انگریزی تو انگریزی ابھی اردو بھی ٹھیک سے آتی نہیں اور
چند ادبی حلقے کے دوست احباب سے خوش گفتار ہونے کا لقب پاتے ہی خوش فہمی کے
اڑن کٹھولے میں سوار ہو کر موصوف مصنف بننے کا عزم لئے تصنیف سے طبع آزمائ
کا آغاز اپنے ایک آرٹیکل سے کرچکے ہیں۔ یہ تو تھا میرا اپنا تعارف۔ اب میں
اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔
آخر تم ہو کون؟ آئے کہاں سے ہو؟ اور کیوں ہمارے سروں پر سوار ہو؟ ہاں بس
ایک دلیل تمھارے حق میں جاتی ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کا فرمان ہے کہ جیسے
تمھارے اعمال ہوں گے، ویسے ہی حکمران تمھارے سر پر مسلط کر دئے جائیں گے۔
اس دلیل کو ہمیں چاہتے نہ چاہتے اس وقت ماننا ہی پڑتا ہے جب کبھی ہمیں اپنے
گریبانوں میں جھانکنا پڑ جاتا ہے۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو ایک اور سوال
سامنے آتا ہے کہ پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہمارے حکمراںوں کو تبدیل
ہونا چاہئے یا پھر ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ میری اپنی راۓ کے مطابق ہمیں
ان دونوں تبدیلیوں کے لئے سوچنے کی نہیں بلکہ عملی طور پر اس کے حل کے لئے
نہ صرف یہ کہ سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئیے بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے
سر توڑ کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں ہمیں اچھی تبدیلی لانے کے لئے سروں
کو جوڑنے کی ضرورت ہے وہاں ہمیں برائ کو نیست و نابود کرنے کے لئے سروں کو
توڑنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ ہمیں ایک سوچ ہو کر ایک تعمیری عزم کے ساتھ ان
سروں کو توڑنا ہوگا جن میں دولت و اقتدار کی ہوس اور آخرت کی بےخوفی کا راج
ہے۔ ان کے منہ کو عوام کا خون لگ چکا ہے۔ عوام کا خون چوس کر انھوں نے خود
کو پالا ہوا ہے۔
عوام پر بے جا ٹیکسوں کی بھرمار کر کے انھوں نے آنے والی نسلوں کو قرضوں کے
ملبے تلے ایسا دفن کر دیا ہے کہ شاید وہ کبھی بھی قرضوں سے آزاد ہو کر
آزادی کا سانس نہ لے سکیں۔
خدارا بے خوف ہو کر صداۓ حق بلند کریں۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم سب مل کر
دنیا پر یہ ثابت کر دیں کہ ہم حقیقی طور پر ایک باشعور قوم ہیں۔ ہمیں اپنی
حدود میں رہتے ہوۓ اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کو جگانا ہوگا ورنہ نہ صرف
خدا کی عدالت میں پوچھ گچھ ہوگی کہ ہم نے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھائ،
بلکہ ہم آنے والی نسلوں کی اخلاقی عدالت میں بھی مجرم کہلائیں گے۔ جمھوری
نظام میں لوگوں کے پاس سب سے بڑا ھتھیار اور سب سے بڑی طاقت ووٹ کی ہوتی ہے۔
اپنے ووٹ کا استمعال توہم پرستی کی بنیادوں پر کرنے کے بجاۓ جدید تقاضوں کو
مدنظر رکھ کر کریں۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ فتح ہمیشہ حق اور
سچ کی ہوتی ہے۔ "ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے"، بشرطیکہ مظلوم
چاہے۔ ہمیں اپنے اعمال و کردار کو فارمیٹ کر کے فیکٹری سیٹنگ کی ضرورت ہے
کیوں کہ فیکٹری کا مالک جو مالک کائنات ہے، نے ہمیں من جملہ خوبیوں سے
نوازا ہے۔ چناچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے خود کو پہچانیں پھر اپنے ارد
گرد کے سلسلوں کو ترتیب میں لانے کے لئے مستعد ہو جائیں۔ کسی نے کیا خوب
کہا ہے کہ چین کی نیند سونا ہے تو جاگ جاؤ۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔ اب ہم نے
بہت سو لیا اور خواب غفلت کا انجام بھی دیکھ چکے ہیں۔ وقت ہمیں بار بار ویک
اپ کال دے رہا ہے۔ اب جاگنا لازم ہے۔ اس سے پہلے کے اور دیر ہو جاۓ۔ |