معمولی معمولی باتوں سے غصہ سے لعل پیلا ہونا، جسم تھکاوٹ
کا شکار، آنکھوں پر بوجھ اور سرخ ، کسی بھی بیماری کی صورت میں مکمل صحت
یابی نہ ہونا، بھاک کا بہت زیادہ یا ختم ہو جانا ۔ اگر کسی کی طبیعت ایسی
علامات کا مجموعہ نظر آئے تو وقت ضائع کئے بغیر ’’ خاموش قاتل ‘‘ یعنی کالا
یرقان کا ٹیسٹ کروانا چاہیے ، کالا یرقان خاموش قاتل کو اس لئے کہتے ہے کہ
’’ہیپاٹایٹس ‘‘ جسم میں موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آتا کیونکہ یہ اند
ہی اند انسان کو دیمک کی طرح کھا رہا ہوتا ہے۔ کالایرقان یا ہیپاٹاٹیس کا
شکار ہمرا ’’ جگر ‘‘ ہوتا ہے۔ اور ہمارے جگر LIVER کو ہمارے جسم کا کچن کہا
جاتا ہے۔ کیونکہ جسم کی تمام ضروریات جگر ( کچن ) سے ہی پوری ہوتیں ہیں !
جگر جسم کا ایک اہم عضو ہے جو پسلیوں کے نیچے دائیں جانب پیٹ کے بالائی حصے
میں ہوتا ہے ہمارا، جگر روزانہ پانچ سو سے زائد مختلف اہم عمل کرتا ہے یہ
بہت نازک عضو ہے اور اس میں خون کی بہت سی مقدار موجود رہتی ہے اس کا وزن
1400سے 1600گرام ہے یہ مندرجہ ذیل کام بھی کرتا ہے۔1وٹامنز، منرلز، فولاد
اور شکر کو ذخیرہ کرنا،2خون کی صفائی کیلئے چھنی کا کام کرنا اور خون کو
زہریلے اور فاسد مادوں سے پاک کرنا3کولیسٹرول کو کنٹرول رکھنا اور خون کی
روانی میں کسی دوائی یا کیمیکل کے شامل ہونے کو کنٹرول کرنا 4غذا کو
کیمیائی مادوں میں تبدیل کرنا جو توانائی کیلئے ضروری ہیں۔5ہارمونز کے
توازن کو برقرار رکھنا۔6مختلف قسم کی پروٹین اور خون کو منجمند کرانیوالے
مادے بنانا 7بائل کے ذریعے ہاضمے میں مدد دینا اور 8آنتوں کے ذریعے فاسد
مادوں کا اخراج،۔ جگری کی سوزش کو ہیپاٹائٹس کہتے ہیں وائرس ایک چھوٹا سا
جرثومہ ہے جو جسم میں داخل ہو کر مختلف اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے جگر کی
خرابی کی سب سے اہم وجہ کئی اقسام کے وائرس ہوتے ہیں ان وائرس کی اقسام کے
نام A، B،C، Dاور Eیعنی (اے بی، سی ڈی اور ای)وغیرہ ہیں وائر س اے اور
Eقلیل المیعاد (عام یرقان) ہیپاٹائٹس کا باعث بنتے ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس بی
اور سی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں یہ قلیل المیعاد بھی ہوتے ہیں مگر چند لوگوں
میں طویل المیعاد ہیپاٹائٹس کا باعث بن سکتے ہیں یعنی Hepatitis Cronic) جو
رفتہ رفتہ جکڑ سکڑنے کا باعث بنتا ہے جو کہ سروسس (Cirrhoss) کہلتا ہے
سروسس کا یہ عمل سالوں پر محیط ہوتاہیں ۔کی علامات ظاہر ہونے سے دس سے20
سال تک مریض صحت مند نظر آسکتا ہے ابھی تک ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤکے حفاظی
ٹیکے نہیں ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے ہیں اور ہم سب کو لگوانے
چاہیں ہم سب کو چاہیے کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ کروائیں آج کل کے
اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا میں پایا جانیوالا ہیپاٹائٹس سی کا یہ
وائرس تقریبا170کروڑ افراد کے جسم میں موجودہ ہے اور 60 لاکھ سے ایک کروڑ
تک پاکستانی لوگ اس میں مبتلا پائے جاسکتے ہیں جن لوگوں کو ہیپاٹائٹس سی ہو
تو ان میں انتہائی تھکن اور نقاہت پائی جاتی ہے شراب سے بھی ایسے مریضوں کو
پرہیز کرنا چاہیے ہیپاٹائٹس سی میں سب سے زیادہ اہم دو پیچیدگیاں ہوتی ہیں
ایک تو صلابت جگر (یعنی جگر کا سکڑنا) یا سروسس اور دوسرا جگر کا سرطان
یعنی کینسر یہ دو ایسی پیچیدگیاں ہیں جن کا آخر کار علاج صرف جگر کی تبدیلی
ہی سے ممکن ہے مندرجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں وزن کم ہونا، چہرے کارنگ زرد
ہونا، پیٹ میں پانی بھر جانا، خون کے قے آنا بے ہوشی ہونا، سانس سے بوآنا،
نیند میں خلل، ہاتھوں پر کپکپی ہونا، پا?ں اور تمام جسم میں سوجن ہتھیلی کا
کرم ہونا، سرخ ہونا اور پسینے میں شرابورہونا وغیرہ۔ ہیپاٹائٹس کی وائرس کا
شکار ہونے کی مختلف ذرائع ہیں اکثر لوگوں کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ
کیسے مرض میں مبتلا ہوئے زیادہ سوچنے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ
مرض آپ کو کیسے لاحق ہوا ضروری یہ ہے کہ آپ اس موذی مرض کا مقابلہ کریں
چھینکنے، کھانسنے، بوسہ لینے، کچن کے برتن استعمال کرنے، باتھ روم یا ٹائلٹ
استعمال کرنے یا روز مرہ زندگی کے کام سے یہ وائرس دوسرے کو منتقل نہیں ہو
سکتا عام طور پر یہ متاثرہ خون کیساتھ ملاپ سے لاحق ہو تا ہے اس مرض کے
لاحق ہونے کے عام ذرائع یہ ہیں 1آلودہ خون لگوانے سے 2جراثیم سے آلودہ سرنج
یا سوئی سے۔3جراثیم سے آلودہ دانتوں کے علاج کے اوزار سے 4جلد پر آلودہ
آلات سے نشانات یا تصویر بنوانے یا آلودہ سوئی سے کان چھدوانے سے 5 جنسی
تعلقات (جو خون کے جاری ہونے کا سبب بنے)۔ 6ایام ماہواری، میں جنسی ملاپ،
7متاثرہ شخص کا استرا، ریزر، یا ٹوتھ برش،وغیرہ استعمال کرنے سے اور8بہت کم
لوگوں میں ماں سے بچے میں منتقلی بھی ممکن ہے اگر صحیح اور بروقت علاج کیا
جائے تو ہیپاٹائٹس سی سے یقینی صحت یابی حاصل ہو سکتی ہے لہذا ضروری ہے کہ
تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اگہ یہ بیماری ہو جائے تو اس بیماری
کے خلاف فوری طور پر علاج شروع کریں تاکہ کینسر اور سروسس سے بچا جاسکے
ورنہ جگر کی منتقلی کروانی پڑتی ہے ہیپاٹائٹس سی سے صحت یابی پانے کی بہت
ساری موثر دوائیں مثلاInterferon، (Pegasys)، Ribaverineوغیرہ دستیاب ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ اب مریض اس مرض سے چھٹکاراپا کر مکمل طور پر صحت مند ہو
سکتے ہیں بلکہ اس بیماری کے ماہر ڈاکٹر علاج کروائیں خوراک میں کسی خاص
پرہیز کی ضرورت نہیں کچھ لوگوں میں جسم کی قوت مدافعت ہی خود بخود اس
بیماری کو ختم کر دیتی ہے Interferon، پروٹین ہے جو جسم میں پیدا ہوتی ہے
اور وائرس سے لاحق ہونیوالی بیماریوں سے مقابلہ کرنے میں ممدو معاون ہوتی
ہے چونکہ انسانی جسم اتنی مقدار میں اسے پیدا نہیں کر سکتا اس لئے دوا کی
صورت میں Interferonلینا بہت ضروری ہے ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیکس کروالیں
اور ہیپاٹائٹس کے حفاظتی ٹیکے خود کو اور اپنی فیملی کو ضرور لگوائیں زندگی
میں محتاط رویے اپنائیں ۔ مفاد عامہ کے لئے حکومتی اور عوامی سطع پر
ہیپاٹیٹس سے آگاہی کے لئے بندہ ناچیز نے اپنی طرف سے دریا کو کوزے میں بند
کرنے کی کوشش کی ہے ۔
بیماری کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ گندا پانی،بازار کا مضر صحت کھانا،استعمال
شدہ طبی آلات کا استعمال، متاثرہ انتقال خون سے اور متاثرہ شخص کی رطوبت
کسی صحت مند انسان میں منتقل ہوجائے، یہ ہیپاٹائٹس پھیلنے کا سبب ہے۔
اگر سب سے پہلے بات کی جائے سوزش جگر کی پہلی قسم کی تو ہیپاٹائٹس اے صحت
صفائی کے اصولوں کا خیال نا رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر رفع حاجت کے بعد
ہاتھ نا دھوئے جائیں اور صابن کا استعمال نا کیا جائے تو جراثیم آسانی سے
ہاتھ کے ذریعے سے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔اس کی ابتدائی علامات میں
بخار،قے،پیٹ درد اور یرقان کا ہونا شامل ہے۔طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور
بھوک ختم ہوجاتی ہے۔مریض کا فضلہ بھی اس مرض کو پھیلانے میں اہم کردار ادا
کرتا ہے۔اس بیماری سے بچنے کے لیے ضروری ہے علامات ظاہر ہونے پر فوری طور
پر معالج سے رجوع کیا جائے۔بازار کے کھانے سے اجتناب کیا جائے۔منرل واٹر
پیا جائے اگر وہ خرید سے باہر ہو تو ابالا ہوا پانی مریض کو دیا جائے۔کھانا
کھانے سے پہلے ہاتھ اچھی طرح دھوئے جائیں اور پھل سبزیوں کو بھی دھو کر
استعمال کیا جائے۔بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے سے اس بیماری کی تشخص کی جاتی ہے۔معالج
کی تجویز کردہ ادویات سے اس کو کنٹرول کیا جاتاہے۔یہ مرض چند دن بعد چلا
جاتا ہے اس دوران پانی زیادہ پیا جائے،جوس لیے جائیں تاکہ پانی کی کمی جسم
میں نا ہو۔اس کے لیے ویکسین بھی دستاب ہے جس کے باعث اس بیماری سے محفوظ
رہا جا سکتا ہے۔
ہیپاٹایٹس بی وہ قسم ہے جس کی وجہ سے سالانہ دس لاکھ افراد موت کے منہ میں
چلے جاتے ہیں۔یہ متعدی مرض ہے اور پاکستان میں جگر کے سرطان ہونے کی سب سے
بڑی وجہ ہیپاٹایٹس بی ہے۔ہیپاٹایٹس بی کے پھیلنے کی بڑی وجہ استعمال شدہ
سرنج کا استعمال کرنا، جراثیم آلود طبی آلات کا استعمال،متاثرہ شخص کے ساتھ
جنسی ملاپ،متاثرہ خون سے،متاثرہ حاملہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے،پارلرز
اور باربرز کے جراثیم آلود اوزاروں سے،جراثیم سے پاک نا کیے جانے والے آلات
سے ناک کان چھیدوانے اور ٹیٹوز بنوانے سے،دانتوں کے علاج میں جراثیم سے پاک
آلات جراحی نا استعمال کرنے سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس بیماری کا شکار
ہوجاتے ہیں۔اس بیماری کی علامات دیر سے ظاہر ہوتی ہیں جو ہوتی ہیں ان میں
فلو کا ہونا،تھکاوٹ،ہلکا بخار،سردرد،معدے میں درد،پیٹ میں درد،جوڑوں میں
درد،بھوک کا نا لگنا،پیشاب کی رنگت کا تبدیل ہوجانا،آنکھوں کا رنگ پیلا
ہوجانا شامل ہے۔ان علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ایک بلڈ
ٹیسٹ سے اس مرض کی تشخص ہوجاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لیور کی بایوپسی بھی کی
جاتی ہے تاکہ یہ بھی تشخص کی جا سکے کہ بیماری نے جگر کو کس حد تک متاثر
کیا ہے۔اس سے بچاؤ کےہپاٹائیٹس سے بچاؤ کے لئے حفظان صحت کے اصولوں پر
عملدرآمد کرنا ہوگا ۔ مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ’’ دین
فطرت ‘‘ اسلام نے صفائی کو ’[ نصف ایمان ‘‘ کہا ۔۔۔ اس سے اﷲ پاک کا بندوں
سے پیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں سنا ہوگا آپ نے اﷲ اپنے بندوں سے ستر ماؤں
سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔ اگر کالا یرقان ( خاموش قاتل ) ہپاٹایٹس جیسی آفات
سے بچنا ہے تو پھر دین اسلام کی طرح صفائی اور شریک حیات تک تعلقات رکھنے
ہوں گئے ۔ |