مسلسل پانچویں مرتبہ 47کھرب 53ارب کامالی سال 2017-18کے
لیے بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ کی تمام تر تقریر کے دوران میں خود کو کوہ
قاف کی پہاڑیوں میں محسوس کرتا رہا، بجٹ تقریر سننے سے یہ اندازہ ہوا کہ
ڈار صاحب ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے
انہوں نے اصل میں جو اپنی زندگی اوررشتے داروں کے لیے خواب دیکھیں ہیں
دراصل وہ ہی غلط فہمیاں اور خواب بجٹ تقریر کا عنوان دیکر قوم کے سامنے پیش
کردیئے گئے ہیں ۔اگر انہیں پاکستان کی معاشرتی اور اقتصادی حقیقتوں کا پتہ
ہوتا تو وہ اس قسم کی غیرحقیقت پسندانہ تقریر کبھی نہ کرتے ان کی تقریرسے
اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہر طرف خوشحالی ہے غربت ختم ہوچکی ہے اور یہ
کہ اس وقت پاکستان ایک گھنٹہ فی میل کی رفتار سے تیزی سے ترقی کرتا ہوا
ترقی یافتہ ممالک سے بھی کہیں آگے نکل گیا ہے ان کی تقریر کے دوران مجھے
محسوس ہوا کہ جیسے اس ملک میں اب کوئی بھی غریب نہ رہاہے بلکہ سب امراء ہیں
جن کے عالیشان بنگلوں کے باہراعلیٰ قسم کی گاڑیاں وردی میں ملبوس ڈرائیوروں
کے ہمراہ کھڑی ہیں اور لوگ اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر سونے کی اشرفیاں
گننے میں مصروف ہیں ۔قائرین کرام اسحاق ڈار صاحب اگر اپنی سرکاری رہائش گاہ
اور سرکاری گاڑی سے نکل کر دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ کہ اس ملک میں
ان کی ناقص اورعوام دشمن اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی کے شب وروز
کس طرح کٹ رہے ہیں وہ اگر سرکاری دعوتوں اور سونے کے چمچوں سے کھانا کھانے
کی بجائے دو وقت کی بھوک کاٹ کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ عوام اپنے
بچوں کے ساتھ کتنی تکلیف دہ زندگی گزارنے کی کوشش کررہی ہے ،بجٹ تقریر کے
تمام تر دعوے کسی بھی لحاظ سے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے ،اگر آپ ڈسٹرکٹ
لیول اور دیہاتوں میں چلے جائیں تو آپ کو ڈار صاحب کی تقریر سے اور ان
علاقوں میں بسنے والی زندگی میں دور دور تک کوئی رشتہ دکھائی نہ دیگا۔ہم نے
دیکھا کہ ڈار صاحب نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری اور مزدور کی تنخواہ
میں ایک ہزار روہے کا اضافہ کیا یعنی اس کی جیب میں چودہ ہزار ماہانہ کی
بجائے پندرہ ہزار روپے ڈال دیئے ،مگر جس چودہ ہزار روپے کی وجہ سے اس ملک
کا مزدور مشکل سے 10دن نکالتا تھا وہ مزید مہنگائی کی وجہ سے اب پندرہ ہزار
رروپے میں دس کی بجائے پانچ دن مشکل سے گزارے گا۔یعنی ڈار صاحب نے جس
بہادرانہ انداز میں ایک ہزار تنخواہ میں اضافے کا اعلان کیا اسی شاطرانہ
انداز میں دودھ، آٹا گھی ،چینی اور دالوں سمیت ہر چیز پر ٹیکسوں کی بھرمار
کردی ۔بے چارہ مزدور سرپکڑ کررہ جاتا ہے کہ ہ ایک ہزار تنخوا میں بڑھنے کی
خوشیاں منائے یا پھر اشیاء خور دونوش کی قیمتوں میں اضافے کا رونا روئے !!۔جس
وقت وزیرخزانہ صاحب اس ملک کی عوام کا روزگار بمعہ کفن مہنگا کرنے کی
تقریرکررہے تھے اس وقت اس ملک کا کسان سڑکوں پر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں
مصروف تھا یعنی بجٹ پیش کرنے سے قبل حکومت کی کسان پالیسیوں کے خلاف احتجاج
کرنے والے کسانوں کا موقف تھاکہ باردانے کے نام پر ہمیں نواز لیگ کے
پٹواریوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے میرے ایک جاننے والے کسان نے مجھے
بتا یا کہ پنجاب میں اس وقت باردانہ سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر دیا
جارہاہے ،خیر سوچنے والی بات ہے بھلا ڈار صاحب کو اس ملک کے مزدور طبقے اور
کسانوں سے کیا لینا دینا؟ان کا تو پارلیمانی ممبران اور اس ملک کے سرمایہ
دارانہ نظام سے تعلق ہے جن کی مراعات میں اضافہ تو وہ ہر مہینے کی آخری
تاریخوں میں اکثر کرتے ہی رہتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں جہاں قوم
کو مہنگائی کے بموں نے تباہ وبرباد کیا ہے وہاں اس قوم کو عرصہ دراز سے
مختلف انداز میں ہونے والی انتہا پسندی کا بھی سامنا ہے اس حکومت کو عوام
کو ہر حال میں ریلیف دینا چاہیے تھا غیر معیار ی سڑکوں اور ریفرینشڈ لیپ
ٹاپ پر کھربوں روپے کی کرپشن کرنے کی بجائے نوجوان نسل پر پیسہ لگا نا
چاہیے تھا انہیں باعزت روزگار اور بہترین صحت اور تعلیم کے مواقع فراہم
کرنے چاہیے تھے ۔دوستوں بجٹ کو دیکھ کر مجھے اتنا ہی افسوس ہوا جتنا کہ
سعودی عریبیہ کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے لیے رویئے سے ہوا ، وزیراعظم
صاحب تو بڑے طم طراق سے سعودی عریبیہ گئے تھے لیکن وہاں سعودی حکام بمعہ
بادشاہ سلامت بیچارے وزیراعظم پاکستان کو اس ساری تقریب کا بارہواں کھلاڑی
سمجھتے رہے اور خود امریکی صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے ان کے ارد گرد
ناچتے رہے ،اور کھلے سر والی بیگم ٹرمپ سے ہاتھ ملانے کو ترستے رہے ،لہذا
ان کے پاس وزیراعظم پاکستان کے لیے نہ ہی وقت تھااور نہ ہی وہ اس عمل کو
کسی لحاظ سے ضروری سمجھتے تھے کیونکہ ان سعودی حکام کو معلوم تھا کہ یہ
وزیراعظم تو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ان ہی کے مہمان تو بننے والے ہیں
جو کہ تقریبا ایک بار پھر سے دس سال کی مہمان نواز ی ہوگی۔خیر وزیراعظم
صاحب ریاض کے لیے اپنی تیار کی گئی تقریر کو باعزت طریقے سے لیکر وطن واپس
لوٹ آئے کہ اس تقریر کو پاکستان میں ہی کسی دونمبر پاور پلانٹ کے افتتاح کے
موقع پر مقامی لوگوں کو پڑھ کر سنا دینگے ۔مگر ریاض میں مسلسل نظر انداز
کرنے کا سارا غصہ ڈار صاحب کے ساتھ ملکر بیچاری عوام پر نکال دیا،محسوس تو
یہ ہوا کہ اس دورے کی ساری خراب صورتحال کا غصہ ہی اس عوام پر نکالا گیا ہے
اور عوام کو اس طرح کا بجٹ ملا کہ جو چولہا کسی غریب کا مہینے میں کبھی
کبھار جلتا تھاوہ شاید اب کبھی بھی نہ جل سکے گا۔قائرین کرام یہ مسئلہ
وزیرخزانہ اسحق ڈار یا وزیرعظم کا نہیں ہے کہ اس ملک میں سبزی اور دالوں کا
کیا بھاؤ ہے کیونکہ ان لوگوں کے پاس تو پیسے کی چہل پہل ہے ان کی دودھ پیتے
بچے بھی لندن فلیٹوں کے مالک ہیں اوردنیا کے بڑے بڑے ممالک میں کامیاب بزنس
مین بن کر ممی اور پاپا کا نام روشن کررہے ہیں کیونکہ ان کے کاروبار میں
صرف بچت ہی بچت ہے جہاں کاروبار میں گھاٹا لگا اسے غریب عوام کی جیبوں کو
کاٹ کر پوراکرلیا جاتا ہے ۔ختم شد |