تیرا تیرا ، میرا میرا پاکستان !

ملک میں اس تصور کو مضبوط کیا جا رہا ہے کہ ملکی اداروں کو محترم اور ناقابل چیلنج بنانا ہی ملک کو مضبوط کرنا ہے جبکہ یہ ہمہ گیر عالمی حقیقت ہے کہ جس ملک کے عوام کو کمتر معیار پر رکھا جائے ،اس ملک کے مضبوط ہونے کا دعوی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔آج قرضوں کے گراں بوجھ میں پھنسے پاکستان کا نظام چلانے والے عالمی معیار کے شاندار طرز زندگی سے مستفید ہو رہے ہیں اور ملک کا ہر قسم کا مالی بوجھ عوام پر یوں ڈال دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ مفتوح ملک کے باشندے ہوں اور جنہیں انتظامی اور معاشی طور پر سزایاب کرنا ناگزیر ہو۔ہماری آج کی تمام سیاست عوام کو اسی حالت میں رکھے جانے میں ممود و معاون ہے اور ستم یہ کہ انہی کو عوام کا مسیحا ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں بار بار ثابت کرتے ہوئے یہ قرار پا چکا ہے کہ پاکستان کا انتظام چلانے والے عوام کے مفاد میں اس ملک کا انتظام چلانے کے قابل نہیں ہیں۔

اگر کسی جرم یاغفلت کی پاداش میں سزا نہ دی جائے تو وہی جرم دوبارہ ہونے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے سے ملک کو توڑنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ایسا ہی ناقابل معافی جرم دوبارہ کئے جانے کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان پر یہ قرار پایا کہ اگر مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے مخصوص اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو قیام پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ چیلنج قبول کیا اور مسلم عوام کو یہ سمجھانے کی مہم شروع ہوئی کہ1946کے الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کا مطلب پاکستان کا قیام ہو گا۔مسلمانوں کو گھر گھر جا کریہ بتایا گیا کہ پاکستان کا قیام عوامی فلاحی مملکت کے طور پر ہو گا ۔عوامی فلاح کے وعدے پر ہی الیکشن میں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کو کانگریسی مسلمانوں کے مقابلے میں کامیاب کرتے ہوئے قیام پاکستان کی شرط کو پورا کیا۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل اور سیاسی سازشوں کے چند سال گز رنے کے بعد ملک میں پہلا مارشل لاء لگاتے ہوئے فوجی آمریت کو ملک کی تقدیر بنا دیا گیا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ایک نئے ملک کا تصور دیا گیا لیکن چند ہی سال گزرنے کے بعد آمریت ہی توڑے گئے اس ملک کی تقدیر بنا دی گئی۔مارشل لاء کی حکومتوں کو چلانے کے لئے ملک میں بدکاری پر مبنی مفاداتی گروپوں کی سیاست کو مضبوط و مستحکم کیا گیا اور ہر نئے آنے والے آمر نے اس طریقہ کار کو ناقابل چیلنج بنانے پر بھر پور توجہ دی۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عوام کو پاکستان کی 'چوائس' اپنانے پر سزایاب کیا جا رہا ہے اور عوامی فلاحی مملکت کا تصور رکھنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا چکا ہے۔

آج عوام کو ایسا پاکستان درپیش ہے جہاں ملک کو چلانے والوں کو اعلی،پرتعیش طرز زندگی عطا کرنے کو یقینی بنانے پر بھر پور توجہ دی گئی ہے اور عوام کو کسی مفتوح علاقے کے لوگوںکی طرح'ڈیل' کرنے کا انداز اپنایا گیا ہے۔سیاسی گروپوں پر مشتمل جماعتوں کے ارکان عوام کے ووٹ لیتے ہوئے الیکشن جیت کر با اختیار محترم و معزز بن جاتے ہیں لیکن انہیں ووٹ دے کر اختیار و عزت سے سرفراز کرنے والے عوام بے توقیری کے نچلے مقام سے اوپر نہیں آ سکتے ۔اسمبلی ارکان ،افسران کی مراعات میں ہر سال شاہانہ اضافہ ناگزیر ضرورت کے طور پر کیا جاتا ہے لیکن عوام کے لئے عزت و وقار اور انہیں معاشی بوجھ سے نجات دلانے کو غیر ضروری عمل تصور کیا جاتا ہے۔اب یہ عوام طے نہیں کرتے کہ ملک کے مقاصد کیا ہیں بلکہ سرکاری اخراجات پر شاہانہ طرز زندگی رکھنے والے ہی ملک کے لئے ایسے مقاصد اور اہداف کا تعین کرتے ہیں، جن کے اخراجات کا بوجھ بھی معاشی بوجھ تلے کچلے ،مصیبت زدہ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
 
اب ملک میں اس تصور کو مضبوط کیا جا رہا ہے کہ ملکی اداروں کو محترم اور ناقابل چیلنج بنانا ہی ملک کو مضبوط کرنا ہے جبکہ یہ ہمہ گیر عالمی حقیقت ہے کہ جس ملک کے عوام کو کمتر معیار پر رکھا جائے ،اس ملک کے مضبوط ہونے کا دعوی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔آج قرضوں کے گراں بوجھ میں پھنسے پاکستان کا نظام چلانے والے عالمی معیار کے شاندار طرز زندگی سے مستفید ہو رہے ہیں اور ملک کا ہر قسم کا مالی بوجھ عوام پر یوں ڈال دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ مفتوح ملک کے باشندے ہوں اور جنہیں انتظامی اور معاشی طور پر سزایاب کرنا ناگزیر ہو۔ہماری آج کی تمام سیاست عوام کو اسی حالت میں رکھے جانے میں ممود و معاون ہے اور ستم یہ کہ انہی کو عوام کا مسیحا ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں بار بار ثابت کرتے ہوئے یہ قرار پا چکا ہے کہ پاکستان کا انتظام چلانے والے عوام کے مفاد میں اس ملک کا انتظام چلانے کے قابل نہیں ہیں۔

سرکاری اخراجات پر بہترین زندگی ' انجوائے' کرنے والے مصیبت زدہ عوام سے ہی مطالبہ رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی قدر کریں جبکہ پاکستان کی قدر کرنے کی ذمہ داری انہی پہ عائید ہوتی ہے جو اختیار و مراعات کے حوالے سے اعلی مقام کے حامل ہیں۔ظلم و زیادتی کے اس نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔عوامی مفادات کے برعکس اس نظام سے عوامی اعتماد تو اٹھتا جا رہا ہے،خدرا ،عوام کو اتنا نہ کچلا جائے کہ ان کا اعتماد مملکت پاکستان سے ہی اٹھتا چلا جائے۔خدارا ،پاکستان کی قدر کریں اور اس کو بچانے اور مضبوط کرنے کی راہ اپنائیں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698937 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More