شہر سے ناگہانی موت کا سایہ نہیں جاتا ۔ ۔ ۔ ۔

جواں لاشے، تھکے کاندھے، لزرتے قدم ہیں میرے

لاشے گر رہے ہیں، شہر کے درودیوار،سڑکیں اور گلیاں بے گناہ انسانوں کے خون سے لہو رنگ ہیں، نوحے، بین اور آہ و بکا کا شور ہے، اشکوں کا سیل رواں ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا،لوگ اپنے پیاروں کی جدائی پر سینہ کوبی کررہے ہیں، لیکن ہائے رے بے بسی.... اور.... مجبوری....کہ وزیر داخلہ سندھ فرما رہے ہیں کہ ”وہ بے بس ہیں اور اِس خونریزی کو روکنا بہت مشکل ہے“موصوف اعتراف کرتے ہیں کہ ” کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کے ہم سب ذمہ دار ہیں“کسی نے خوب کہا ہے کہ ”ہمیں خبر ہے مجرموں کے سب ٹھکانوں کی....شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے“

دنیا کے مہذب ملکوں کا دستور ہے کہ جب انہیں ایسی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں جب کوئی وزیر کھل کر اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتا ہے تو اِس ناکامی کے اظہار کے ساتھ وہ اپنا استعفیٰ بھی پیش کر دیتا ہے،لیکن جناب نہ تو ہم مہذب ملک ہیں اور نہ ہی ہمارے کسی ذمہ دار فرد کو اپنی محکمانہ ذمہ داری کا احساس ہے، اخلاقی ذمہ داری تو بہت دور کی بات ہے، ہمارے یہاں تو دور دور تک ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی، بلکہ پاکستانی جمہوریت کے بہت سے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ چاہے کوئی محکمہ ناکامی کی آخری حدوں کو چھونے لگے اور اُس محکمے کی ناکام کارکردگی کی وجہ سے آدھی سے زیادہ قوم ذہنی مریض بھی بن جائے، تب بھی اُس محکمے کا ذمہ دار وزیر نہ تو اِس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور نہ ہی ازخود استعفیٰ دیتا ہے، بلکہ جمہوریت کے اِس شرمناک حسن کو مزید چار چاند ہمارے ارباب اقتدار اپنے اِس طرز عمل سے لگا دیتے ہیں کہ وہ ایسے کسی محکمے کے سربراہ سے نہ تو استعفیٰ طلب کرتے ہیں اور نہ ہی نااہلی پر اُس کو برطرف کرتے ہیں۔

پاکستان کی معاشی شہ رگ شہر کراچی ایک عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے، بے گناہ شہریوں کی سربریدہ لاشیں، زخموں سے تڑپتے لوگ، جلتی ہوئی املاک، روتی سسکتی انسانیت اور نااہل و بے شرم انتظامیہ آج بیرونی دنیا میں اِس شہر کی” علامتی شناخت“ بن چکی ہے، وہ شہر جو کبھی رنگوں،روشنیوں اور محبتوں کا امین اور علامت ہوتا تھا،ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی بے حسی اور مفاداتی سیاست کا شکار ہے،آناً فاناً موت کا سایہ روشن و زندہ شہر کو مفلوج،شہر خموشاں اور مقتل گاہ میں تبدیل کردیتا ہے،چوبیس گھنٹوں میں 38افراد اور چار دنوں میں 86افراد موت کی نیند سلا دیئے جاتے ہیں، منوں مٹی تلے قبروں میں اتاردیئے جاتے ہیں،لیکن صدر اور وزیر اعظم صرف نوٹس لیتے ہیں،تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے،اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہراتی ہیں،حکومت سے علیحدگی کی دھمکیاں دیتی ہیں،یوم سوگ منایا جاتا ہے،جو مزید کئی بے گناہ انسانوں کی جانیں لے لیتا ہے،جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہوجاتی تو وفاقی وزیر داخلہ کراچی کا رخ کرتے ہیں،حکومت بچانے کیلئے اپنے اتحادیوں کو مناتے ہیں،یقین دہانیاں کراتے ہیں، آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی باتیں ہوتی ہیں،فول پروف سیکورٹی کے بلند وبانگ دعوئے کئے جاتے ہیں، صوبائی وزیر داخلہ مجرموں کو الٹا لٹکانے کی دھمکیاں دیتے ہیں،شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں، سڑکوں اور چوراہوں پر رینجرز کے جوان کسی بے اختیار اسٹیچو کی طرح تعینات کردیئے جاتے ہیں،کمیٹیاں بنتی ہیں،انکوائریاں ہوتی ہیں،ہر حادثے اور سانحے کے بعد ایک جیسے بیانات 24گھنٹوں اور پھر 48 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن،قوم کو صبر کی تلقین،ورثا سے اظہار ہمدردی،معاوضے کا اعلان اور اُس کے بعد کوئی اور حادثہ، پہلے والے حادثے پر ملبہ ڈال دیتا ہے اور وہی رٹا رٹایا بیان تھوڑے سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ دوبارہ سامنے آجاتا ہے۔

لیکن قاتل بدستور دندناتے پھرتے ہیں،یاالہٰی ....یہ کیسا قانون ہے ....یہ کیسی انتظامیہ ہے ....یہ کیسی جمہوریت ہے .... اور یہ کیسی حکومت ہے،جو ہر مرتبہ ایک بیان سے دوسرے بیان تک تیس،چالیس اور پچاس سے زائد بے گناہ انسانوں کے خون کا خراج لیتی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہوتی،بلکہ الٹا اِس ناکام جمہوری نظام کی خوبیاں گنواتی ہے،مصالحتی پالیسی کے گن گاتی ہے اور مفاہمت کی پالیسی پر ناز کرتی ہے،لیکن قتل و غارت گری کو نہیں روکتی،بے انسانوں کے قاتلوں گرفتار نہیں کرتی، انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچاتی،آخر یہ سب کیا ہے؟ ریاست کی بے بسی،بے حسی یا جان بوجھ کر خاموشی اور چشم پوشی؟ سوال یہ ہے کہ یہ والیان ریاست آخر کس کام کے ہیں؟ کیا انہیں ہر سانحے کے بعد دعائے مغفرت پڑھنے کے لئے اقتدار دیا گیا تھا؟ انہوں نے اب تک عوام کے تحفظ کے لئے کیا کیا ہے؟ یہ سانپوں کو اُن کے بلوں سے باہر نکالنے کے لئے اپنے آہنی ہاتھ اِن بلوں میں کیوں نہیں ڈالتے، اِن کے پاس پولیس ہے،رینجرز ہے،فوج ہے لیکن اِس کے باوجود یہ اتنے بے بس اور کمزور ہیں کہ چند دہشت گردوں نے انہیں انگلیوں پر نچایا ہوا ہے اور یہ سوائے خالی خولی بیانات دینے کے اور کچھ بھی نہیں کر پا تے،دنیا جہان کی انٹیلی جنس اِن کے پاس ہوتی ہے، گرفتاریوں کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو پکڑا جاتا ہے،جن کی مدد سے اُن لوگوں کا سراغ لگایا جاتا ہے جو دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے یا کرا رہے ہیں، اِن لوگوں سے کیا کچھ اگلوایا جاتا ہے اِس بارے میں عوام کو کچھ نہیں بتایا جاتا، خدارا....کوئی تو ذمہ داری قبول کرے،کوئی وفاقی وزیر داخلہ، کوئی صوبائی وزیر داخلہ،آئی جی،ڈی آئی جی، ایس ایس پی، سیکرٹری داخلہ،خدا کیلئے ....کوئی تو کہے کہ ہاں یہ میری ذمہ داری تھی جو میں پوری نہیں کر سکا....ہاں میں مجرم ہوں .... سزا دینی ہے تو مجھے سزا دو.... ورنہ یہ پڑا ہے میرا استعفیٰ قبول کرو۔

مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا،کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ ذمہ داری قبول کرے، یہ کیسے لوگ ہیں کہ اپنی جان کے لئے تو محافظوں کے انبار لگا رکھے ہیں لیکن عوام کی حفاظت میں یہ بری طرح سے ناکام ہیں،افسوس کہ نہ شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں،نہ اِس بات کا اعتراف کہ ہاں عوام کو تحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے جو ہم پوری نہ کرسکے،نہ باعزت طریقے سے استعفیٰ دے کر گھر جاتے ہیں اور نہ اِن کے بڑے اِن سے استعفیٰ طلب کرتے ہیں،نہ انہیں سترہ کروڑ عوام کا کوئی ڈر ہے،نہ ہی آخرت کی گرفت اور خدا کی پکڑ کا خوف،قوم لاشوں پہ لاشیں اٹھا رہی ہے اور یہ بن ٹھن کے قیمتی سوٹ پہن کر محافظوں کے جھرمٹ میں ائیر کنڈیشنڈ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں،کوئی ہے انہیں پوچھنے والا کہ جب تم اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے،جب سترہ کروڑ عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتے تو اقتدار کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہو،اقتدار کا بوجھ تو وہ اٹھائے جو عوام کو جان و مال کا تحفظ دے سکیں،جو خود بھوکے رہیں،عوام کو کھلائیں،جو خود جاگیں،راتوں کو چوکیداری کریں اورچوری،ڈکیٹی ،قتل کی وارداتوں کی ذمہ داری قبول کریں اور اپنی عوام کو آرام و سکون نیند کو سلائیں،شاید یہ ہماری شامت اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمیں درد مندی،احساس اور قوم کی فکر و فاقہ سے عاری وبے نیاز چوکیدار ملے ہیں،اے قوم کے چوکیداروں ڈرو اُس وقت سے جب خدا کا قانون ”ہم ظالموں کو ظالموں سے ختم کرواتے ہیں تاکہ دنیا سکھ کا سانس لے“(القرآن)حرکت میں آجائے اور پھر تمہیں کوئی بچانے والا نہ ملے،ڈرو ربّ ذوالجلال کی گرفت سے،جب تم سے تمہاری رعیت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال ہوگا،مہلت عمل کم ہے....ائے میرے خدا ....اب تو کرم فرما دے....اب تو معاف کردے کہ .... لہو کے رنگ سے رنگین ہیں دیوارو در میرے ....شہر سے ناگہانی موت کا سایہ نہیں جاتا....جواں لاشے، تھکے کاندھے،لزرتے قدم ہیں میرے ....الہٰی، کرم فرما،بوجھ اب یہ اٹھایا نہیں جاتا۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357921 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More