریاں پھیری گئیں،ان کی عورتوں کے بطن سے ناجائز اولادیں پیدا کی گئیں اور ان کے ننھے ننھے زندہ بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا دیے گئے۔چاہے ہم اسلام سے جتنی دوری اختیار کرلیں اور احکام ِ خداورسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے جتنی چاہے بغاوت کرلیں مگر بہر حال مرنا ضرورہے۔جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ ہم اسلام پر مرے تاکہ ہمارا پرورگار ہم سے راضی ہواور جنت الفردوس کی نعمتیں ہمارااستقبال کررہی ہو۔ہمارے دروازوں پر ہر روز دی جانے والی دستک اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ اسلام کی جانب لوٹ آنے کا وقت آگیاہے۔ایک چرواہاجب بکریاں چراتاہے تو ساتھ میں کچھ کُتّے بھی رکھتا ہے تاکہ ریوڑ سے الگ ہوجانے والی بکریوں کو وہ کُتّا بھونک کر اور کانٹ کر دوبارہ ریوڑ میں لے آئیں۔ہم بھی اپنے ریوڑ سے دور جا چکے ہیں۔طاغوتی قوتوں کے موجودہ کُتّے اور بھیڑیوں نے ہم پر بھونکنا شروع کردیا ہے ،اس سے پہلے کہ وہ کاٹنا بھی شروع کردیں لوٹ آئیں اپنے ریوڑ میں۔پناہ حاصل کرلیں خدائے عزوجل کی۔جس دن ہم اپنے مذہب پر لَوٹ آئیں گے ان شآاﷲ تعالیٰ اس دن سے ہماری عظمت وشوکت کاڈوباہواسورج پھر طلوع ہوگا،مدینۂ منورہ سے نوارانی کرنیں ہمارے حوصلوں کو جِلہ بخشیں گی اور اسلامی پرچم پوری شان وشوکت کے ساتھ اکناف عالم میں عام ہوگا۔

ہندوستان کی تاریخ میں ہمارے مثبت رویے،عملی نمونے اور علمی اثاثے کے ترانے موجود ہے۔جب مسلمان مالابار،سندھ اور شمالی ہندوستان کے علاقوں میں تھے اس وقت دونوں کی تہذیب وثقافت جدا تھی،افکار،نظریات،خیالات اور تصورات میں زمین وآسمان سافرق تھا،زبان وبیان میں اختلاف۔ ہند کے باشندے داعیان دین کی زبان سے آشناتھے اور نہ ہی مسلمان ہندوستان میں رائج سنسکرت ، پراکرت، مقامی بولیاں اور بُرج بھاشاؤں سے واقف تھے،مسلمانوں کی انسانیت نوازی،غربا پروی اور خدمت خلق سے متاثرہوکر ہر خاص وعام نے مذہب اسلام کو قبول کیا۔آج بھی منفی بیان بازیوں کا سلسلہ کم ہوسکتاہے بشرطیکہ ہم مسلمان ہو جائے۔
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731630 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More