عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ون بیلٹ ون
روڈ کانفرنس کے نام سے14اور 15مئی کو ایک بین الاقوامی سربراہی کانفرنس
منعقد ہوئی جس کے لئے بھرپور تر تیاریاں کیں گئیں، خوبصورت اور تاریخی شہر
بیجنگ کو روایتی انداز میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے سجا یا گیا۔ اس
کانفرنس میں29 ممالک کے سربراہان بشمول پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے
شرکت کی ۔ ان سربراہان مملکت کے علاوہ 130 ممالک سے1500مندوبین اور اقوام
متحدہ کے جنرل سیکریٹری، ورلڈ بینک کے صدر اور آئی ایم ایف کے مینیجنگ
ڈایئریکٹر سمیت دیگر اہم اداروں کی شرکت نے اس کانفرنس کو اس سال کا سب سے
اہم ایونٹ بنا دیا۔سب سے اہم بات یہ کہ پاکستان کی بھرپور نمائندگی تھی
جبکہ بھارت نے اپنی ازلی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت
سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ
میاں شہباز شریف،پرویز خٹک ،ثناء اﷲ زہری اور سید مراد علی شاہ اور کابینہ
کے ارکان اس کانفرنس میں شریک تھے۔ان تمام سیاسی رہنماؤں کی شرکت سے
پاکستان کے صوبوں اور وفاق کے درمیان پائے جانے والے مثالی اتحاد کا
انتہائی مثبت تاثر دنیا تک پہنچا ہے۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جو چین نے بنایا
ہے یہ یورپ، ایشیاء اور افریقہ کو ملانے والا اتنا بڑا منصوبہ ہے جو کبھی
کسی نے پہلے نہیں بنایا اور نہ اس کے بارے کبھی سوچا۔ چین کی یہ سوچ عالمی
سطح کی ہے اور اپنے ملک تک محدود نہیں ہے۔ سڑکیں، ریلوے، بندرگاہیں اور
ہوائی اڈے جب ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک
بنیں گے تو پوری دنیا کے انسانوں، تجارت، سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو
فائدہ ہوگا۔ پاکستان کا سی پیک اس بڑے منصوبہ کا بڑا اہم پروجیکٹ ہے۔ دراصل
یہ15 سالہ پروگرام ہے اور 2030ء تک جاکر اس کی واضح شکل بنے گی۔ چین کے
صوبے سنکیانگ کو پورے پاکستان کی جدید ترین شاہراہوں ریلوے اور بندرگاہوں
سے ملا دیا جائے گا۔ اس سے پورے پاکستان کے عوام اور کاروبار کو فائدہ
پہنچے گا۔ واضح رہے کہ ون بیلٹ ون روڈ نامی اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان
چینی صدر نے اپنے ستمبر 2013ء کے دورہ وسطی ایشیا کے دوران کیا تھا اور اس
منصوبے میں سب سے زیادہ اہمیت پاکستان ہی کو دی جارہی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے ’’ون بیلٹ اینڈ ون روڈ‘‘ نامی عالمی وژن کو
عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں 124‘ ارب ڈالر کی
سرمایہ کاری کا اعلان کیا ۔ نیزبیجنگ میں عالمی کانفرنس کے آغاز پر چینی
صدر نے بلیٹ اینڈ روڈ فورم کیلئے اپنی جانب سے کی جانیوالی پیش رفت کا خاکہ
پیش کیا اور اس کیلئے 124‘ ارب ڈالر کی سکیم کا عہد کیا۔ انہوں نے سربراہی
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ تجارت معاشی ترقی کا اہم ذریعہ ہے،بیلٹ
اینڈ روڈ منصوبے کے تحت قدیم ’’سلک روٹ‘‘ یا شاہراہ ریشم کو دوبارہ قائم
کرنا شامل ہے اور اس کیلئے بندرگاہوں،شاہراہوں اور ریل کے راستوں کی تعمیر
کیلئے سرمایہ کاری کی جائیگی تاکہ چین کو ایشیاء،یورپ اور افریقہ سے جوڑا
جا سکے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کو فروغ دے کر ہم دشمنوں کے کھیل کی پرانی راہ پر
نہیں چلیں گے اور اسکے برعکس ہم تعاون اور آپس کے فائدے کا نیا ماڈل تیار
کر ینگے،ہمیں ایک کھلی عالمی معیشت کو فروغ دینا چاہیے‘‘۔
کانفرنس سے وزیراعظم میاں نوازشریف‘ روس کے صدر ولادی میرپیوٹن،ترکی کے
وزیراعظم رجب طیب اردوان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس
نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ ’’پاک چین اقتصادی
راہداری سرحدوں کی پابند نہیں،ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ تین براعظموں کو ملائے
گا‘ اس سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ
منصوبہ آنیوالی نسلوں کیلئے ایک تحفہ ہے‘ اس سے غربت کا بھی خاتمہ ہوگا۔اسی
منصوبے کی مدد سے ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیں
کیونکہ جس سمت میں ون بیلٹ اینڈ ون روڈجا رہا ہے اس کی مدد سے ہم آہنگی
،رواداری اور مختلف ثقافتوں کو پھیلا سکتے ہیں ‘۔یہ منصوبہ اس بات کی
نشاندہی کرتا ہے کہ جغرافیائی معاشیات ،جغرافیائی سیاست سے زیادہ ضروری اور
فائدہ مند ہے جس کی مدد سے ملکوں کے مابین تصادم کی بجائے تعاون کو فروغ
ملے گا‘‘سی پیک منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہوئے وزیراعظم نواز
شریف نے کہا کہ ’’سی پیک منصوبہ ون بیلٹ اینڈ ون روڈ کے اہم ترین منصوبوں
میں سے ہے جس کی مدد سے پاکستانی تجارت کے لیے راستہ اور منزل دونوں میسر
ہو سکتے ہیں ‘‘۔چین سے دوستی پر اظہار تفخر کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف
نے کہا کہ ’’پاکستان اور چین کے تعلقات بہت قریبی ہیں اور چین پاکستان کا
بہترین دوست اور پر اعتماد اتحادی ملک ہے ‘‘۔ روسی صدر پیوٹن کے بقول’’ ون
بیلٹ ون روڈ منصوبے سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے اور ہم ترکی‘ چین اور
پاکستان سمیت تمام ممالک کے ساتھ اس منصوبے کیلئے کام کرنے کو تیار ہیں‘‘۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بھی بیجنگ میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنس
سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ صدر عوامی جمہوریت چین شی جن پنگ کا ون بیلٹ
ون روڈ کا منصوبہ اور اس سے جڑا ہوا ان کا وژن خطے میں امن اور معاشی
مضبوطی لا ئے گا‘‘۔
یہ بین الاقوامی منصوبہ بنیادی طور پہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصے کو’’
سلک روڈ اکنامک بیلٹ ‘‘کا نام دیا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ’’ میری ٹائم سلک
روڈ ‘‘کے نام سے موسوم ہے، مجموعی طور پر اس منصوبے پر200 بلین امریکی ڈالر
کے خرچ کا تخمینہ ہے جسکے تحت دنیا کے60 سے زائد ممالک اقتصادی طور پر آپس
میں منسلک ہو رہے ہیں ، اسی منصوبے کے تحت چین سے برطانیہ اور برطانیہ سے
چین مال بردار ٹرین اپنا پہلا چکر کامیابی سے مکمل کر چکی ہے۔ اس منصوبے کا
اہم حصہ پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے موسوم ہے جس کیلئے ابتدائی طور
پر 46ارب ڈالر مختص کئے گئے تھے جو کہ بڑھ کر اب تقریباً 60ارب ڈالر تک
پہنچ گئے ہیں ، اس طرح سی پیک کا حصہ ون بیلٹ ون روڈ میں تیس فیصد کے لگ
بھگ بنتا ہے۔
بھارت کو پاکستان چین دوستی کے حوالے سے سب سے زیادہ تکلیف گوادر پورٹ اور
اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل کیلئے چین کے پاکستان کے ساتھ تعاون سے
پہنچی چنانچہ اس نے راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے متعدد سازشی منصوبوں
پر کام کا آغاز کیا اور بھارتی جنونی وزیراعظم نریندر مودی نے خود بیجنگ کا
دورہ کرکے چینی قیادت کو پاکستان کیخلاف ’’رام‘‘ کرنے کی کوشش کی مگر اسے
چینی قیادت کی جانب سے دوٹوک جواب ملا۔ چین کے تعاون سے پایہ تکمیل کو
پہنچنے والے سی پیک نے آج امن و سلامتی اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کے
حوالے سے دنیا کی سوچ ہی بدل دی ہے چنانچہ جنونیت اور اسلحہ کے زور پر دنیا
پر غالب آنیوالی سوچ پر چین کی مثبت اور تعمیری سوچ کو غلبہ حاصل ہورہا ہے
اور برصغیر‘ جنوبی ایشیاء‘ وسطی ایشیاء‘ افریقہ اور یورپ سمیت دنیا کے کم و
بیش تمام ممالک اپنی اپنی اقتصادی ترقی کی خاطر خود کو سی پیک سے منسلک
کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں جن میں سے بیشتر ممالک کی جانب سے سی پیک
کے ساتھ منسلک ہونے کے معاملہ میں پیش رفت بھی ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں سی
پیک علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت بھی فراہم کررہا ہے کیونکہ اس
سے وابستہ ہونیوالا کوئی بھی ملک اپنی اقتصادی ترقی کی خاطر اب اس منصوبے
کو کسی جنونیت کے ہاتھوں سبوتاژ نہیں ہونے دے گا۔ اسی تناظر میں ہمارے لئے
پاک چین دوستی کا بندھن اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اقتصادی راہداری
منصوبے کے علاوہ ہمارا دوست چین اپنے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت بھی
پاکستان میں تقریباً پانچ سو ملین ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کا عندیہ دے
چکا ہے جس کیلئے عالمی کانفرنس کے موقع پر چین نے پاکستان کے ساتھ مزید سات
اہم ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے طے کئے ہیں جن کی تکمیل کیلئے چین مالی اور
تکنیکی تعاون فراہم کریگا۔
وزیراعظم میاں نوازشریف کے دورہ چین کے حوالے سے یقیناً یہ اہم اور مثبت
پیش رفت ہے کہ سی پیک کے علاوہ چین بھاشا ڈیم،گوادر ائرپورٹ،حویلیاں ڈرائی
پورٹ کی تعمیر، ایم ایل ون شاہراہ کی اپ گریڈیشن اور ایسٹ بے ایکسپریس
وے،ریلوے ٹریک اور مختلف دوسرے منصوبوں کیلئے رعایتی قرضوں کی فراہمی کیلئے
بھی ہمارے ساتھ تعاون میں پیش پیش ہے چنانچہ برادر چین کے تعاون سے پاکستان
فی الواقع معاشی انقلاب سے ہمکنار ہورہا ہے جس سے ملک کے عوام کا مقدر بھی
سنور جائیگا۔ اسی طرح چین،روس، ترکی اور پاکستان کے تعاون سے اس خطے کا امن
و سلامتی کی جانب سفر شروع ہوگا تو یہ علاقائی ہی نہیں عالمی امن و سلامتی
کی بھی ضمانت بن جائیگا جس کے اشارے ابھی سے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس تناظر
میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے درست نشاندہی کی ہے کہ چین کے ون بیلٹ
ون روڈ منصوبے کے ساتھ دنیا کا مستقبل وابستہ ہے۔ چین نے سلک روڈ فنڈ میں
مزید ایک کھرب یوآن فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جس سے پاکستان اور چین
کے ساتھ دنیا کے روابط استوار کرنیوالی شاہراہ ریشم اقتصادی راہداری کیلئے
بہترین معاون بن جائیگی۔ اس لحاظ سے شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور
سمندر سے گہری پاک چین دوستی اس خطہ ارضی کو امن و آشتی کا گہوارا بنانے کی
ضمانت بھی فراہم کررہی ہے۔ چنانچہ جو بھارت اپنی جنونیت اور انتہاء پسندی
کے زور پر پاکستان کو دنیا میں تنہاء کرنے کی سازشوں میں مگن تھا‘ وہ بہتر
حکمت عملی پر مبنی پاک چین دوستی کے باعث خود عالمی تنہائی کا شکار ہوتا
نظر آرہا ہے۔ اس تناظر میں یہی محسوس ہورہا ہے کہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ
منصوبے اور سی پیک کے ساتھ خود کو وابستہ کرنیوالی دنیا ہی اقتصادی ترقی‘
استحکام اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہوگی اور دنیا کو منتشر اور جنگ و
جدل میں مبتلا کرنے والی سوچ اپنی موت آپ مر جائیگی۔
ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں بھارت نے یہ کہہ کر شرکت سے انکار کیا۔یاد رہے
کہ بھارت کو پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ بھی کسی صورت ہضم نہیں ہو پا
رہا ،جوں جوں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے توں توں بھارت کے مکروہ
و مذموم عزائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،اور اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے
بھارت کا انکار ابھی یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت امن کی بجائے شر کو پسند
کرتا ہے اور امن کے منصوبے اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے جبکہ امن کی آشا کا
ڈھنڈورا اس لیے پیٹتا ہے کہ اس کا مکروہ چہرہ کسی کو نظر نہ آئے۔ اس لیے
بھارت نے اس کانفرنس میں یہ عذرلنگ پیش کیا کہ ون بیلٹ ون روڈکا ایک اہم
اور بڑا حصہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا ایک حصہ کشمیر سے گزرتا ہے،
چونکہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس سے بھارت کی خود مختاری اورجغرافیائی
سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔اس لیے بھارت کسی بھی ایسے منصوبے میں شرکت سے گریز
کرتا ہے۔یہ تو صرف بھارت کی طرف سے انکار کرنے کا بہانہ تھا ۔بلکہ حقیقت تو
یہ ہے کہ بھارت کوپاک چائنہ اقتصادی راہداری جیسا عظیم منصوبہ کسی صورت
قبول نہیں ہے ۔دوسری طرف ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس کے کامیاب انعقاد اور اس
میں پاکستان کی بھرپور شرکت سے بھارت نہ صرف تلملاہٹ کا شکار ہے بلکہ اس کا
پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا مذموم خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے ۔یہی
وجہ ہے بھارت اس منصوبے کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔اس موقع پر
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں بھارت کو ایک واضح پیغام میں کہا کہ
’’سی پیک کا منصوبہ ایک اقتصادی منصوبہ ہے جس میں سرحدوں کی کوئی قید نہیں
اور کوئی بھی ملک اس میں شامل ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے
سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘‘ امید ہے کہ دونوں قومیں ایک
دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی۔ 2030ء میں پاکستان کا منظر نامہ
بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ |