الیکشن 2013ء کے انعقاد میں اب صرف چند روز رہ گئے ہیں جب
کہ سیاسی نیلام گھر سجنے میں چند ہفتے۔کیوں کہ اس مرتبہ شفّاف انتخابات کے
راگ زیادہ بجائے گئے ہیں اس لیے انتخابی نتائج کی شفّافیت سے متعلق سیاسی
رہنماؤں سمیت ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘، لیکن ہماری یہ اُمید اس وقت ناامیدی
میں بدلنے لگتی ہے جب ہم ’’ہچ ہائیکنگ‘‘ اور ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت قائم
ہونے والی نگراں حکومت کے اکابرین اور الیکشن کمیشن کے حکام و اراکین کی
بائیوگرافی کا مطالعہ کرتے ہیں تو الیکشن کی ’’شفّافیت‘‘ مشکوک نظرآتی ہے
جس کے بعد ہمیں انجیوگرافی کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے کیوں کہ قوم سے
براہ راست یا بالواسطہ طور سے وصول کیے جانے والے ٹیکسوں میں سے اربوں روپے
کی خطیر رقوم صرف انتخابی اخراجات جیسے غیر پیداواری مصارف کی مَد میں خرچ
ہورہی ہے اور خدشہ ہے کہ درجنوں انسانی جانوں کی ہلاکت اورکثیر رقوم کے
زیاںکے بعد بھی انتخابی نتائج بے مقصد رہیں گے اور ان سے کوئی واضح تبدیلی
رونما نہیں ہوسکے گی بلکہ انتخابات2008ء میں منتخب ہونے والے چہرے صرف
ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنے کے
لیے ایوانوں میں براجمان ہوںگے اور وہاں صرف جمہوریت کے استحکام، صدراور
وزیراعظم کو ماورائے عدالت و قانون لامحدود اختیارات دلوانے، وزراء اور
اراکین پارلیمنٹ کے لیے مالی فوائد و پرکشش مراعات کے بل منظور ہوںگے۔
سیاسی دانشوروں کا مقولہ ہے کہ ’’لولی لنگڑی یا بدترین جمہوریت، آمریت سے
لاکھ درجے بہتر ہوتی ہے‘‘، شاید مذکورہ قول بھی سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت
’’ جمہوری حکومتوں ‘‘ کے ’’ جمہورکش اقدامات‘‘ کے دفاع میں اختراع کیا گیا
تھا ورنہ پاکستانی عوام تو عرصہ درازسے جمہوری حکومتوں کے غیر جمہوری
اقدامات سہتے آ رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ انتخابات میںکوئی بھی سیاسی
جماعت حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت نہ لے سکے گی اور انتخابات کے نتائج
کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے لیے لوٹاکریزی اور ہارس ٹریڈنگ کے لیے لوٹے
اورگھوڑوں کا نیلام گھر سجے گا اور جس کا سوٹ کیس امریکی ڈالروںسے زیادہ
بھرا ہوگا، وہی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگا لیکن شاید اس دفعہ حکومت کی
اعلیٰ مسند پر فائز ایک مقتدر شخصیت کا حکومت سازی میں اہم کردار ہوگا اور
وہ سیاسی ہچ ہائیکنگ کے سابقہ تجربے کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ گھوڑے اور
لوٹے اپنی ’’ بلٹ ٹرین‘‘ میں بھرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جمہوریت کے
استحکام کی آڑ میں اُن کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ ہچ ہائیکنگ سے شاید ان کا،
وزیراعظم کا اور تقریباً2000نفوس پر مشتمل سیاسی اشرافیہ اوراس کے اہل خانہ
کا مستقبل تو محفوظ ہوجائے گا لیکن جمہورکا مستقبل مخدوش ہی رہے گا جبکہ
عوام کی زندگی کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری شاید کوئی بھی پوری نہ کرسکے
اورانتخابات 2013ء کے نتائج کے بعد بھی المیہ گیت اور نوحے ان کا مقدر بنے
رہیں۔
امریکا اور یورپ میں انگوٹھے کے اشارے سے لفٹ لے کر دوسروں کی گاڑیوں میں
سفر کرنے والوں کے لیے ہچ ہائیکنگ (Hitch Hiking)کی اصطلاح معروف ہے لیکن
ہمارے ملک میں سیاسی وفاداریاں بدل کر برسراقتدار لوگوں کے شریک اقتدار
بننے کے لیے ’’سیاسی ہچ ہائیکنگ‘‘ کا طریقہ رائج ہے۔کیوں کہ ہمارے ملک میں
’’سانحاتی سیاست‘‘ کا رواج ہے اس لیے اکثرموروثی سیاستدانوںکی طرح حادثاتی
سیاستدان بھی وجود میں آجاتے ہیںجو نقب لگاکر اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے
کی راہیں تلاش کرتے ہیں جیسے موجودہ مقتدر شخصیت سانحاتی سیاست سے استفادہ
کرکے حادثاتی سیاستداں بنی اور اس کے بعد نہ صرف حکومت بلکہ مملکت ہائی جیک
کرلی۔ بسا اوقات سیاسی ہچ ہائیکنگ، ریاست کی ہائی جیکنگ میں تبدیل ہوجاتی
ہے۔
دوسروں کی گاڑیوں پر لفٹ لے کر سفر کرنے کا سلسلہ پہلی عالمی جنگ کے دوران
1914ء میں فرانس میں مقیم برطانوی فوجیوں نے شروع کیا تھا لیکن اس وقت تک
ہچ ہائیکنگ کا لفظ برطانیہ میں غیر معروف تھا۔ ایرک پارٹرج کی ڈکشنری سلینگ
(Slang)کے مطابق ہچ ہائیکنگ کا لفظ امریکا سے ہجرت کرکے آیا تھاجو1933ء
میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں شامل ہوگیا ورنہ اس سے قبل لفٹ لے کر
سفرکرنے کیلیے ’’لاری ہوپنگ‘‘ یا ’’لاری جمپنگ‘‘ کا لفظ مستعمل تھا۔1933ء
کے بعد برطانیہ میں ہچ ہائیکنگ کی اصطلاح عام ہوگئی۔ 28 اکتوبر1940ء کو
دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے ایندھن کی بچت کے لیے قانون سازی
کرکے تمام گاڑی مالکان کو ہدایت کی کہ وہ خود کو ہچ ہائیکنگ اسکیم میں
رجسٹرڈ کرائیں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو مفت سفری سہولتیں بہم پہنچائیں۔
اُس دور میںہچ ہائیکنگ کے موضوعپر ہالی ووڈ میں دو فلمیں بنیں لیکن 1934ء
میں اسی موضوع پر بننے والی فلم ’’اٹ ہیپنڈ ون نائٹ‘‘ زیادہ مقبول ہوئی جس
کے بعد یورپ میں انگوٹھے کے اشارے سے لفٹ لے کر سفرکرنے کا طریقہ عام
ہوگیا، اس سے ایک جانب سیاحوں کو سفرکی مفت سہولت میسر آگئی تو دوسری جانب
گاڑی مالکان کو تنہا سفرکرکے ذہنی بوریت سے نجات مل گئی۔ اس طریقہ سفر سے
یورپ کے باشندے نہ صرف کثیر رقوم کے سفری اخراجات کی بچت کرکے ایک شہر سے
دوسرے شہر بلکہ یورپی یونین کی تشکیل کے بعد ایک ملک سے دوسرے ملک تک کے
سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران یورپ میں لاری جمپنگ یا ہچ ہائیکنگ کی اسکیم،
دوران جنگ ٹرانسپورٹ کی کمی اور پیٹرول کی بچت کے لیے متعارف کرائی گئی تھی
لیکن پاکستان میں سیاسی ہچ ہائیکنگ کے ذریعے اقتدارکی گاڑی پر سفرکرنے کی
روایت شہید ملت لیاقت علی خان نے ملک غلام محمد کو نوزائیدہ مملکت کا
وزیرخزانہ بنا کرڈالی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 20؍اپریل 1895ء کو
موچی گیٹ لاہور میں مقیم پشتون قبیلے ککے زئی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا
ہونے والے ملک غلام محمد ہچ ہائیکنگ کے ذریعے وزارت خزانہ حاصل کرکے چند
سال میں مملکت کی سربراہی ہائی جیک کرلیں گے۔گریجویشن کے بعد اپنے کیرئیر
کا آغاز ایک آٹو موبائل انڈسٹری میں اکاؤنٹنٹ اورانڈین ریلوے میں
آڈیٹرکی حیثیت سے کرنے والے غلام محمد نے دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی
حکومت کی طرف سے بلائی جانے والی گول میزکانفرنس میں نواب بہاولپور کی
نمائندگی کی۔ اس کانفرنس میں نوابزادہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے جہاں سے
ملک غلام محمد کی ان سے قربت بڑھی۔ 1946ء میں لیاقت علی خان جب غیر منقسم
ہندوستان کی پہلی حکومت کے وزیرخزانہ مقررہوئے تو انہوں نے غلام محمدکا
اپنے نائب کی حیثیت سے تقررکیاجنہوں نے ہندوستان کے پہلے بجٹ کی تیاری میں
لیاقت علی خان کی معاونت کی جو غریب عوام کا بجٹ کہلایا۔
قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے وزیراعظم بن کر ملک غلام محمدکو اپنی
کابینہ میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے شامل کیاجنہوں نے اپنی وزارت کے دور میں
پاکستان کو امریکی کیمپ میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد
پاکستانی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ شروع ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ
مُلک میں سوویت طرزکا معاشی نظام لانے کی جستجو بھی کرتے رہے جس کی وجہ سے
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلاہو گئے جس کا نتیجہ فالج کے حملے کی صورت میں
برآمد ہوا اور وہ جسمانی طورسے مفلوج ہوگئے۔ 16؍اکتوبر1951ء کو لیاقت علی
خان کو شہیدکردیا گیا اور ملک کے دوسرے گورنرجنرل خواجہ ناظم الدین نے
امریکہ اور ملک کی مقتدر قوتوں کے دباؤ پر ملک غلام محمد کو اپنی جگہ ملک
کے تیسرے گورنر جنرل کی حیثیت سے نامزدکیا جبکہ خود انہوں نے ملک کے تیسرے
وزیراعظم کی حیثیت سے عنان حکومت سنبھالی لیکن جسمانی طور سے معذورگورنر
جنرل نے اپریل 1953ء میں خواجہ ناظم الدین پر مشرقی پاکستان میں کمیونزم کے
خلاف تحریک کی سرپرستی کا الزام عائد کرکے انہیں معزول کردیا اور ان کی جگہ
امریکا میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کا ملک کے چوتھے وزیر اعظم کی
حیثیت سے تقررکردیا۔ انہوں نے 24 اکتوبر 1954ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ
کرکے کابینہ برطرف کردی، قانون ساز اسمبلی توڑدی اور محمد علی بوگرہ کی
سربراہی میں اپنی مرضی کی کابینہ تشکیل دیتے ہوئے جنرل محمد ایوب خان
کوکمانڈرانچیف کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع اور میجرجنرل اسکندرمرزا کو وزیر
داخلہ مقررکیا، لیکن ٹرائیکاکے ایک اجلاس میں جو اسکندر مرزا، ایوب خان
اورچوہدری محمد علی پر مشتمل تھا، غلام محمد کوگورنر جنرل کے عہدے سے دست
بردارکرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگست 1955ء میں اسکندرمرزا نے غلام محمد سے
جبری استعفٰی لے کر پاکستان کے چوتھے گورنرجنرل کا عہدہ سنبھالا اور دو روز
بعد چوہدری محمدعلی سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا گیا۔
23 مارچ 1956ء کو ملک میں پہلے آئین کا نفاذ ہواجس کی رو سے اسکندرمرزا نے
ملک کے پہلے صدر اورچوہدری محمد علی نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ ستمبر
1956ء میں چوہدری محمد علی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جس کے بعد ملک میں
سیاسی ہچ ہائیکنگ کے ذریعے نئے سیاسی سفرکا آغاز ہوا۔ اسکندر مرزا نے
گورنر مغربی پاکستان نواب مشتاق گورمانی کے ساتھ مل کر ری پبلیکن پارٹی
بنائی جس کے قیام کا مقصد ملکی سیاست میں اپنی پسندکی تبدیلی لانا تھا۔
سیاسی ہچ ہائیکنگ کو بروئے کار لا کرستمبر 1956ء سے 16؍دسمبر 1957تک حسین
شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، ملک فیروزخان نون کو وزیر اعظم کی حیثیت
سے حکومت میں شامل کیا گیا جبکہ27 اکتوبر 1958کو ایک دن کے لیے ایوب خان کو
بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائزکیا گیا لیکن اگلے روز ہی فیلڈ مارشل جنرل
محمد ایوب خان نے اسکندرمرزاکو معزول کردیا اور ملکی تاریخ کا پہلا مارشل
لاء نافذ کرکے مملکت کا سارا نظام ہائی جیک کرلیا گیا۔ دو سال بعد انہوں نے
بنیادی جمہوریت کے ذریعے صدارتی طرزحکومت رائج کیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے
مطابق اقتدار پر جبری قبضہ کرنے والے اور اسمبلی میں معمولی اکثریت کی حامل
حکومتیں ہچ ہائیکنگ کا ہی سہارا لیتی ہیں۔ جنرل ایوب خان نے اپنے حکومتی
نظام کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے کئی سیاسی رہنماؤں کو ہچ ہائیکنگ
کے اصول کے تحت اپنی حکومت میں شامل کیاجنہوں نے 1964ء کے عام انتخابات میں
بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچارکرانے میں انہیں
معاونت فراہم کی۔ انہی میں سے ایک شخصیت نے سیاست میں آکر 1968ء میںایوب
حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں 1969ء میںایوب خان کو
مارشل لاء نافذ کرکے ملک کی باگ ڈورجنرل یحیی خان کے سپردکرنا پڑی۔ 1970ء
میں ملکی تاریخ کے شفاف انتخابات ہوئے لیکن جنرل یحیی خان جو اپنے حکومتی
سفرسے طویل عرصے تک لطف اندوز ہونے کا پروگرام رکھتے تھے، ان کی حکومتی
گاڑی میں کئی سیاسی رہنما سوار ہوگئے اور انہی کی ہوس ملک گیری کی وجہ سے
عوام شفاف انتخابات کے ثمرات سے محروم رہے جبکہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے
سانحے کی صورت میں انہیں تاریخ کا بدترین دن دیکھنا پڑا۔
سقوط پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کھچے پاکستان کو نئے پاکستان
کا نام دے کر پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرکا عہدہ
سنبھالا لیکن کیوں کہ ان کی جماعت 1970ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے
جیتی تھی اس لیے اس میں ہچ ہائیکر ٹائپ کے سیاستدانوںکی کوئی گنجائش نہیں
بنی ۔1977ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتائج متنازع رہے جس سے
فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء الحق نے ہچ ہائیکر ٹائپ سیاستدانوں کی مدد سے
حکومت کی گاڑی پٹڑی سے اتارکر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اپنی
جس کے نتائج متنازع رہے جس سے فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء الحق نے ہچ ہائیکر
ٹائپ سیاستدانوں کی مدد سے حکومت کی گاڑی پٹڑی سے اتارکر اقتدار پر قبضہ
کرلیا اور اپنی حکومت کے دوام اور استحکام کے لیے مذکورہ سیاستدانوں کی
کھیپ کو شریک اقتدار کرکے کبھی شورائی نظام نافذ کیا اورکبھی غیرجماعتی
حکومت کا تجربہ کرکے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ غرض ہچ
ہائیکنگ کے ذریعے سفر سے جنرل ضیاء الحق اور ہچ ہائیکر سیاستداں، دونوں ہی
گیارہ سال تک مستفید ہوتے رہے ۔ ان کی حادثاتی موت کے بعد 12اگست1988ء کو
سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان کا صدارتی دورشروع ہوا جنہوں نے انتخابات
کراکے حکومت کی سربراہی بے نظیر بھٹو کے سپردکی لیکن تنہا اڑان کے عادی
سیاسی ہچ ہائیکرز نے غلام اسحاق خان کے پاس موجود 58-2-Bکے ہتھوڑے سے
6؍اگست 1990ء کو بے نظیر بھٹو اور 18جولائی1993کو نواز شریف کے پہلے دور
حکومت کی گاڑی ڈی ریل کرادی۔ 19 اکتوبر1993ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ
الیکشن جیت کر وزیراعظم بنیں جبکہ انہی کی پارٹی کے سردار فاروق احمد خان
لغاری نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا لیکن سیاسی ہچ ہائیکرز نے5نومبر 1996ء
کو فاروق لغاری کے ہاتھوں 58-2-B کے ہتھوڑے سے ہی ان کی یہ حکومت بھی ختم
کرادی۔ اس تمام عرصے میں ہچ ہائیکنگ کے مروجہ اصولوں کے تحت غلام مصطفے
جتوئی، بلخ شیر مزاری، ملک معراج خالد اور محمد میاں سومرو کو نگراں
وزیراعظم بنایا گیا جبکہ محمد علی بوگرہ کی طرح معین قریشی کو امریکا سے
پاکستان بلا کر نگراں وزیراعظم کا منصب سونپاگیا۔
میاں نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت جو17فروری 1997ء کو شروع ہوا 12؍اکتوبر
1999ء کو جنرل پرویز مشرف کی فوجی مہم جوئی کی نذر ہوگیا۔ جنرل پرویز مشرف
نے 2002ء تک کسی بھی سیاستدان کوسیاسی ہچ ہائیکنگ سے شریک اقتدارنہیں کیا
حالاں کہ کئی سیاستدان ایوان صدر کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے۔ 2002ء کے
انتخابات کے بعد میر ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا جبکہ کچھ عرصے
بعد ان پر کرپشن کے الزامات عائد کرکے انہیں برطرف کرکے شوکت عزیز کو وزارت
عظمٰی کا منصب دیا گیا۔ یہ انفرادیت صرف ہمارے ملک کو ہی حاصل ہے کہ یہاں
تین وزرائے اعظم، محمد علی بوگرہ، معین قریشی اور شوکت عزیز کو خصوصی طور
سے امریکا سے ’’درآمد‘‘کرکے وزیر اعظم جیسا اہم منصب دیا گیا۔ 2008ء میں
قائم ہونے والی حکومت جو بے نظیر بھٹوکی شہادت کے سانحے کے بعد قائم ہوئی
تھی، حادثاتی طور سے معرض وجود میں آنے والے سیاستدانوں کا مجموعہ تھی۔
مذکورہ حکومت جو مختلف خیالات و نظریات پر مشتمل جماعتوں کے اشتراک سے بنی
تھی، اس کے استحکام اور دوام کے لیے سربراہ مملکت پانچ سال تک پریشانیوں کا
شکار رہے اور ہچ ہائیکر ٹائپ کے عناصرکی سیاسی بلیک میلنگ برداشت کرنا ان
کی سیاسی مجبوری بن گئی کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ کسی ایک جماعت کی بھی
سیاسی حمایت سے محرومی پوری حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ اپنی طبعی مدت پوری کرنے والی یہ واحد جمہوری حکومت تھی جس کی سیاسی
مجبوریوں نے اس سارے دور میں عوام کو موت و زیست کی کیفیات سے دوچار کیے
رکھا۔ اب ایک مرتبہ پھر قوم سیاسی عمل سے گزرے گی، اپنے ووٹ بینک کو اس
توقع کے ساتھ استعمال کرے گی کہ شاید 2013ء میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں
اسے بھی حقیقی ریلیف مل جائے، مہنگائی کے بے قابو جن کو بوتل میں بندکردیا
جائے اور مسند اقتدار پر بیٹھی ہوئی شخصیات ہچ ہائیکنگ کی سیاست کو خیر باد
کہہ کر جمہوریت کے استحکام پر توجہ دینے کے علاوہ عوام کی زندگی کے تحفظ
اور ان کی بقاء کے لیے بھی اقدامات کریں۔ |