ابن کلیم احسن نظامی سے میرا علمی ، ادبی ، فنی اور
دوستانہ تعلق نوے کی دہائی سے قبل شروع ہوا۔ جو بتدریج ترقی کے زینے طے
کرتا گیا۔اس وقت وہ میری قائم کردہ عالمی اسلامی تنظیم بزم شورٰی کے پہلے
اجلاس میں اسلام آباد تشریف لائے اور حاضرین کی متفقہ رائے سے علاقہ ملتان
کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ۔ تب اس تنظیم کا نام ـکشف القلوب تھا جو
بعد میں احباب اور ممبران کے مشورے سے نام تبدیل کرکے بزم شورٰی کیا گیا۔
عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب سید ضمیر جعفری مرحوم بھی اس کے مشاورتی بورڈ
کے ممبر تھے۔ ابن کلیم سے میرا یہ تعلق اس قدر بڑھا کہ رشتہ داری میں تبدیل
ہوگیا یہاں تک کہ شادی بیاہ اور غمی خوشی میں بھی فیملی تعلقات قائم ہوگئے۔
لکھنے پڑھنے اور کالم نگاری کا شغف مجھے بھی شروع سے ہی یعنی 1975 ء سے
کالج کے زمانے سے تھا۔ اس کے علاوہ مختلف تقریبات اور کتابوں پر نقد و
تبصرے لکھنے کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔ ابن کلیم نے اپنے نو تخلیق
کردہ خط رعنا پر 1993 ء میں مرقع رعنائی کے نام سے کتاب شائع کی ۔ جس میں
عالمی مشاہیر، دانشوروں، اساتذہ کرام اور خطاط نے دل کھول کر داد دی اور ان
کے کام کو سراہا۔ انہوں نے مجھے بھی شرف عنایت فرمایا کہ میں ان کے نئے رسم
الخط پر اپنی رائے پیش کروں۔ جسے انہوں نے اپنی ضخیم اور بلند پایہ کتاب
مرقع رعنائی میں اپنے نئے رسم الخط خط رعنا میں ہی کتابت کرکے شائع
فرمایا۔اور پریس سے تیار ہوکر نمونے کے طور پر آنے والا پہلا مجلد نسخہ
مورخہ 27 جولائی 1993 ء کو مجھے اپنے خوبصورت نوٹ کے ساتھ ہدیہ فرمایا۔
مرقع رعنائی میں ان کے رسم الخط پر میرا تبصرہ کچھ یوں تھا "جب اﷲ تعالیٰ
کو اپنے علم کے خزانوں سے دنیا پر کچھ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس کے
لئے خاص استعداد اور قابلیت کا حامل بندہ زمین پر پیدا فرماتاہے اور اسے
اپنی کسی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے شرف نیابت عطا کرتاہے۔ اسی طرح حریم
ذات کا ارادہ ہوا کہ وہ عالم ہستی کو ایک نئے رسم الخط سے سعادت مند کرے ۔
تب وہ ابن کلیم صاحب کے ذریعہ خط رعنا ظہور میں لایا ۔ تخلیق انسان حقیقت
میں تخلیق حق ہے انسان چونکہ اس وقت مادے کا اسیر ہے اس لئے ہر چیز کو
ظاہری پیمانے سے ماپتا اور مادی زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے حالانکہ بعض چیزوں
کی حقیقت روحانی اور لافانی ہوتی ہے جن کا تعلق معرفت حق کے ساتھ ہوتا ہے
خط رعنا کی قدرومنزلت بھی تمام انسانوں کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے
کیونکہ یہ ایک آفاقی دولت ہے" ۔
ابن کلیم نے اپنی زندگی میں دو درجن سے زائد کتب لکھیں۔ ان کی خطاطی کے فن
پاروں کی نمائشیں نہ صر ف پاکستا ن کے تمام بڑے شہروں بلکہ دنیا بھر میں
سعودی عرب، ایران، انڈیا، سویڈن کے علاوہ کئی ملکوں میں منعقد ہوئیں اور
خوب داد تحسین وصول پائی۔ آپ نے قرآنی اور اسلامی خطاطی کو ہی موضوع اظہار
بنایا۔ آپ دنیا بھر میں ہفت قلم خطاط کے نام سے معروف ہوئے۔ آپ نے خط
نستعلیق ، دیوانی، رقعہ ، کوفی، ریحان ، نسخ اور ثلث میں خوبصورت، بلند
پایہ اور منفرد خطاطی کی اور ساتواں رسم الخط خط رعنا کے نام سے ایجاد کیا۔
یوں تو ابن کلیم کی شخصیت کے علمی، ادبی، تخلیقی اور روحانی کئی پہلو ہیں
لیکن ان کی زندگی کا ایک عظیم الشان اور روشن پہلو خط رعنا کی تخلیق ہے۔
خطاطی کے میدان میں اس وقت دنیا بھر میں آپ کے شاگردوں کی کثیر تعدادموجود
ہے۔ خط رعنا کے پس منظر اور پیش منظرمحاسن پر ان کی دوسری کتاب محاسن خط
رعنا 2007 ء میں شائع ہوئی جس کی اشاعت سے قبل انہوں ایک مرتبہ پھر مجھے
حکم فرمایا کہ اس پر کچھ لکھوں۔ یہ میرے لئے سعادت کی بات تھی کہ انہوں
مجھے اس قابل سمجھا۔ لہٰذا میں نے اس کی خوبصورتی اور اہمیت پر چند فقرے
لکھے جن سے خط رعنا کی رعنائی اور اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
میرے تبصرے کا عنوان تھا " محاسن خط رعنا پر خیال نگاری۔ لفظ تو بڑے بے باک
ہوتے ہیں جو نہاں خانہء معارف قدرت سے تخلیق کار کے ذہن پر عود کر آتے ہیں۔
لیکن تخلیق کار کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ حرف و لفظ کی شکل و صورت کو ایسے
انداز میں ڈھالتا ہے کہ ان کی ہئیت کہن غائب ہوکر عکس جدید میں ڈھل جاتی
ہے۔ بعض اوقات یہ جدت پیش آمدہ کئی نسلوں کو اپنی کافرانہ اداؤں اور حسن
دلفریب کا اسیر رکھتی ہے اورکئی زمانے مختلف زاویوں سے انگڑائیاں لیتے ہوئے
ان خوبصورت لفظوں کے سحر میں کھوئے رہتے ہیں۔ عصر حاضر کو اﷲ تعالیٰ نے ابن
کلیم احسن نظامی کی صورت میں ایسا مجدد خطاطی عطاء کیا ہے جس نے اردو، عربی
اور فارسی رسم الخط کو حقیقی اور ترقی یافتہ اسلوب تحریر دے کر لوح کون و
مکاں پر رعنائیاں بکھیر دی ہیں۔ اس جادو اثر جلو گری نے درون بحر انسانی
ابھی سے طلاطم بپا کر دیا ہے اور نہ جانے اس منفرد نقش نگاری و زیبائی کے
آئندہ کیا راز ہائے پنہاں اپنے عوارض روشن کے گوہر نایاب منکشف کرنے کو ہیں
جو در قلب انسانی پر محبت، امن اور دوستی کی دستک دیں گے۔ یہ رعنائیاں ، یہ
لفظوں کا پانکپن یہ محاسن خط رعنازمانہء قریب میں ضرور طشت ازبام ہوں گے
اور انقلاب نگار زیست کا حصہ بنیں گے۔ اﷲ کرے حسن حرمت حرف اور زیادہ"۔
خط رعنا کے جمالیاتی اور فنی پہلوؤں کے پیش نظر اس سے عقیدت و محبت کا اظہا
ر ایک لازمی امر ہے۔ مستقبل میں اس بات کی بھرپور توقع کی جاسکتی ہے کہ
پاکستان میں فروغٖ اردو کے ادارے اور ماہرین ابن کلیم کے تخلیق کردہ رسم
الخط خط رعنا کی فنی ، تکنیکی، ادبی اور جمالیاتی اہمیت کے پیش نظر اسے
کمپیوٹر پروگرامنگ میں اردو ، عربی کے دیگر اسٹائلز کے ساتھ ٹائیپنگ کے کی
بورڈ میں شامل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔
گوابن کلیم مرحوم آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں
جو علمی و فنی سرمایہ آئندہ آنے والی نسلوں کو منتقل کیا ہے اس کی وجہ سے
ان کی شخصیت ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی۔ |