موجودہ دور کے فرعون

موجودہ دور میں جس کو بھی قدرت نے نوازا ہے۔ اُن میں سے اکثر و بیشتر لوگ زمین کے خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مطلب جو لوگ ان کے ماتحت کام کرتے ہیں ان کا جینا حرام کر دتیے ہیں۔ جو تو صاحب کا یا بیگم صاحب کا حکم بجا لائے،،ان لوگوں کیلئے اس سے اچھا کوئی دوسرا نہیں ہے، لیکن اگرکبھی انکار کر دے تو۔ اُن کی نطر میں،اس سے بُرا کوئی نہیں۔اﷲ نے رزق اس لیئے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تاکہ کوئی بھوکا نہ سو سکے۔اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رزق ہوتا تو یہ لوگ صرف اُن کو ہی کھانے دیتے، جو کہ ان خدمت کرتے ان کا حکم بجا لاتے ہیں۔باقی سب تو بھوکے ہی رہتے ۔بھلے وقتوں کی بات ہے، ایک راجہ تھا جس کی سات بیٹیاں تھیں۔ ایک دن راجہ نے سب کو بُلایا،اور پوچھا کہ تم لوگوں کو کھانے کو کون دیتا ہے،ان میں سے چھ نے کہا کہ آپ دیتے ہو ۔ جو ایک تھی وہ کہنے لگی کہ مجھے آپ نہیں دیتے کھانے کو بلکہ جس مالک نے مجھے پیدا کیا ہے مجھے کھانے کو وہ دیتا ہے ۔اتنا سننا تھا کہ راجہ کو سخت غصہ آگیا ،اور اسی وقت شہر کا ایک اپاہیج فقیر بلوا کر اس فقیر سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ اور کہنیلگا کہ اب میں دیکھوں گا تم کیسے کھاؤ گی؟جس نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ کیسے تمہیں رزق دیتا ہے َ؟جو کپڑے لڑکی نے پہن رکھے تھے، ان میں ہی رخصت کردیا ۔لڑکی کا ایمان کامل تھا صبر شکر کے ساتھ اس اپاہیج فقیر کے ساتھ رہنے لگی، کچھ عرصہ بعد اﷲ کی کرنی ایسی ہوئی کے فقیر کے ہاتھ خزانہ لگ گیا ،اور اس لڑکی نے ایک عالیشان گھر بنا کر راجہ کی دعوت کی ،جب راجہ نے بیٹی کو شان و شوکت میں دیکھا تو حیران رہ گیا اسی طرح آج راجہ جیسے بہت سے پڑھے لکھے جاہل موجود ہیں۔جن کا خیال ہے کہ وہ کھانے کو دیتے ہیں۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ اس قدر بُرا سلوک کرتے ہیں۔ جیسیکہ شائد ان لوگوں نے مرنا نہیں،بلکہ ہمیشہ زندہ ہی رہنا ہے َ۔اپنے غریب ملازموں کو دو وقت کی روٹی دے کر اتنا کام کرواتے ہیں جیسے ان لوگوں نے اس کو خرید ہی لیا ہو۔آج سرکاری دفتروں میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں،جو اپنے ماتحت ملازموں سے دفتر کا کام کم اور گھر کا کام زیادہ لیتے ہیں۔اگر کبھی کسی وجہ سے کوئی کام کرنے سے انکار کر دے،تو فوری طور پر اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔اور اس کا جینا حرام کردیتے ہیں۔اسی طرح پرائیویٹ دفتروں میں بھی صاحب لوگ،یا کسی بھی فیکٹری کے ملازم کو ذاتی ملازم بنا کر رکھتے ہیں، ملازموں سے اپنے سارے ذاتی کام لیتے ہیں۔اپنا ذاتی ملازم بنا کر رکھتے ہیں۔ کسی دفتر میں دفتری کام کے علاوہ زبردستی کام کروانا ایک جرم ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی ملازم صرف ادارے کا ملازم ہوتا ہے۔کسی کا ذاتی ملازم نہیں ہے۔دفتر ی کام کے علاوہ کوئی بھی کسی ملازم سے اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی ذاتی کام نہیں کروا سکتا ۔لیکن پاکستان میں تو زیادہ تر لوگ اپنے دفتری ملازموں سے کام ہی گھر کے کرواتے ہیں۔ایک سرکاری محکمے کا مالی گھر کی سبزی سے لیکر گھر کی صفائی تک سب کام کرتا ہے۔ جس دن انکار کر دے،اس دن سے اس کا بُرا وقت شروع ہو جاتا ہے۔اسی طرح درجہ چہارم کے ملازمین سے بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اور تو اور اُن کو گالیوں تک سے سے نوازا جاتا ہے۔کیا حکومت کو اس پر کوئی ایکشن نہیں لینا چاہیئے؟۔پاکستان کے تمام باشندوں کو تحفظ دینا،روزگار دینا،ان کو برابر کے حقوق دینا حکومت پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔ تو حکومت ان چھوٹے ملازمین کو تحفظ کیوں نہیں فراہم کرتی؟کیوں ان کو ان زمیں کے خداؤں کے حوالے کر رکھا ہے؟جو ان کے ساتھ انسانیت سے گرا ہوا سلوک کرتے ہیں۔ان زمیں کے خداؤں کے بس میں ہو تو ایک غریب انسان کے سانس لینے پر پابندی لگا دیں۔آج ہر بندہ جس نے کو چار جماعتیں پڑھ رکھی ہیں انگریز کی مثال دیتا ہے کہ انگریز یہ کرتا ہے،انگریز وہ کرتا ہے۔لیکن ہم خود کب اس پر عمل کرتے ہیں یہ صرف دوسروں کیلیئے ہی باتیں ہوتی ہیں۔انگریز صرف وہی کام کرتا ہے جتنا کام اس کو دیا جاتا ہے نہ ایکسٹرا کام انگریز ملازموں سے کرواتے ہیں،نہ ہی یورپ میں کوئی ایکسٹرا کام کرتا ہے۔جس کی سب سے جو بڑی وجہ ہے وہ یہ ہے،کہ وہاں کا قانون ہر وقت حرکت میں رہتا ہے۔چھوٹے سے چھوٹی غلطی پر بھی سزا ہوتی ہے۔لیکن پاکستان میں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جو اپنے ماتحتوں سے گدھے کی طرح کام لیتے ہیں۔اگر کوئی گستاخ یا باغی ملازم کام ان کی بات نہ مانے تو وہ ان صاحب لوگوں کیلئے قابل نفرت انسان بن جاتا ہے۔کچھ صاحب لوگ تو ان کو فوری نوکری سے نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن کچھ صاحب لوگ اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ اُس ملازم پر چوری کا الزام لگا کر سیدھا پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ باقی کا کام پولیس کا ہوتا ہے ۔ جن لوگوں کی مرضی سے ان کے گھر میں سبزی نہیں پکتی وہ بھی اپنے ملازم کو حقیر سمجھتے ہیں۔اس سے ضرورت سے زیادہ کام لیتے ہیں، اپنے ذاتی کاموں میں اسے الجھائے رکھتے ہیں ۔جیسے وہ ہی اس کی زندگی کے مالک ہیں۔اﷲ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے سب کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے،یہ حق کوئی کسی سے نہیں چھین سکتا۔اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو کیا ساری زندگی اس نے دُنیا میں ہی رہنا ہے۔ایسے انسان کا حساب روز قیامت ہو گا جو کسی غریب کو ناحق تنگ کرتا ہے۔اﷲ نے تمام ا انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ کسی کو دولت دے دی،کسی کو عقل دے دی ،کسی کو علم دے دیا ،کسی کو اولاد دے دی ۔ اس لیئے جو عطا کرتا ہے صرف اﷲ ہی کرتا ہے انسان کو تو ایک ذریعہ بنا رکھا ہے اس مالک نے دوسرے انسان کا ۔اس لیئے ہر انسان کو انسان سمجھنا چاہیئے۔اس لیئے کسی کے ساتھ اتنا ظلم کرو جتنا تم خود برداشت کر سکو۔ خدا کا خوف کھاؤ زمانے کے خداؤ۔

azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 41 Articles with 42937 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.