پاکستان 1947ء کو وجود میں آیاتو بے سروسامانی کا ایک ا
یسا عالم تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کا حصہ بننے والی
ریاستوں اور صوبوں کی حالت معاشی طور پرمضبوط نہ تھی۔ جس طرح ریاستوں کی
تقسیم میں انگریز نے ڈنڈی ماری تھی اورجموں و کشمیر سمیت متعدد مسلمان
اکثریتی علاقوں کا الحاق ہندوستان سے کردیا تھا ، اثاثوں کی تقسیم میں بھی
یہی رویہ اپنایا گیا۔ سول انتظامی اور فوجی ڈھانچے کی تقسیم کے دوران
پاکستان کے حصے میں وہ سازوسامان آیا جو فرسودگی کی تمام حدوں کو پار کرچکا
تھا۔البتہ خوش قسمتی سے پاکستان کے حصے میں ایک ایسی چیز آئی تھی جس کی
خوبیوں کا اعتراف مخالفین بھی کرتے تھے اور وہ تھی اس وقت کی بے لوث و بے
خوف قیادت اورسچے، کھرے اور قومی جذبے سے سرشار عوام۔ یقینا ان کے عزم اور
انتھک کوششوں نے نومولود پاکستان کو استحکام بخشا۔ انہوں نے اپنے تن ،من
اوردھن کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے وقف کردیا۔ انہوں نے ہندو
لیڈروں کے ان دعوؤں کو کہ پاکستان شاید چند سال ہی اپنا وجود قائم رکھ سکے
گا، اپنے جذبے اور عزم سے ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ وہ ہندو لیڈروں کے عزائم
سے باخبر تھے اسی لئے دفاع ِ وطن کو انہوں نے ہر چیز پر مقدم رکھا۔ بھارتی
لیڈروں نے بھی کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور قیام ِ پاکستان سے
لے کر آج تک ہمارے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔
جموں کشمیرپر غاصبانہ قبضے کے بعد 1965ء میں بھارت نے پاکستان کو ’سبق
سکھانے‘ کی دھمکی دیتے ہوئے لاہور اور سیالکوٹ پر چڑھائی کردی۔ مگر ہمارے
عوام اور فوج کے دلیر سپاہی لاہور جم خانہ میں ’فتح کے پیگ‘ لگانے کا خواب
دیکھنے والوں کے لئے خوفناک خواب بن گئے۔ ان کے لئے یہ ایڈونچر ہمیشہ کے
لئے رستا ہوا ناسور بن گیا۔ جنگ 65ء میں دشمن کی ہزیمت اس بات کا ثبوت تھی
کہ پاکستان کی قیادت بھارتی عزائم سے پوری طرح آگاہ اور اس کی طرف سے کسی
بھی ایڈونچر سے نمٹنے کے لئے مکمل تیار تھی۔ عوام کا جذبہ بھی کم نہیں ہوا
تھا۔ ان میں وہی جوش تھا جس سے وہ پاکستان کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب
ہوئے تھے۔ صرف چند سال بعد1971ء میں خود غرضی اور ہٹ دھرمی کے سورج نے
ہماری حب الوطنی کے چاند کو گرہن لگا دی۔بے لوث قیادت کی جگہ خود غرضی کی
کٹھ پتلیوں نے لے لی جنہوں نے دشمن کے ہاتھوں وہ تماشا کھیلا کہ پاکستان
دولخت ہوگیا! اقبال ؒکا خواب ٹوٹ گیا۔قائدؒ کا پاکستان بٹ گیا۔ ہمارے قومی
تشخص کو وہ گہرا گھاؤ آیا جس کا نشان آج بھی ہم مٹا نہیں سکے۔البتہ اس زخم
نے ہمیں جو سبق سکھائے، آج انہی کی بدولت ہم اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے
ہیں۔ سانحہ کے بعد ٹوٹے اور تباہ حال کارواں نے پھر اپنے سفر کا آغاز کیا
مگر اس عزم کے ساتھ کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دھرایا جائے گا۔
واقعی ایسا ہوا۔ پاکستان نے بھارتی عزائم اور ہندو مکاری کو ذہن میں رکھتے
ہوئے اپنے گھوڑے تیار رکھے۔ قوم نے دفاع ِ وطن کے لئے کسی بھی سمجھوتے سے
انکار کردیا۔ افواج پاکستان نے خود کو منظم اور جدت پر استوار کرتے ہوئے ہر
دم تیار اور ہوشیار رہنے کا عزم کیا۔ خود انحصاری کی منزل کی طرف سفر شروع
ہوا۔ بھارت نے پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے 1974ء میں ایٹمی ہتھیار بنانے
کا آغاز کیا تو پاکستان نے بھی خطے میں طاقت کے توازن اور اپنی سالمیت اور
وقار کی حفاظت کے لئے ایٹمی توانائی کا حصول شروع کردیا۔ اس سفر میں بہت سی
رکاوٹیں آئیں مگر ہر طوفان،ہر آندھی کا مقابلہ ڈٹ کر کیا گیا۔ قوم، فوج،
سیاستدان غرض ہر طبقے کے فرد نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے ایک ہی
موقف اپنایا اور نہ صرف اس کی بھرپور حمایت کی بلکہ عملی طور پر کسی نہ کسی
حوالے سے اس منزل کے حصول میں شریک رہے۔
1998ء میں اس وقت کی بھارتی قیادت نے پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا اور اسے
صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دے کر ہندو جنونیوں اور شدت پسندوں کے دل
موہ لئے۔ پاکستان دشمنی میں وہ اتنے بڑھے کہ ایٹمی دھماکے تک کر ڈالے۔ اس
کے بعد تو پاکستان کے خلاف دھمکیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع
ہوگیا۔ پاکستان کو سبق سکھانے کی تقریروں میں زیادہ شدت اور گرمی آگئی۔ خطے
میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ بھارت کی پاکستان پر ایٹمی حملے کی دھمکیوں کی
بازگشت دنیا بھر میں محسوس کی جانے لگی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ایک نئی
ایٹمی جنگ کا عندیہ دینے لگے۔ امریکہ اور یورپ کے سربراہانِ مملکت اور
زعماء بھارت کی دھمکیوں کی مذمت کرنے کی بجائے پاکستان کو جوابی ایٹمی
دھماکوں سے روکنے کے لئے دباؤ ڈالنے لگے۔پاکستان پر غیرملکی دباؤ کے علاوہ
اندرونی دباؤ بھی کچھ کم نہ تھا۔ مغرب پرست ، روشن خیال نام نہاد تجزیہ
نگار پاکستان کو جوابی ایٹمی دھماکوں سے باز رہنے کا مشورہ دینے لگے۔ کچھ
نے توایٹمی دھماکوں کے بدلے غیروں کی امدادقبول کر لینے کا مشورہ دیا۔
مگرقومی غیروحمیت اور آزادی کو شمع کو تابناک رکھنے کا تقاضا تھا کہ
پاکستان جوابی دھماکے کرکے بھارتی لیڈروں کی دھمکیوں اور شعلہ بیانیوں کا
غرور خاک میں ملا دے اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہ جائے۔
الحمدﷲ ! فیصلہ دانشمندانہ اور پوری قوم کی خواہشوں کے مطابق تھا۔ 28مئی
1998ء کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کا جواب
سات ایٹمی دھماکوں سے دے کر ہندو کے مکروہ عزائم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاک
میں ملا دیا۔ نعرہ تکبیر․․․․ اﷲ اکبر! یہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ہی ہے جو
آج بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی بھی کارروائی سے باز رکھے ہوئے ہے۔ بھارت
نے متعدد مرتبہ پاکستان پر چڑھائی کے لئے متعدد مرتبہ بڑے پیمانے پر اپنی
افواج کو بارڈر پر تعینات کیا، مگر ہر بار اسے افواج پاکستان کے عزم اور
ایٹمی صلاحیت کے پیش نظر ناکام و نامراد ہی لوٹنا پڑا۔آج اس کی جانب سے
پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرئیک کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، کولڈ اسٹارٹ
اسٹریٹجی مرتب کی جارہی ہے، دفاعی سازوسامان کے انبار لگائے جارہے ہیں،
میزائل اور بم تیار کئے جارہے ہیں مگر ہماری ایٹمی طاقت اور افواج کے عزم
کے سامنے یہ سب گیڈر بھبکیاں اور دھمکیاں محض شعبدہ بازیاں ہو کررہ گئی ہیں۔
اسی لیے بھارت ،امریکہ ،اسرائیل پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔
کبھی ان کے غیر محفوظ ہونے کا پراپیگنڈہ کا جاتا ہے تو کبھی ان کے استعمال
کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا لبادہ اوڑھ کربھی
انہوں نے ہمارے اس اثاثے کے خلاف خوب پراپیگنڈہ کیا ہے۔ ان حالات میں ہمیں
خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی نفی کرکے اور قومی جذبوں کو ذاتی
مفادات سے بالا تر رکھ کرہر پاکستانی کو اس قیمتی اثاثے کی حفاظت میں اہم
کردار ادا کرنا ہے کیونکہ اس ظالم دنیا میں ہماری حفاظت، آزادی، خود مختاری
اور وقارکی ضمانت ہمارے جوہری ہتھیار ہیں۔ |