علم انسان اور اس کے اردگرد فطری و معاشرتی حالات کے
درمیاں ادراکی تعلق کا نام ہے، لفظ انسانی زات میں شعور ، اور احساس کی
آواز ہے، اور قلم اس صداقت کی تخلیق کا موجب۔
زبان حرکت کرے یا قلم الفاظ تو جنم لیتے ہیں۔ بے معنی الفاظ بامعنی جملوں
میں بدلتے جاتے ہیں۔ ان میں جان پڑتی جاتی ہے ۔ اور پھریہ الفاظ اپنا مدعا
خود بیان کرنے لگتے ہیں۔
تحریر کے آغاز سے جب انسان نے لاشعور سے نکل کر شعور کی دنیا میں قدم رکھا
اور قلم کی نوک سے لوگوں کے مضطرب ذہنوں میں حروف کو انڈیلنا شروع کیا تو
دانش خرد کی ایسی راہیں متعین ہونا شروع ہوئیں کہ فہم و فراست کے انمول
موتی ہر سو بکھرتے دکھائی دیئے. تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات
روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قلم نے ہر دور میں انسان کی نہ صرف رہنمائی
فرمائی بلکہ ایک حقیقی انسان دوست ہونے کا کردار بھی ادا کیا ہے. یہی وجہ
ہے کہ دنیا کے ہر باشعور انسان نے اپنے مقصد اور منزل کو پانے کے لیے قلم
سے ہی رہنمائی حاصل کی. منتشر ذہنوں میں یکسوئی قائم کرنے کی بات ہو یا دلِ
فریفتہ میں محبت کی شمع روشن کرنے کی غرض ہو انسان نے ہمیشہ سے اپنی
رہنمائی کا ذریعہ اور کامیابی کا ذینہ قلم ہی کو سمجھا ہے. آج کے جدید ترین
دور میں سوشل میڈیا سے لیکر ہر طرح کے ذرائع ابلاغ قلم کے سہارے اپنے وجود
کو قائم رکھے ہوئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ آج سوشل ویب سائٹس پر جس قدر لکھا
جارہا ہے پڑھا جارہا ہے معاشرے میں علم و آگہی کی کونپلیں اسی رفتار سے
پھیلتی دکھائی دیتی ہیں قاری اور لکھاری کے درمیان فاصلے سمٹتے جارہے ہیں
جبکہ قاری اور لکھاری کے درمیان باہمی تعلقات پر مبنی ایک قسم کا رشتہ قائم
ہونے لگا ہے جوکہ مکالمے کے فروغ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے.
یوں تو قلم محض ایک تین حرفی لفظ ہے لیکن اس میں بے پناہ طاقت پوشیدہ ہے۔
دنیا نے جتنی ترقی کی ہے وہ سب قلم کی مرہون منت ہے۔ اگر قلم کا تصور نہ
ہوتا تو دنیا تمام علوم سے بے بہرہ رہتی۔ قلم کی سیاہی لفظوں کو روشنی
بخشتی اور ایک بے معنی کورے کاغذ کو اہم ترین دستاویز بنا دیتی ہے۔
یہی الفاظ جب کسی شاعر کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو نظمیں اور غزلیں وجود
پاتی ہیں ۔ جب ادیب کی قلم سے ادا ہوتے ہیں تو افسانے ، ناول اور کتابیں بن
جاتے ہیں ۔جب موسیقی کی صورت ادا ہوتے ہیں تو انسان کو جھومنے پر مجبور
کرتے ہیں اور روح کی غذا کہلاتے ہیں۔ جب عالم دین کی زبان سے ادا ہوتے ہیں
تو دین کی بھلائی ، لوگوں کو سیدھی راہ پر لانے کا سبب بنتے ہیں ۔ عالم کے
الفاظ روشنی کی مانند مشعل راہ ہوتے ہیں ۔اور اس روشنی میں عوام اپنی زندگی
گزارنے کے اصول متعین کرتے ہیں ۔اس طرح عالم دین پر ذمہ داری بھی زیادہ
عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام قوم کو راہ دکھا بھی سکتا ہے اور راہ سے بھٹکا
بھی سکتا ہے ۔ عموما عوام علما ء کی بات پر تحقیق نہیں کرتے بلکہ صرف تقلید
کرتے ہیں ۔ الفاظ کی اہمیت ان ادا کرنے والے سے منسلک ہے ۔ ۔جب کوئی عام
شخص کچھ کہتا ہے تواس کے اثرات اسی کے حلقہ احباب تک محدود رہتا ہے جبکہ
کسی بھی ملک کے سربراہ کا ادا کردہ ایک جملہ بھی ملک کی تقدیر کے فیصلے کر
دیتا ہے۔الفاظ کے مرتب ہونے والے اثرات کا تعلق بولنے والے کے مقام پر ہے
۔۔گویا جس قدر جس کا مقام و مرتبہ جتنا اہم ہو گا اسی قدر اس کے الفاظ کی
اہمیت اور ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے ۔ ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ الفاظ اﷲ
کے قریب لے کر گئے تو انسان کو مومن بنا دیا۔ اور اﷲ سے دور لے کر گئے تو
فرعون و نمرود بنا دیا۔
اگر ان کا استعمال درست انداز میں کیا جائے تو یہ عزت و توقیر میں اضافہ کا
سبب بنتے ہیں ، سخت اور تلخ ہوں تو غرور کا شائبہ دیتے ہیں ۔ گالی کی صورت
میں ادا ہوں تو گناہ کہلاتے ہیں اور اگر تیمارداری کی صورت ادا ہوں تو نیکی
بن جاتے ہیں ۔نرم گوئی سے کہے گئے الفاظ آپ کو کسی کے دل میں اعلیٰ مقام دے
سکتے ہیں جبکہ ترش گوئی آپ کو اپنے مقام سے کہیں نیچے گرا سکتی ہے ۔ یہ
الفاظ ہی ہیں ہر رشتے کو ایک ان دیکھی زنجیر میں باندھے رکھتے ہیں،رشتوں
کومضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں اور یہی الفاظ دو انسانوں اور بسا اوقات
تہذیبوں کے درمیان دوری کی ایک خلیج بنا دیتے ہیں۔بظاہر الفاظ کی ادائیگی
کا انداز ان کی اہمیت کی ذمہ دار ہوتا ہے ۔جس انداز میں ادا کیا جائے گا
اسی انداز میں محسوس کیا جائے گا ۔گویا یہ لفظ بظاہر اپنی کوئی زبان نہیں
رکھتے ۔ انداز بیاں کے محتاج یہ الفاظ جب صفحہ قرطاس پر بکھرتے ہیں تو ان
گنت کہانیوں کو جنم دیتے ہیں ، تاریخ کہلاتے ہیں یا ادب کے عظیم شاہکار۔۔
کہیں پر چند الفاظ صدیوں کے فاصلے مٹا دیتے ہیں اور کہیں کچھ الفاظ فاصلے
اتنے بڑھا دیتے ہیں کہ عمر سفر میں گزر جاتی ہے اور فاصلے طے نہیں ہو پاتے۔
سائنس نے ثابت کیا ہے کہ آواز کی لہریں ہوا ، پانی ، اور تقریبا تمام اجسام
سے با آسانی گزر سکتی ہیں ۔ گو آواز کی یہ لہریں روشنی کی نسبت آہستہ سفر
کرتی ہیں لیکن یہ لہریں کانوں سے ہوتی ہوئی دل میں اتر جاتی ہیں اور ہمیشہ
دلوں پر اپنا عکس چھوڑ جاتی ہیں۔ گویا ا لفاظ ضائع نہیں ہوتے بلکہ یہ لہروں
کی صورت کائنات میں محفوظ کر لیے جاتے ہیں گویا ہمارے الفاظ ہماری گواہی کے
طور پر سنبھال لیے جاتے ہیں ۔اور یہ الفاظ ہمارے اعمال بن جاتے ہیں۔بلکہ
یوں کہیے ہم اپنے ہی الفاظ کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اور ان کے لیئے ہمیں
جوابدہ بھی ہونا ہے ۔ حدیث نبوی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے
دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ الفاظ کا استعمال اچھے طریقے
سے کریں۔
انسانی تصوراتی دنیا میں لفظ اور قلم کا معجزہ ہی ہے، یہ انسانی نظریاتی و
فکری دنیا میں ارتقاو ترقی کا باعث ہے۔
شعور زات سے نمود روح تک
لفظ کی کرامات ہے۔ قلم کے معجز ے ہے
شفیق سائل
|