کراچی میں ان دنوں دو درجن سے زائد پروفیشنل ریسلر موجود
ہیں۔یہ ریسلرزجن میں ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (ڈبلیو ڈبلیو ای) کے سابق
ریسلرز بھی ہیں، پاکستان کے پہلے بین الاقوامی پروفیشنل ریسلنگ مقابلوں میں
حصہ لینے کی غرض سے یہاں پہنچے ہیں۔ان ریسلرز کی آمد اس وقت ہوئی جب ملک
میں ”سیاست کے پہلوان“ اپنے آئندہ مقابلوں کی تیاری کررہے ہیں۔ملک کے سب سے
بڑے شہر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہاں کے لوگ اب بین الاقوامی ریسلنگ کے اپنی
آنکھوں سے براہ راست دیکھ پارہے ہیں۔ریسلنگ کے مقابلوں کے انعقاد کا کریڈٹ
بھی ہم الطاف بھائی کو ہی دینا چاہیں گے۔ گزشتہ سال 22اگست کو کراچی پریس
کلب کے باہر اپنے خطاب میں اہنوں نے جو کچھ کہا، یقینا اسی پھل ہے کہ آج
کراچی کے لوگ ”پہلوانوں کی کشتی“ بھی دیکھ پارہے ہیں۔ ورنہ یہاں کے لوگوں
کو یہاں بھائی کے ٹو، بھائی سناٹا، بھائی پہاڑی،بھائی مما، اور بھائی
چنگاری کی سرگرمیوں کے ہوتے ہوئے کچھ اور دیکھنے کا تصور ہی ختم ہوچکا تھا۔
یہ بھی اچھا ہوا کہ ماضی کے کرکٹ کے کپتان بھی ان دنوں ”میدان سیاست“میں
پوری توجہ دے رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان کی دلچسپیاں اب کسی بھی ”مؤنث“سے
ختم ہوگئیں ہیں۔
جب یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں ممکن ہے کہ ریسلرز واپس جاچکے ہوں۔لیکن پورا
یقین ہے کہ وہ کراچی والوں کو یہ بتا جائیں گے کہ ”ریسلنگ“ ہوتی ہے وہ نہیں
جو ہتھیاروں سے کراچی میں کی جاتی رہی۔شکر الحمد للہ کہ اب شہرمیں سکون ہے
اور لوگ آپس میں آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کو ”گولیاں بھی دے دیا“ کرتے ہیں۔
ماضی میں گولیوں کا یہ استعمال بھی لوگ بھولنے لگے تھے۔وجہ تھی خوف۔جو
گولیاں چلنے سے پیدا ہوکر کم و بیش 20سال تک تو رہا۔
بین الاقوامی ریسلرز کی کراچی آمد پر مجھے امریکا کے ریسلرز”ڈونلڈٹرمپ“ کی
بھی یاد شدت سے آئی۔مگر کیا کریں بعض امریکیوں نے پاکستان کے خلاف سازش کے
تحت انہیں پہلے ہی صدر بنالیا۔نتیجہ کے طور پر انہیں بحیثیت ریسلر کراچی
آنے سے روکنے اور کراچی والوں کو مزید خوش ہونے سے روک دیا۔ اس طرح ان کی
سازش کامیاب ہوگئی۔اب ٹرمپ ماموں امریکیوں کے ساتھ ریسلنگ کررہے ہیں مگر
وہاں کے اکثر لوگ پھر بھی ان سے خوش نہیں دکھائی دے رہے۔ حالانکہ ایک ریسلر
اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہے۔
ریسلرز کے ذکر پر ایک دوست نے بتایا کہ اپنے وزیراعظم نواز شریف بھی نوعمری
میں ریسلنگ سے دلچسپی رکھتے تھے۔انہیں ”داؤ لگاکر مخالف کو گرانے کا
منظر“دیکھ کر بہت خوشی ہوا کرتی تھی۔ خیال ہے اسی وقت سے ہی انہوں نے سیاست
کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہوگا۔اب تو خیر وہ خود”سیاسی رنگ“ کے بڑے پہلوان
ہیں۔قوم تو دیکھ رہی ہے کہ انہوں نے پاناما لیکس اسکینڈل کا ”داؤ“ لگاکر
بڑے بڑے انصافیوں کو ہی نہیں بلکہ انصاف ہاؤسز کو بھی چکما دیدیا۔ویسے ایک
حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے میاں صاحب اب بھی کسی پہلوان سے کم نہیں لگتے۔خیال
ہے کہ اگر بجلی انہیں پریشان نہیں کرتی تو کبھی وزیراعظم نہیں بنتے۔ لیکن
ایسا لگتا ہے کہ بجلی کی وجہ سے میاں صاحب پریشان ہوکر سچ بولنے لگے
ہیں۔ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کیونکہ جھوٹ ہی کو ”سچ“ اور
آرام کو ”کام“سمجھا جاتا ہے۔اس لیے جب منہ سے غیر متوقع طور سچ خارج ہونے
لگے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ مریض کی صحت کیسی ہے۔میاں نواز
شریف نے گزشتہ روز خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”دوہزار اٹھارا میں بجلی ہی
ختم ہوجائے گی“۔یقین جانیئے کہ قوم کو وزیراعظم کی زبانی یہ سنکر افسوس کے
بجائے خوشی ہوئی، کیونکہ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی کی باتیں سنکر لوگ بیزار
آچکے تھے۔اس لیے نئی بات سنتے ہی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہی نہیں قہقے
امنڈ آئے۔بالکل اسی طرح جیسے بین الاقوامی ریسلرز کے ”داؤ پیچ دکھر کر آگئے
تھے۔
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے بعض سیاستدان اور حکمران بھی لوگوں کی
تفریح کا بہترین ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔یہ غریب اس سے زیادہ سعرر کیا فنکاری
کرسکتے ہیں لوگوں کی خوشی اور قہقوں کے لیے۔۔۔؟
ویسے غریبوں کے ذکر پر سندھ اسمبلی کے ان غریبوں کی تنخواہوں میں اضافے کی
خبر یاد آگئی۔جو اب ڈبل ہوگئی ہے۔ چونکہ اسمبلی کے ارکان نے اتفاق رائے سے
تنخواہوں میں اضافے کو گزشتہ سال سے منظوری دی ہے اس لیے تمام اراکین اور
اسپیکر آغاسراج کو ایک سال کے اضافی تنخواہیں بھی ملیں گی۔سندھ اسمبلی سے
آنے والی خبروں کے مطابق گزشتہ دو سال میں یہ ایک واحد بل تھا جس پر
اپوزیشن اور حکومت کے لوگ متفق تھے، نہ کوئی اعتراض کیا گیااور نہ ہی شور
شرابہ۔ورنہ تو اسمبلی کا ماحول کسی ریسلنگ رنگ سے کم نہیں ہوتا۔ |