میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں حصہ اول

آہ شہر کراچی ایکبار جل رہا ہے۔ ویسے تو روشنیوں کا شہر دو دہائیوں سے ہی جل رہا ہے جب سے اس شہر میں لسانیت کی آف بڑھکائی گئی ہے اس وقت سے ہی یہاں بوری بند لاشیں، اندھے قتل، کٹے پھٹے لاشے اور سیاسی مخالفین کا قتل شروع ہوچکا تھا۔ لیکن گزشتہ گزشتہ چند سالوں سے دہشت گردوں نے قانون اور عدلیہ کی حکمرانی کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا،بارہ مئی ٢٠٠٤ جب ضمنی الیکشن کے موقع پر ایک دن میں جماعت اسلامی کے نو کارکنان کو قتل کردیا گیا، پھر سانحہ نشتر پارک جس دہشت گردی کی ایک ہی واردت میں جید علما کرام اور اہل سنت والجماعت کی پوری قیادت کو شہید کردیا گیا، پھر بارہ مئی ٢٠٠٧ جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر شہر کو دہشت گردوں اور قاتلوں کے حوالے کردیا گیا اور ایک ہی دن میں پچاس سے زائد افراد کو قتل کیا گیا اور المناک بات یہ ہے کہ یہ قتل میڈیا کے ذریعے پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی براہ راست دیکھے گئے، قاتلوں کی پہچان بھی ہوگئی لیکن ۔۔۔۔ اس کے باوجود بارہ مئی کے شہداء کے قاتل آزاد ہیں پھر ١٨ اکتوبر ٢٠٠٧ جب محترمہ بےنظیر بھٹو مرحومہ کی جلاوطنی کے بعد پاکستان آنے کے موقع پر کارساز پر بم دھماکہ جس میں ساٹھ سے زائد بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تین سال گزرنے کے باوجود ابھی تک قاتلوں کی ہی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے تو قاتلوں کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ہے۔ اس کے بعد ٢٧ دسمبر ٢٠٠٨ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورا ملک تخریب کاروں،اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اور شہر قائد میں لوٹ مار،اغوا،اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا اور یہ سلسلہ مسلسل تین دن تک جاری رہا۔

اس کے بعد نومبر ٢٠٠٨ سے شروع ہونے والے لسانی فسادت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ہوتا یہ ہے کہ لسانیت کی آگ بڑھکائی جاتی ہے،بیس پچیس بے گناہ انسان مارے جاتے ہیں۔ حکومت میں شامل جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں، پھر وفاقی وزیر داخلہ صاحب کراچی تشریف لاتے ہیں اور اتحادیوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کا پورا زور امن و امان قائم کرنے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے محض اس بات پر صرف ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کو راضی کیا جائے کہ وہ حکومت سے علیحدہ نہ ہو ورنہ حکومت کمزور ہوجائے گی۔ اور حکومت کے اتحادی حکومت کی اس کمزوری سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے ایک دوسرے کے کارکنوں کے قاتلوں کو جاننے کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے ان مقتولین کا خون طالبان اور کسی تیسری قوت کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ وہ قوت جسے خود وفاقی وزیر داخلہ بھی نہیں جانتے لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنےکے لئے انتہائی بے غیرتی سے یہ کام کیا جارہا ہے۔

ہفتہ سولہ اکتوبر کی شام سے شروع ہونے والا قتل غارت گری کا سلسلہ بدھ کی رات تک جاری رہا اور جمعرات کو نسبتاً سکون رہا۔ لیکن ان پانچ دنوں میں نوے سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور انہی پانچ دنوں میں شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ میں فائرنگ کا اندوہناک سانحہ بھی پیش آیا۔اگر دیکھا جائے تو قتل و غارت گری کی اس موجودہ لہر کے ذمہ دار،اے این پی،متحدہ قومی موومنٹ،پی پی پی اور میڈیا بھی ہے۔

آپ حیران ہونگے کہ میڈیا آخر کس طرح اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار ہے؟ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے۔ یہ سارا معاملہ حلقہ این اے ایک سو پچانوے میں ضمنی الیکشن کے انعقاد سے شروع ہوا۔یہ سیٹ متحدہ قومی موومنٹ کے رضا حیدر کے قتل ہونے کے بعد خالی ہوئی تھی۔اور گزشتہ انتخابات میں رضا حیدر نے یہاں سے نواسی ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دوسرے نمبر پر پی پی پی کے امیدوار تھے جن کو تقریبا بارہ ہزار ووٹ ملے تھے۔ جبکہ اے این پی کی اس حلقہ میں کوئی ویلیو نہیں تھی اور گزشتہ انتخابات میں اے این پی نے اس سیٹ سے محض ساڑھے نو سو کے قریب ووٹ حاصل کئے تھے۔ اگر میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا اور صرف گزشتہ الیکشن کے نتائج ایک بار پھر لوگوں کے سامنے رکھتا اور اس کی بنیاد پر ٹاک شوز اور تجزئے کئے جاتے تو عوام کے ساتھ ساتھ اے این پی کو پتہ چل جاتا کہ وہ کتنے پانی میں ہے اور یہاں اس کی کیا حیثیت ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ نے جعلی ووٹ بھگتائے ہونگے، فرض کیا کہ متحدہ نے پچاس فیصد جعلی ووٹ ڈالے،اور اے این پی کے سو فیصد ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا تو اس صورت میں بھی نتیجہ متحدہ کے چالیس ہزار سے زائد ووٹ ہوتے اور اے این پی دو ہزار سے زائد ووٹ نہ لے سکتی تھی۔ تو کیا چالیس ہزار اور چار ہزار کا کوئی مقابلہ ہوتا؟ کیا اس حلقے میں واقعی کسی مقابلے کی توقع تھی؟ لیکن میڈیا نے ایسا ماحول بنایا گویا کہ متحدہ اور اے ای پی میں کانٹے کا مقابلہ ہے اور بس اے این پی تو یہ سیٹ جیت ہی جائے گی۔ ان گمراہ کن تجزیوں اور ٹاک شوز کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر میں کشیدگی بڑھتی گئی اور بالآخر اس صورتحال نے نوے سے زائد بے گناہ افراد کی جان لے لی۔ اس لئے ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری حکومت اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔

دوسری جانب اس سارے کھیل میں ایک کھلاڑی کا اضافہ ہوا یعنی پیپلز امن کمیٹی-پیپلز امین کمیٹی کیا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ اور اس میں کس ٹائپ کے لوگ شامل ہیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جو کہ ایک دن پہلے تک قتل و غارت گری کا ذمہ دار اے این پی کو قرار دے رہی تھی اچانک اس نے تمام حالات کی ذمہ داری پیپلز امن کمیٹی پر ڈالنا شروع کی اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کے افسوس ناک سانحے کا ذمہ دار بھی پیپلز امن کمیٹی کو قرار دیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ پیپلز امن کمیٹی سردار عبد الرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت عرف خان بھائی نے قائم کی تھی اور رحمان ڈکیت لیاری گینگ وار کا ایک اہم کردار تھا،قتل،اغوا برائے تاوان،منشیات فروشی اور کرائے کے قاتل کے طور پر اس کی شناخت تھی اور اس وقت نبیل گبول پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کررہے ہیں اگرچہ پی پی پی کے ذمہ داران امن کمیٹی کو اوون کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن درحقیقت اس میں پی پی پی کے حامیان ہی شامل ہیں۔ جبکہ لیاری گینگ وار کے دوسرے اہم کردار ارشد پپو گروپ جو کہ رحمان ڈکیت گروپ کا سخت مخالف اور جانی دشمن ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے رابطے متحدہ قومی موومنٹ سے ہیں۔ اس لئے بھی متحدہ قومی موومنٹ کے ذمہ داران امن کمیٹی کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کئے ہوئےہیں۔سانحہ شیر شاہ کا ذمہ دار کون ہے ابھی تک اس کا تعین نہیں ہوسکا ہے لیکن شواہد یہی ہیں کہ اس میں لیاری گینگ وار کے لوگ ملوث ہیں البتہ یہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کاروائی رحمان ڈکیت گروپ المعروف امن کمیٹی کی ہے یا ارشد پپو گروپ کی ہے۔

جاری ہے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520086 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More