تنویر کاظمی معروف کالم نگار تھے۔ ان کی ادبی و صحافتی
خدمات 54 سالوں پرمحیط تھیں۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز فوٹو گرافر کی
حیثیت ہوا، روزنامہ جنگ کے چیف فوٹو گرافر محمد میاں قریشی کی شاگردگی میں
اپنے جوہر دکھائے۔ معروف علمی و ادبی شخصیات سید محمد تقی، رئیس امروہوی،
ابن انشاء اور ابراہیم جلیس جیسے نابغہ روزگار صحافیوں اور کالم نگاروں کی
صحبت نصیب رہی ۔ فوٹو گرافی کے ساتھ وہ کالم نگاری کی جانب متوجہ ہوئے اور
پھر اسی کے ہورہے ۔انہوں نے کالم نگاری کی دنیا میں اپنا ایک منفرد اور
اچھوتا اندازمتعارف کرایا ۔ ’قلم گزیدہ‘ ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ حکیم
محمد سعید شہید نے تنویرکاظمی کے بارے میں لکھااس وقت دونوں ہی حیات تھے’
ہمارے تنوریر کاظمی ، ہاتھی کا کلیجہ اور شیر کا دل رکھتے ہیں۔ آج کا مورخ
جو بات کہتے ، لکھتے ڈرتا ہے یہ فقط کہہ نہیں دیتے ، دھڑلے سے لکھ دیتے ہیں۔
ان کی تحریریں طنز ومزاح نہیں ہمارے معاشرے پر آہ و بکاہیں‘۔ خود تنویر
کاظمی نے لکھا کہ ’قلم گزیدہ سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، تجارتی، ناسوروں کے
لیے ایک نشتر قلم ہے۔ جس میں ہم نے تمام ممکنہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والوں کی غفلتوں پر نوک قلم سے چرکے لگانے کی کوشش کی ہے‘۔تنوریر
کاظمی نے بہت لکھا ان کی تصانیف کی تعداد تیس کے قریب ہے ۔ یہاں صرف ان کے
شاہکار کالموں کے مجموعے ’قلم گزیدہ‘ کا ذکر مقصود ہے۔کسی بھی تخلیق پر بات
کرنے سے پہلے تخلیق کار کے بارے میں کچھ بات کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ
تخلیق کار تھا تو تخلیق عمل میں آئی۔ تخلیق کار یہ عمل نہ کرتا تو تخلیق کس
طرح وجود میں آسکتی تھی۔ قلم گزیدہ ایک ایسی خوبصورت تخلیق ہے جو مصنف کو
تادیر زندہ رکھے گی۔
تنویر کاظمی نے صحافتی زندگی کا آغاز فوٹو گرافر کی حیثیت سے کیا ۔وہ کیمرے
کی آنکھ سے جو تصویر کشی کیا کرتے تھے ،اس عمل نے اُن کے شعور اور تحت
الشعور پر ایسے گہرے نقش چھوڑے کہ انہوں نے تصویر کشی کوقلم کی زبان میں
تبدیل کردیا ، ان کے اندر ایک لکھاری ، تخلیق کار، ہنرمند موجود تھا ، اس
کی سوچ تجزیاتی تھی ، زبان پر عبور حاصل تھا، تنز و مزاح کے ذریعہ سنجیدہ
بات کو اس طرح پیش کرنے کا سلیقہ ان میں پایا جاتا تھا کہ قاری انہیں داد
دیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ بقول پروفیسر حسن عسکری فاطمی ’ ان کی تحریروں
میں ایسے فقروں اور جملوں کی کمی نہیں جن سے ان کے ادبی شعور کی غمازی نہ
ہوتی ہو‘۔ یہی بات پروفیسر انوار احمد زئی نے پیش لفظ میں کہی کہ ’تنوریر
کاظمی اولاً کمیرہ مین تھے بعد میں انہوں نے کمیرہ چھوڑ کر قلم سے تصویر
کشی شروع کردی‘۔ صحافتی دنیا اور اد ب سے وابستہ شاید ہی کوئی بڑا چہرہ
ایسا ہو جس نے تنوریر کاظمی کی کالم نگاری اور اسلوب نگاری پر اپنی رائے کا
اظہار نہ کیا ہو۔ پروفیسر ڈاکٹرپیرزادہ قاسم صدیقی، پروفیسر سحر انصاری،
ڈاکٹررؤف پاریکھ، حسن عابدی، ڈاکٹر عالیہ امام، پروفیسر ہارون رشید،
پروفیسر نظیر صدیقی، شہناز نور، اجمل دہلوی، پروفیسر انوار احمد زئی،
آغاشاہی، جسٹس(ر) نسیم حسن شاہ، جسٹس (ر) سجاد علی شاہ، سید محمد خاتمی،
خلفان الرومی، حکیم محمد سعید شہید، ڈاکٹر محمد علی صدیقی،پروفیسر نظیر
صدیقی، کلب حسن عابدی ،ڈاکٹر سید ارتفاق علی ، ڈاکٹر اسلم فرخی، شاہ محمود
حسین سید، پروفیسر رفیع عالم، پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر ڈاکٹر شمس الدین،
شہزاد منظر، پروفیسر علی حیدر ملک، خواجہ رضی حیدر اور دیگر شامل ہیں۔
پروفیسر سحرؔ انصاری کاکہنا ہے کہ ’ تنویر کاظمی نے تصویری صحافت سے اپنی
عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ پھر وہ لکھنے لگے اور ایسا لکھا کہ طنزیہ کالم
نگاری میں امر ہوگئے۔ تنویر کاظمی کے موضوعات خیالی یا فرضی نہیں ہوا کرتے
تھے وہ گرد و پیش کی زندگی سے ہی اپنے کردار اور اُن کے رویے منتخب کرتے
اور اپنے طرز خاص میں ڈھال دیا کرتے تھے۔تنویر کاظمی کوبات کرنے کا ہنر آتا
تھا، وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے پلک جھپکتے میں ’کراہٹوں کو
مُسکراہٹوں میں بدل دیا کرتے تھے، تنویر کاظمی کے مضامین کی خوبی یہ ہے کہ
قاری ان کے مضامین کو پڑھ کر ہنستا ہے اور سوچ کر روتا ہے۔ ان کی تحریر صرف
مسکرانے کا سامان ہی مہیا نہیں کرتی بلکہ مسائل کے بارے میں بھی غور و فکر
کی دعوت دیتی ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے ’قلم گزیدہ‘کا فلیپ بھی لکھا ۔ اُن
کا کہنا تھا کہ تنویر کاظمی ایک کہنہ مشق صحافی تھے، صحافت ان کی رگ و پہ
میں بسی ہوئی تھی، وہ اپنے کالموں میں اختصار کا خاص خیال رکھتے تھے۔ بات
سے بات نکالنے اور بحث کے باوجود طول کلامی سے صاف دامن بچا کر نکل جاتے
تھے، زبان معیاری اور شُستہ تھی، ان کے بعض جملے بہت گہری کاٹ رکھتے تھے
اور ایک جامع تبصرے کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ قاری کو تفکر پر اُبھارتے
تھے‘۔ پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے فلیپ میں لکھا کہ تنویر کاظمی کا
اپنا ایک الگ طرز نگارش ہے۔ ایک منفرد اسلوب ہے۔ یہ مختصر باتوں میں بڑی
بڑی باتیں کر جاتے ہیں‘۔ حسن عابدی کے بقول’ تنویر کاظمی اپنے کالموں میں
تو تین باتوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں اول زبان کی دُرستی صفائی اور صوت کا،
یہ خوبی، زبان کے استعمال میں بڑھتی ہوئی مراجیت کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر
قابل تعریف ہے، دوسری خوبی یہ کہ اپنی کالم نگاری کو دل آزاری اور اذیت
رسانی کے لیے استعمال نہیں کرتے، تیسرے یہ کہ مزاح پیدا کرنے کے کاوش نہیں
کرتے ان کے مزاج میں برجستگی اور قلم میں بلا کی روانی ہے ‘۔ محترمہ عالیہ
امام نے لکھا کہ’ تنویر کاظمی کا شمار موجودہ عہد کے ممتاز طنز نگاروں میں
ہوتا ہے‘۔
قلم گزیدہ میں شامل کالموں سے تنویر کاظمی کے بعض جملے درج ہیں جن سے ان کی
تحریرکی شگفتگی، شائستگی، برجستگی، بے ساختہ پن، مزاح اور ان کے تیر و نشتر
چلانے کے فن سے آگاہی ہوسکے گی۔ اپنے کالم ’ساٹھا پاٹھا‘ میں لکھا ’کسی کا
بچہ اٹھارہ برس کا ہو جاتا تھا تو پورے خاندان میں ایک بھونچال سا آجاتا
تھا۔ باقاعدہ اس کی کڑیل جوانی کا اعلان کرنے کے لیے پُر مسرت تقریب منعقد
کی جاتی جسے ’مونچھوں کا کونڈا‘ کہا جاتا تھا‘۔ اپنے کالم’ آئین اور آئینہ‘
میں لکھتے ہیں ’ہمارے خیال میں اگر ہمارے سیاست داں دوسروں کے گریبان میں
جھانکنے اور قانون کے محافظ دوسروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے صرف
آئینہ دیکھ لیا کریں تو ملک کو درپیش مسائل پلک جھپکتے میں حل کیے جاسکتے
ہیں‘۔ اپنے ایک اور کالم ’بھگوان بنے بیٹھے ہیں‘ میں ایوانوں میں بیٹھے
پنڈتوں کو نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ ہم بھی تو آئے دن بت بناتے ہیں
پھر انہیں بھگوان کا درجہ دے کر اپنی ضرورتوں کی بھیک مانگتے ہیں، بس فرق
اتنا سا ہے کہ ان کے بھگوان بت خانوں میں سجے ہیں اور ہمارے بھگوان ایوانوں
میں براجمان ہیں‘۔’کاتب اقتدار ‘کے عنوان سے اپنے کالم میں تنویر کاظمی نے
لکھ ’ایک تو خدا جانے کس سِتم ظریف نے ’بیور کریسی‘ کا ترجمہ’ نوکر شاہی ‘
کردیا ۔ شاید وہ اس میں ’’کی ‘‘ لگانا بھول گیا ہوگا یعنی ’’نور کی شاہی‘‘
یا پھر شاید غلط العام ہوکر ’’نوکر شاہی ‘‘ رہ گیا ہے۔ حالانکہ ان کو تو
’’کاتب اقتدار ‘‘ کہنا ہی زیب دیتا ہے۔ جس کو چاہیں تخت پر بٹھا دیں جس کا
چاہے تختہ کردیں۔ اصل زمامِ حکومت تو ان کے ہاتھ میں ہے۔ بِساطِ سیاست پر
کوئی بادشاہ ہو، کوئی وزیر یا پیادہ، وہ سب ان کی جُنبشِ قلم کے محتاج
ہیں‘۔ اپنے کالم’ امن کی گھنٹی‘ میں لکھتے ہیں’ہمیں ان لوگوں کی حالتِ زار
پر دُکھ ہوتا ہے اور رحم بھی آتا ہے جو ہوسِ زر میں اندھے ہوکر یہ بھول
جاتے ہیں کہ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی یہ دولت ان کے کس کام آئے گی؟ بُلٹ
پُروف یہ گاڑیاں کیا ملک الموت کو آنے سے روک سکیں گی۔ ضروری تو نہیں کہ
ملک الموت گولی، بارُود کی شکل میں ہی آئے ۔ پروردگار کی جانب سے انسانی
سانسیں جب پوری ہوجاتی ہیں تو ملک الموت کسی روپ میں بھی آسکتا ہے۔ جاپان
کا سونامی عبرت کی تازہ مثال ہے جس میں پلک جھپکتے میں تیس ہزار کے قریب
لقمۂ اجل بن گئے تھے‘۔تنویر کاظمی نے صدر فاروق لغاری کے دورمیں ایک کالم
’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ لکھا ۔ فاروق لغاری نے نواب شاہ آکر تیتر کا شکار
کھیلا تھا جس شکار پر قومی خزانے کے پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اسے اپنا
موضوع بناتے ہوئے انہوں نے لکھا ’مثل مشہور ہے کہ شکاری سے زیادہ بھاگنے
والوں کی ہوا کرتی ہے جو اس شکار کی رونق بن کر حقِ نمک ادا کیا کرتے ہیں
اتنے محکموں کے اتنے سارے لوگوں کی شمولیت پر اخراجات تو آتے ہی ہیں۔ پھر
یہ بھی تو سوچو صدرِ مملکت کی نواب شاہ آمد کی وجہ سے کم از کم نواب شاہ کو
بھی تو صاف ستھرا کردیا گیا ہوگا۔ کیا یہ قومی خدمت نہیں۔؟ وہ تو ہمارے صدر
مملکت بڑے خدا ترس اور رحم دل ہیں جو بندوق سے صرف تیتروں کا شکار کھیلتے
ہیں ورنہ بندوق کا صحیح استعمال اگر دیکھنا ہے تو کراچی آکر دیکھو‘۔تنویر
کاظمی نے مصنفین کی تصانیف کو اپنے کالموں کاموضوع بنایا۔ شاہدہ لطیف کی
کتاب پر اپنے کالم بعنوان ’’ اُف میں کیوں پاکستانی ہوں۔؟‘‘ میں لکھتے ہیں
’جس طرح ’صدیق‘ سچے کو کہتے ہیں لیکن اگر وہ کوئی خاتون ہوتو اس کے لیے
’صدیقہ‘ عینی سچی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ’شاہد‘گواہ کو کہتے ہیں لیکن خاتون
ہوتو ’’شاہدہ‘‘ کہا جائے گا اور اگر وہ عینی شاہدہ ہوتو سونے پر سہاگہ
سمجھا جائے گا۔ گویا ۔۔قلمکاروں کی دنیا میں ایک ایسا ہی نام ’’شاہدہ
لطیف‘‘ کا ہے ۔ اگر ان کے نام کی سلیس اُردو میں تشریح کی جائے تو (لطافتوں
کی گواہ) کہا جاسکتا ہے۔ ہم اسے اپنی بد قسمتی ہی سمجھیں گے کہ نصف صدی سے
قلمکار کی دنیا کے ایک ادنیٰ باسی ہونے کے باوجود بالمشافہ تو نہیں البتہ
ان کی قلمی لطافتوں سے ہی فیضیاب ہونا نصیب ہوا۔ وہ بھی ان کی چونکا دینے
والی نگارشات بعنوان ’’اُف یہ برطانیہ‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے
مجموعے کلام کی پیشانی پر جلی حروف میں ’اُف‘ ہی اس کتاب کو پڑھنے ک محرک
بھی بنا کیونکہ آج تک خواتین کی تقریرو تحریر میں ہمیشہ ’’ہائے اللہ‘‘ اور
’’اوئی اللہ‘‘ ہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں لیکن شاہدہ لطیف نے ’’اُف‘‘ کو
اپنی انتہائی پسندیدگی کی علامت بنا دیا ہے ورنہ عموماً یہ لفظ شکوے شکایات
کا ہی ترجمان ہو اکرتا ہے ۔۔اُف یہ ظالم زمانہ۔۔اُف یہ ظالم حسینہ۔۔وغیر
وغیرہ‘۔ تنویر کاظمی کے کالموں کو پڑھتے جائیں اور لطف لیتے جائیں، اگر
انہیں بار بار بھی پڑھا جائے تو بوریت نہیں ہوتی بلکہ لطف دوبالا ہوجاتا
ہے۔ہمارا بھی تنویر کاظمی سے بالمشافہ کبھی ٹاکرا نہیں ہوا، ہم جب کالم
نگاروں کے قبیلے میں داخل ہوئے تو دیگر کے علاوہ تنویر کاظمی لطافت
انگزیزکالموں سے فیضیاب ہونا نصیب ہوا۔ کالم نگاروں کی اپنے گھر کی جنت
(لائبریری) میں رکھنے والی یہ کتاب مجھے تو انجمن ترقی اردو میں ہونے والی
ایک تقریب میں مفت میں ملی ویسے اس کی قیمت صرف دو سو روپے ہے۔ تنویر کاظمی
نے 30کے قریب کتابیں تخلیق کیں۔ ہر کتاب اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ا ن کی
تصانیف میں ’پشت کی چٹکی‘، کڑوی باتیں، شمشیر نیم برھناصحرا کا گلاب ،
ایران حقیقت کی روشنی میں شامل ہیں۔(23مئی2017)
|