یہ سچ ہے کہ معاشی مسائل اور غربت انسان کو برے سے برا
کام کرنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے اور یہ غربت ہی ہے جو معاشرے میں انسانی
اعضا ء کی خرید و فروخت جیسے مکروہ کاروبار کو جنم دیتی ہے۔یہ کھیل کب سے
جاری ہے اور اس کو مستحکم ہونے میں کتنا عرصہ لگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا
جا سکتا ۔نوے کی دہائی تک بھارت گردوں کی خرید و فروخت اور سستی پیوند کاری
کی عالمی منڈی بنا ہوا تھا ،مگر آج دنیا کے دیگر ممالک کے باشندوں نے
پاکستان میں ’کڈنی ٹور ‘ شروع کر دئیے ہیں ،چونکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں
گردہ کی خرید و فروخت جرم کے زمرے میں آتے ہیں اور اس پر اخراجات بھی بہت
زیادہ ہوتے ہیں اس لیے پاکستان اعضاء کی پیوندکاری کے لیے مرغوب ترین عالمی
مرکز اور کڈنی ٹور کنٹری بن چکا ہے۔آپ آئے روز اخبارات میں یہ خبریں سنتے
ہیں کہ ایک شخص نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا گردہ فروخت کر دیا ،بلکہ
سوشل میڈیا پر اکثر ایسے اشتہارات نظر آتے ہیں جس میں گردہ فروخت کرنے کا
اشتہار ہوتا ہے ،کچھ عرصہ قبل کاروبار میں شدید گھاٹا کھانے والے آصف احمد
نے انٹرنیٹ پر اشتہار دیا کہ وہ اپنا ایک گردہ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ 28 برس
کے آصف نے گھمبیر ہوتے اقتصادی مسائل سے نجات کے لیے گردہ بیچنے میں عافیت
سمجھی۔ آصف کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں اس انداز میں گردے کی فروخت کے
خلاف قانون موجود ہے لیکن اس کے پاس ایسا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
تھا۔انسانی اعضاء کی غیرقانونی فروخت کے کاروبار کی گونج ایک مرتبہ پھر
پاکستان کے طول و عرض میں سنی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں
انسانی اعضا ء کی غیر قانونی فروخت کے حوالے سے ایک قانون 2010 میں نافذ ہو
گیا تھا۔اس قانون کے نفاذ کے بعد اس کاروبار میں خاصی کمی واقع ہوئی تھی۔
گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران اس کاروبار میں ایک بار پھر شدت پیدا ہونے پر
معالجین اور سول سوسائٹی کو سنگین تشویش لاحق ہے۔ پاکستان کے اندر گھمبیر
ہوتے اقتصادی مسائل اور بڑھتی غربت کو بھی اس کی بڑی وجہ خیال کیا جاتا ہے۔
اس غیر قانونی کاروبارکے بارے میں ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پاکستانی
اور بعض غیر ملکی مریض صوبہ پنجاب میں گردے خریدنے کے عمل میں شریک ہو رہے
ہیں۔ غیر ملکیوں کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بتایا جاتا ہے۔ خاص طور پر
غیر ملکی مریضوں کے گردے خریدنے کو پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بھی رپورٹ کیا
گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی وفاقی و صوبائی حکومتوں سے انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے
متعلق تفصیلی جواب طلب کرلیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اانسانی اعضاء کی
پیوندکاری پر کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی
سربراہی میں دو رکنی بنچ نے انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق کیس کی
سماعت کی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان گردوں
کے معاملے میں انٹرنیشنل ڈونر بن چکا ہے۔ غیرملکی غریب پاکستانیوں سے گردے
خریدتے ہیں۔ انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق قانون میں کوئی سقم ہے تو
اسے دور کریں گے۔ انسانی اعضاء کی پیوندکادی نوبل کام ہے اسے پیشہ نہ بنایا
جائے۔ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے مطابق سن
2010میں گردوں کی پیوند کاری کے 42 آپریشن میں 14 غیر قانونی انداز میں
مکمل کیے گئے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ
دنیا بھر میں انسانی اعضاء کی غیرقانونی تجارت کے سالانہ بنیادوں پر دس
ہزار سے زائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے غیر قانونی دھندے میں نیپال،
چین، بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے مریض جن کو گردے
کی ضرورت ہوتی ہے ان کو ہسپتالوں میں سالوں سال انتظار کا سامنا کرنا پڑتا
ہے جس کی وجہ سے لوگ غیر قانونی طریقوں سے اعضا ء حاصل کر رہے ہیں۔ برطانیہ
کے محکمہ صحت کے مطابق اعضا کے ٹرانسپلانٹس کے لیے پاکستان سرفہرست ہے۔بعض
افراد غربت اور افلاس کی دلدل سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس غیر قانونی عمل
میں ملوث ہوتے ہیں مگر افسوس کہ کچھ کو تو دھوکے و فراڈ سے اس دلدل میں
پھنسایا جاتاہے۔ اکتوبر 2016 میں پولیس نے راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن میں ایک
پلازے پر چھاپا مارا جہاں 24 خوفزدہ افراد قید تھے۔ ان کو ملازمت دلانے کا
جھانسہ دے کر وہاں لایا گیا تھا۔ یہ افراد جب وہاں پہنچے تو ان کو قید کر
کے بتایا گیا کہ ان کا ایک ایک گردہ نکالا جائے گا۔ان میں سے کسی کو ڈیڑھ
مہینہ تو کسی کو ایک ہفتہ قید میں رکھا گیا۔ ان کو جب ضرورت پڑتی تھی تو
نکال کے کڈنی سینٹر منتقل کر دیا جاتا۔ ان کے ٹیسٹ بھی وہیں پر ہوتے ۔ ان
کو باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ سہانے خواب دکھا کر انہیں یہاں لایا
گیا۔ یہ افراد مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن کو یہاں لایا جاتا
تھا تو ان کے فون بھی لے لیے جاتے ۔ ایجنٹ لالچ دے کر یہاں لاتے تھے۔ ان
لوگوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔‘
اﷲ تعالیٰ کی بے شمارنعمتوں میں سے گردے انسان کے لیے بے حدقیمتی نعمت
ہیں۔خالق کائنات نے انسان کودوگردوں سے نوازاہے جوکہ نصف دائرے کی شکل کے
دو عضو جودراصل غدود ہیں‘گیارہویں پسلی کے نیچے پیٹ کی طرف کمرمیں دائیں
اور بائیں جانب واقع ہیں۔جوانی اور تندرستی کی حالت میں گردہ تقریباً11سم
لمبا‘ 5سے 7سم چوڑا اور2.5سم موٹاہوتاہے۔ ہرگردے میں 10لاکھ سے زیادہ نالی
دار غدودیا نیفران یافلٹرہوتے ہیں۔یہ انسانی جسم کے لیے وہی کام کرتے ہیں
جو ایک ماہرحساب دان ایک کمپنی کے لیے کرتاہے۔ایک اندازے کے مطابق گردوں
میں 24 گھنٹوں کے دوران 1500 لیٹر خون گزرتا ہے۔ان کا کام جسم سے فاسد
،نقصان دہ،ضرورت سے زائد مادوں کو خارج کرنا ہے۔یہ جسم میں پانی اور نمکیات
کا توازن برقرار رکھتے ہیں ،مثلاََجسم میں کیلشیم ،پوٹاشیم ا ور فاسفورس کی
مقدار کے علاوہ پانی اور دیگر نمکیات وغیرہ کا ایک حد تک جسم میں رہنا
ضروری ہوتا ہے اس کی کمی و بیشی سے بہت امراض جنم لیتے ہیں ،انسان زندہ
نہیں رہ سکتا ۔یہ جسم کے لیے ایسے بہت سے مفید ہارمون پیدا کرتے ہیں ،اگر
یہ ہارمون جسم میں کم ہو جائیں تو خون کی کمی کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ بات بہت قابل توجہ ہے کہ جب تک گردے 80 یا 90 فیصد تک تباہ نہ ہو چکے
ہوں اس سے پہلے مریض کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا وہ اپنا روز مرہ کا کام
کرتا رہتا ہے ،ایک گردہ ناکارہ بھی ہو جائے تو بھی دوسرا کام کرتا رہتا ہے
،اسی طرح یہ بات بھی توجہ چاہتی ہے کہ جب گردے ایک بار مکمل ناکارہ ہو
جائیں تو کوئی دوائی یا علاج اس کو صحیح حالت میں نہیں لا سکتا۔ گردوں میں
پتھری ہو تو اس کا علاج شعاعوں سے یاآپریشن سے ممکن ہے ،لیکن مکمل طور پر
گردوں کے فیل ہونے کی صورت میں گردوں کی پیوندکاری ہی اس کا علاج ہے۔ اعضاء
کی پیوند کاری ایسا جراحتی عمل ہے جس میں خراب اعضا (گردے، جگر، آنکھ
وغیرہ) کو نکال کر کسی دوسرے فرد (زندہ یا مردہ) کے اعضا لگا دئیے جاتے
ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعضاء کون عطیہ کر سکتا ہے؟خونی رشتوں سمیت
کوئی بھی ایسا شخص جس کا خون اور ٹشوز عطیے کے ضرورت مند سے مطابقت رکھتے
ہوں۔ ایسا شخص جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہو اور اس کے عطیہ کیے گئے
اعضاء کسی بیماری سے متاثر نہ ہوں تو اْنہیں کسی دوسرے فرد کے جس میں لگایا
جا سکتا ہے۔پیوند کاری کے آپریشن سے قبل عطیہ کنندہ اور عطیہ وصول کرنے
والے افراد کے خون اور ٹشوزکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، کیونکہ ٹرانسپلانٹیشن کے
لیے دونوں افراد (عطیہ وصول کنندہ اور عطیہ کنندہ) کے خون اور ٹشوز کا میچ
ہونا ضروری ہے۔اگر عطیہ کنندہ زندہ ہے تو اسے جراحی سے قبل اینستھیسیا (بے
ہوش کرنے والی دوا) دی جاتی ہے۔ہر اعضا کی پیوند کاری کا وقت مختلف ہوتا ہے
مثال کے طور پر گردے کی پیوند کاری کا آپریشن تقریباً تین گھٹنے میں مکمل
ہوتا ہے۔واضح رہے کہ ٹرانسپلانٹ سے قبل ’’ٹشوز‘‘ اور ’’بلڈ ٹائپنگ ٹیسٹ‘‘
سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جراحی کے بعد مریض کا جسم نئے گردے کو
مسترد نہیں کرے گا۔
پیوند کاری کا یہ عمل انتہائی مشکل حالات اور مریض کو نئی زندگی دینے کے
لیے ہے مگر افسوس پاکستان میں یہ کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔غربت
کے مارے افراد اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں۔یاد رہے لاہور میں گردوں کی
غیر قانونی پیوند کاری کی خبریں سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے
ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایف آئی اے اور پولیس کو احکامات جاری کیے تھے،
جس کے بعد پولیس نے لاہور کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں چھاپہ مار کر گروہ کو
گرفتار کیا تھا۔ ایف آئی اے نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قائم ایک گھر پر
چھاپہ مار کر غیرقانونی طور پر گردوں کی پیوند کاری میں ملوث گروہ کو
گرفتار کرلیا، گرفتارشدگان میں گردہ عطیہ کرنے والے دو افراد بھی شامل
ہیں۔مذکورہ گھر میں یہ کام کافی عرصے سے جاری تھا۔ ڈاکٹر فواد اور ڈاکٹر
التمش کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپا مار کر عین اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑا
جب وہ ایک مریض کا آپریشن کرر ہے تھے۔ جبکہ دو ڈونرز کو بھی پکڑ لیا
گیا۔پیوند کاری کرانے والے دو غیرملکی مریضوں اور دو ڈونرز کو ایمبولینس کے
ذریعے مقامی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے جائے وقوعہ سے پلیٹ
میں پڑے ایک گردے کوبھی قبضے میں لے لیا۔ گرفتار ہونے والے ڈاکٹرزغیر
قانونی طو رپرغریب افراد کے گردے نکال کرغیرملکیوں کو مہنگے داموں فروخت
کرتے اورغیر قانونی پیوند کاری کا دھندہ کرتے تھے۔محکمہ صحت نے اس گروہ میں
شامل ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے
والے ڈاکٹر اس غیر قانونی دھندے میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف باقاعدہ
کارروائی کی جائے گی۔یہ منظم گروہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک گھر کو گردوں
کی خفیہ پیوندکاری کے لئے استعمال کرتا رہا۔ جو ضرورت مند لوگ اپنا گروہ
فروخت کرتے تھے، انہیں بہت کم رقم ادا کی جاتی تھی۔ بعض معاملات میں ایسا
بھی ہوا کہ گروہ فروخت کرنے والوں کو طے شدہ رقم ادا نہیں کی گئی، جب یہ
لوگ احتجاج کرتے یا اس غیر قانونی دھندے کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے
اداروں کو شکایت کی دھمکی دیتے تو انہیں الٹا ڈرا دھمکا کرخاموش کردیا جاتا
تھا۔چند سال قبل جب بعض علاقوں میں گردوں کی پیوندکاری کی بہت زیادہ شکایات
ملنے لگیں تو اس وقت بڑے پیمانے پر اس غیر قانونی دھندے کے بارے میں
انکشافات ہوئے تھے اور یہ افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ بعض صحت مند
نوجوانوں کو اچھی ملازمت دینے کے بہانے اغوا کرلیا جاتا اور پھر انہیں بے
ہوش کرکے ان کا گردہ نکال کر منظم گروہ لاکھوں روپے کماتے تھے۔ المیہ ہے کہ
بہت سے لوگ قرض ادا کرنے یا بہنوں کی شادی کے اخراجات کی غرض سے اپنا گردہ
بیچنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ ان سے زیادتی یہ ہوتی ہے کہ انہیں طے
شدہ معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح12 مئی کو ہی ایف آئی اے نے گردوں کی غیر
قانونی پیوندکاری میں ملوث گروہ کے سرغنہ سمیت4 ملزمان کوکو مری سے گرفتار
کیا۔ ملزمان بیرون ملک سے مریض پاکستان لاتے تھے۔ اس سے قبل ملزمان وادی
کیلاش اور چترال میں روپوش تھے اور چند روز قبل ہی مری آئے تھے۔ ان کے
ہمراہ ایک خاتون بھی تھی جو مبینہ طور پر گروہ کی رکن ہے۔ ۔ جبکہ مقامی
جناح ہسپتال کے عقب میں ہارمون لیب پر ایف آئی اے کا چھاپہ مار کرتھالوجسٹ
خالد اور نسیم کو تحویل میں لے لیا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کے
گھناؤنے کاروبار کی تحقیقات جاری ہیں اور مبینہ طو رپر مزید 25ڈاکٹروں کی
فہرست تیار کر لی گئی ہے جن کے ناموں کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے اور
بہت جلد کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اسی طرح ا یف آئی نے گوجرانوالہ میں
کارروائی کرتے ہوئے گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں سہولت کاری کا کردار
ادا کرنے والے اہم ایجنٹ عبد المجید کو بھی گرفتار کر لیا ۔جو کہ غیر ملکی
مریضوں کے ساتھ گردوں کی ڈیلنگ کراتا تھا۔جبکہ غریب افراد کو پیسوں کا لالچ
دے کر گردے فروخت کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، دونوں افراد کو راضی کرنے کے بعد
انہیں وہ ڈاکٹر التمش اور ڈاکٹر فواد کے پاس بھیج دیتا تھا۔ جبکہ انہی
ڈاکٹروں نے کلمہ چوک کی رہائشی روشنی کاگردہ ایک لاکھ تیئس ہزار روپے میں
خرید کر اومان کی خاتون کو دیا۔ایف آئی اے نے گردہ بیچنے والے عامر اور
روشنی کو بھی حراست میں لے لیاہے، گردوں کے غیر قانونی نیٹ ورک میں مزید
ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔اردن سے سلمیٰ نامی خاتون گردہ ٹرانسپلانٹ کرانے لاہور
آئی، ڈاکٹر فواد اور ڈاکٹر التمش کو 45 لاکھ روپے بھی دئیے مگر آپریشن کے
دوران خاتون دم توڑ گئی۔مکروہ دھندا کرنے والے گروہ نے جرم پر پردہ ڈالا
اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں جعلسازی کرکے سلمیٰ کی میت اردن بھجوائی گئی۔ اس سے
قبل نرس صفیہ نے بھی آپریشن کے دوران ایک غیر ملکی شخص کی ہلاکت کا انکشاف
کیا تھا۔گردہ اسکینڈل میں ڈاکٹر فواد، ڈاکٹر التمش اور ڈاکٹر ثاقب سمیت
گرفتار افراد کی تعداد 11 ہوگئی، ابھی مزید گرفتاریوں کا بھی امکان
ہے۔پنجاب میں گردوں کی غیرقانونی پیوند کار ی روکنے کے لئے ضلعی سطح پر
مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
ایف آئی اے عہدے دار نے بتایا کہ گرفتار ڈاکٹروں کے خلاف 2 مقامی اور ایک
غیر ملکی فرد کے مبینہ قتل کے الزام میں علیحدہ ایف آئی آر درج کرنے پر غور
کیا جا رہا ہے۔ گردوں کے ٹرانسپلانٹ کے لیے اردن، لیبیا، سعودی عرب اور
عمان سے آنے والے غیرملکی شہریوں کو گلبرگ کی ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔
ہم ان غیر ملکی افراد کا ریکارڈ جمع کر چکے ہیں جبکہ اس جرم میں ملوث مزید
ڈاکٹروں اور ایجنٹس کے متعلق بھی معلومات حاصل ہوئی ہیں جنہیں اس ہفتے
گرفتار کر لیا جائے گا۔
|