جب سے جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کی باقاعدہ درخواست
پرمجوزہ ۳۴ ممالک کی افواج کی سربراہی کامنصب سنبھالاہے اسی دن سے ایرانی
میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کاآغازشروع کر رکھاہے جبکہ ایرانی
وزیرخارجہ جوادظریف کے حالیہ اسلام آباد دورے کے بعدمشترکہ اعلامیہ میں
خوشگوار برادرانہ تعلقات کی نویدسنائی گئی تھی۔پاکستان کاماضی اس بات
کاگواہ ہے کہ امریکااورمغربی ممالک کی طرف سے شدیددباؤکے باوجودایران
کابھرپورساتھ دیا لیکن ایران نے خودکو امریکا وبھارت کے زیرانتظام
افغانستان کی طرح پاکستان کے خلاف سرحدی کشیدگی بڑھاکربننے والی تکون میں
شامل ہونے کے شبہات سچ ثابت کردیئے ہیں۔ایران نے۱۹مئی کوہونے والے صدارتی
الیکشن سے قبل ایرانی سنی العقیدہ افرادکی تنظیم جیش العدل کے خلاف
کاروائیوں میں ناکامی کا پاکستان پرملبہ ڈالتے ہوئے پاک فوج سے شدت
پسندتنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کاروائی کی فرمائش کرتے ہوئے دہمکی داغ
دی کہ اگرپاکستان نے خودکاروائی نہ کی توایرانی فوج پاکستانی سرزمین میں
گھس کرکاروائیاں کرے گی جبکہ وہ اپنے بڑوں سے یہ پوچھنا بھول گئے کہ ایسی
ہی دہمکی جب شہیدجنرل ضیاء الحق کے زمانے میں دی تھی تواس کے جواب میں بعد
ازاں لرزتے کانپتے ہوئے معافی تلافی کے ساتھ دہمکی دینے والے کو بھی اپنے
منصب سے فارغ ہوناپڑاتھاتاہم یہ بات قابل غورہے کہ ایران کاجارحانہ رویہ
ایسے موقع پرسامنے آیا جب ایرانی وزیرخارجہ پاکستان کودورۂ کرنے کے بعد
ایک روزقبل ہی کابل گئے تھے۔
ایرانی مسلح افواج پاسداران انقلاب کے سربراہ میجرجنرل محمدباقری نے سنی
العقیدہ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں سرگرم تنظیم جیش العدل کے خلاف
کاروائیوں میں ناکامی کاملبہ پاکستان پرڈالتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے
سرحدپارایرانی علاقے میں حملے کرنے والے مبینہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی
نہ کی تواس کی فوج پاکستانی سرحدعبور کرکے جیش العدل کے ٹھکانوں کی محفوظ
پناہ گاہوں اورٹھکانوں کونشانہ بنائیں گے چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ہم امیدکرتے
ہیں کہ پاکستانی حکام دہشتگردوں کوگرفتارکرکے ان کے ٹھکانے ختم کریں گے۔
جیش العدل کی جاری ویڈیو سے صاف ظاہرہے کہ ایرانی فوجیوں کو ملکی حدودمیں
نشانہ بنایاگیاتھااوروہ طویل عرصے سے ایرانی فورسزکو ایرانی سرزمین پرہی
نشانہ بنارہی ہے۔ایرانی فوجیوں کی ہلاکت پرایرانی وزیردفاع جنرل حسین دہقان
بھی پاکستان کوجوابی کاروائی کی دہمکی دے چکے ہیں۔ ایرانی فوجیوں کی ہلاکت
کے تناظرمیں ایرانی وزیرخارجہ نے وزیر اعظم نوازشریف سے اپنی ملاقات میں
پاک ایران سرحدی علاقوں کی سیکورٹی بہتربنانے کامطالبہ کیاتھاجس پرانہیں
سرحدی علاقوں میں اضافی نفری تعینات کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔دریں
اثناءایرانی وزیر دفاع جنرل حسین دہقان نے لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے
عربی ٹی وی چینل المینارکو دیئے گئے انٹرویومیں سعودی عرب کوبھی دہمکی دی
کہ اگراس نے کوئی اشتعال انگیزی کی توجواب میں حرمین شریفین کے سوا باقی
تمام سعودی شہروں کو تباہ کردیاجائے گا۔ شائدوہ(سعودی)سمجھتے ہیں کہ وہ
اپنی فضائیہ کی وجہ سے کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے
کیاکرسکتے ہیں۔اس بات سے ان کااشارہ یمن کی جانب تھا جہاں سعودی عرب کی
قیادت میں عرب ممالک کی فضائیہ ایران کے حامی حوثیوں کے زیر قبضہ یمنی
دارلحکومت صنعاپرفضائی حملے کرتی ہے۔انہوں نے الزام عائدکیاکہ سعودیہ کے
امریکا اوراسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں اوریہ تعلقات مسلم ممالک کے خلاف
ہیں۔انہیں نیتن یاہوکی خوشنودی درکارہے کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم ہمارے
خلاف ہے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ سعودی فوج فی الفوریمن سے نکل جائے۔
ادھر سعوی وزیردفاع ونائب ولی عہددوم شہزادہ محمدبن سلمان قومی ٹی وی
پرایران کومیدان جنگ بنانے کاانتباہ دیتے ہوئے کہاکہ آئندہ سعودی سلطنت و
ایران کے درمیان دائرہ اثرپرکوئی تنازع ہواتوجواب سعودی عرب میں نہیں بلکہ
تہران میں دیاجائے گا۔ ایران عالم اسلام پرغلبے کا خواہاں ہے اوراس سے
مکالمہ اورمذاکرات خارج ازامکان ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ سعودیہ ہی ایران کاسب
سے بڑاہدف ہے،ہم جنگ اپنی سرزمین پر آنے کاانتظارنہیں کریں گے۔ہماری کوشش
ہوگی کہ جنگ سعودیہ نہیں مگر ایران کے اندرہو۔
ادہرایرانی فوج کی پاکستانی سرزمین پرسرجیکل اسٹرائیک کی دہمکی کو سیاسی
اورعسکری سطح پربڑی سنجیدگی سے لیاگیاہے۔ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے ایرانی
سفیرکی دفترخارجہ طلبی ہوئی۔ذرائع کے مطابق سرحدی محافظوں کی ہلاکتوں کے
بعدایرانی وزیرخارجہ کی آمدپرپاکستان نے نہ صرف ذمہ داران کے خلاف کاروائی
میں مکمل تعاون کایقین دلایا بلکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام
کیلئے ایک مشترکہ میکنزم بنانے کی تجویز بھی دی تھی جس پرایرانی وزیرخارجہ
مطمئن ہو کرچلے گئے لیکن افغانستان کے حالیہ دورے کے بعد ایران کارویہ
اچانک بدل گیا۔ذرائع کے مطابق مثبت پیش رفت کے بعدایرانی آرمی چیف کی جانب
سے اچانک انتہاءپسندانہ بیان پرسیاسی وعسکری حلقوں،دونوں کو حیرت ہے۔واضح
رہے کہ ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری نے گیدڑبھبکی دیتے ہوئے
کہاہے کہ ایرانی سرزمین پرحملہ کرنے والے جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کے خلاف
اسلام آبادنے مؤثرکاروائی نہ کی توایران انہیں خودنشانہ بنائے
گا۔ادہرمشیرخارجہ سرتاج عزیزنے کہا ہے کہ سرحدی مسائل حل کرنے کیلئے ہاٹ
لائن بحال ہوچکی ہے۔ایران شدت پسندوں کے متعلق معلومات فراہم کرے پاکستان
ان کے خلاف ضرور کاروائی کرے گا۔
دراصل ایران کے بدلتے ہوئے رویے کابنیادی سبب سعوی فوجی اتحادمیں پاکستان
کی شمولیت ہے۔اس حوالے سے اسلام آباد کی تمام تر یقین دہانیوں کے
باوجودتہران اب تک مطمئن نہیں ہے۔اس غصے کے اظہار کیلئے سرحدی محافظوں کی
ہلاکتوں کوجوازبنایاگیاہے اوریہ کہ ایرانی فوج نے حالیہ بیان افغانستان
کوخوش کرنے کیلئے دیاہے۔اداروں کے پاس اطلاعات ہیں کہ اس حکمت عملی کے تانے
بانے ایرانی وزیرخارجہ کے کابل پہنچنے پربنے گئے۔چمن واقعے کے بعدایرانی
وزیرخارجہ ہنگامی طور پراتوارکے روزافغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نےاشرف
غنی،عبداللہ عبداللہ اوراپنے ہم منصب صلاح الدین ربانی کے ساتھ ملاقاتیں
کیں۔ بند کمروں میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں افغان صدراورچیف ایگزیکٹونے
چمن واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کے سامنے یہ رونارویاکہ وہ
ایک چھوٹا ملک ہے اوراسے پاکستانی جارحیت کاسامناہے۔بطور اسٹرٹیجک
پارٹنرایران کو افغانستان کی مددکرنی چاہئے۔ اس موقع پربلخ میں افغان ملٹری
بیس پرحملے کابھی ذکرہوا۔افغان صدرنے ایرانی وزیرخارجہ کوکہاکہ ان کےاپنے
سرحدی محافظ بھی حملے کانشانہ بنے ہیں یوں ایران اور افغانستان دونوں کوایک
جیسی دہشتگردی کا سامنا ہے جسے سرحدپارسے سپورٹ کیاجارہاہے۔لہنداوقت آگیاہے
کہ مشترکہ طورپراس سرحدپاردہشت گردی سے نمٹاجائے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی سعوی فوجی اتحادمیں شمولیت پراپنے غصے کے
اظہارکیلئے مختلف راستے تلاش کرنے والاایران پہلے ہی اس قسم کے واقعے کی
تلاش میں تھا لہندادونوں ممالک کے حکام کے درمیان اس گفت و شنید کے
بعدایران کی جانب سے دہمکی آمیزبیان جاری کرنے کافیصلہ ہوا حالانکہ یہی
ایرانی وزیرخارجہ چندروزپہلے پاکستان آکر سرحدی محافظوں کی ہلاکتوں
کامعاملہ مشترکہ کوششوں سے حل کرنے پراتفاق کرکے گئے تھے ۔ذرائع کے بقول
اشرف غنی کوپاکستان کو دہمکانے کیلئے ایران سے مددلینے کامشورہ بھارتی وزیر
اعظم مودی نے دیاچونکہ چاہ بہاربندرگاہ معاہدے کے بعدبھارت ،ایران
اورافغانستان تینوں اسٹرٹیجک پارٹنربن چکے ہیں۔
ادھراسلام آبادمیں موجودسیاسی ذرائع کاکہناہے کہ ایرانی جنرل کے دہمکی
آمیزبیان سے پیداہونے والی کشیدگی ختم کرنے کیلئے سفارتی چینل استعمال کرنے
کافیصلہ کیاگیاہے کیونکہ دوہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ
تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں،ایسے میں ایران سے بھی پاکستان تلخیاں پیدانہیں
کرناچاہتاتاہم ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیاگیاکہ اگر ڈپلومیسی سے یہ کشیدگی
دورنہیں ہوتی اورخاکم بدہن ایران اپنی دہمکی پرعمل کرنے کی کوشش کرتاہے
توبرسوں پہلے جنرل ضیاء الحق کی زبانی دہمکی پرعملدرآمدکرکے جواب دیاجائے
گاکہ خس کم جہاں پاک! |