کہاں تک سنو گے ،کہاں تک سنائیں

مجھے نواز شریف کے لندن فلیٹس ، زرداری کے آسمانوں پر تعمیر کردہ محلات سے کوئی غرض نہیں ،نہ مسٹر ١٠ پرسینٹ کی بیہودہ اصطلاح سے کچھ لینا دینا ہے . نہ ہی حقیقت میں آزاد عدلیہ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ایک فیصد بھی ”آزاد عدلیہ” درکار ہے ،لیکن ایسے جج اور ادارے درکار ہیں جنکے پائوں میں آئین پاکستان کی زنجیریں پڑی ہوں ،انکے فیصلے حکمت, نظریہ ضرورت اور ہالی ووڈکی فلموں کےزیر اثر نہیں بلکہ قانون پاکستان کے تابع ہوں

پاکستانی سیاستدانوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے ایک آگ کا دریا پار کرتے ہیں تو دو قدم چلنے پر ایک اور کا سامنا ہوتا ہے-

ریاست الباکستان کے سیاستدان جو آئین کی تشریح کے عین مطابق قوم کے حقیقی نمائندے ہیں پچھلی کئی دہایوں سے فوجی مہم جوئی کا شکار تو رہے ہی ہیں لیکن ہماری عدلیہ کا کردار ایک باندی جیسا تھا جو آمروں کے ہر ناجائز عمل پر پایوں میں گھنگرو باندھے ناچ ناچ کر انکو سند قبولیت سے نوازتی رہی اور آج جب آزاد عدلیہ کے نعرے فلک کو چھوتے ہیں اور ساتھ ہی ”سو موٹو” نامی مہلک ہتھیار کو استعمال میں لا کر سیاستدانوں اور نہتی عوام پر اپنی بالادستی کو ثابت کرتے ہیں لیکن ان آئین اور قانون کے رکھوالوں میں اتنی ہمّت نہیں کے قوم سے اپنے ان کالے کرتوتوں پر معافی ہی مانگ لیں جن کی بدولت قوم نے اسلامی کوڑوں کا عذاب جھیلا , سیاستدان اپنے ناکردہ گناہوں کے باوجود پھانسیاں لگے , جلا وطن ہوۓ اور جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیاں انکا مقدربنیں

قوم کے نمائندوں کو پہلے فوجی آمروں سے تو گلہ تھا ہی اور اب سپریم کورٹ میں ایسے جج بھی کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں جو اپنے فیصلوں کو سنانے کا آغاز نہ صرف ہالی ووڈ کی فلموں کے زیر اثر ہو کر فلمی ڈائیلاگ سے کرتے ہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان کو ”گاڈ فادر” سے تشبیہ دے کر نابالغ سیاستدانوں اور فوجی بوٹوں میں ہر دم سجدہ ریز ہونے والے ناہنجاروں کو وافر موقعہ فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں جسکے نتیجے میں وزیر اعظم پاکستان کی سبکی ہو اور دنیا انکے کردار کے بارے سوالات اٹھا سکے ،پاناما کے معاملے پر ”گاڈ فادر” فلم سے ڈائیلاگ بول دینا ہی کافی تھا ناکہ پھر اس پر بے تحاشا کاغذ اور سیاہی کو بھی ضائع کیا جاتا کیونکہ اس ایک لفظ نے آئینی وزیر اعظم کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور انکے صادق اور امین (جو میری رائے میں شائد پیغمبروں کے علاوہ کوئی نہ ہو) ہونے پر سوالات اٹھنے لگے-

جسٹس صاحب کا وزیر اعظم کو ”ڈھکے چھپے الفاظ میں ”گاڈ فادر” قرار دینا آئین پاکستان اور اخلاقیات کے بھی منافی ہے خاص کر اس وقت جب آپ خود ایسے منصب پر سرفراز ہوں جس پر بدنامی اور فوجی اشاروں پر ناچنے والی رنڈی جیسے سنگین الزامات سہرے کی ماند سجے ہوں اور آپ نے ابھی تک اپنے بیہودہ کردار سے بظاھر کنارہ کشی اختیار نہ کی ہو ; سیاستدانوں پر پتھر پھینکنے سے قبل کاش یہ سوچ لیتے کہ انکی طرف پہلا پتھر وہ پھینکے گا جسکا اپنا دامن صاف ہو یا قوم کے سامنے اپنے شرمناک ماضی پر معافی ہی مانگ لیتے ،پچھلے کئی سالوں سے ذوالفقارعلی بھٹو کی لاش حصول انصاف کے لئے عدلیہ کے دروازے پر پڑی ہے لیکن یہ جج اسے انصاف دینے سے آج بھی ایسے ہی گریزاں ہیں جیسے آج سے سینتیس برس قبل تھے ،بھٹو کو انصاف دینا انکے اپنے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے جسے یہ پہلو تہی برتیں گے لیکن سیاستدانوں اور عوامی حکمرانوں کے چہروں پر یہی کالک ملکر انھیں عوام کی نظروں میں داغدار کرنے سے کبھی نہیں چونکیں گے-

ان ججز کی چھڑی آج بھی کرپشن ختم کرنے کے نام پر سیاستدانوں پر برس رہی ہے اور ماضی قریب میں انکا پہلا شکار جناب یوسف رضا گیلانی تھے جنکو عدالتی حکم پر وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور اسکے برعکس لاہور میں ٣ افراد کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو اپنے فوجی آقاؤں کی خواہشات کو پایہ تکمیل پہنچا کر رہا کیا اور ایک دفعہ پھر خود کو طاقتور ادارے کا دم چھلا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،زیادہ عرصے کی بات نہیں جب ایک فوجی بگھوڑا جس پر بینظیر ،اکبر بگٹی کے قتل سمیت آئین سے بغاوت کے سنگین مقدمات درج ہیں اسکو اپنی نگرانی میں فرار کروانے میں بھی اپنا مکروہ کردار ادا کیا
کہاں تک سنو گے ،کہاں تک سنائیں ،پنتالیس ،پچاس سال پر محیط جانبداری اور اشارے آبرو پر دھمال ڈالنے کی یہ داستان عدلیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے-

ہم سب پاکستانی احتساب چاہتے ہیں ،ہم وزیر اعظم اور انکے ساتھیوں کو سولی یر لٹکتے ہوۓ دیکھنا چاہتے ہیں ،پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ وزیر اعظم اور ایک سول حکمرانی کا قائم ہونا ہے ،ہم اسے ہر صورت چھٹکارا پانا چاہتے ہیں شائد ہماری نفسیات میں تشدد اور خون نے اپنی جگہ بنا لی ہے لیکن ساتھ ساتھ بےسروپا کہانیاں گھڑنے ،سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے , عجیب غریب دلائل دینے اور اپنی پسند کے فیصلے دینے میں بھی قدرت حاصل کر لی ہے ،قانون اور منطق کے مضامین جو پوری دنیا میں قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ،ہمارے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں-

ہم دوسروں کی دولت پر سوال اٹھاتے ہیں اور اپنی ان تجوریوں پر نظر رکھنے سے قاصر ہیں جو دوسروں کے حقوق تلف کر کہ بھری گئیں ہیں ،ہم عدلیہ اور ان تمام مقتدر اداروں سے یہ سوال پوچھنے سے انکاری ہیں کو آخر پاکستان میں ایسی کونسی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے سیاستدانوں سمیت عوام کو بھی اپنی پیسہ دوسرے ممالک منتقل کرنا پڑا،اسکا جواب نہیں ملے گا کیونکہ پاکستان میں ایسا ماحول بنانے اور اسے دوام بخشنے میں عدلیہ کا تاریخی کردار رہا ہے-

مجھے نواز شریف کے لندن فلیٹس ، زرداری کے آسمانوں پر تعمیر کردہ محلات سے کوئی غرض نہیں ،نہ مسٹر ١٠ پرسینٹ کی بیہودہ اصطلاح سے کچھ لینا دینا ہے . نہ ہی حقیقت میں آزاد عدلیہ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ایک فیصد بھی ”آزاد عدلیہ” درکار ہے ،لیکن ایسے جج اور ادارے درکار ہیں جنکے پائوں میں آئین پاکستان کی زنجیریں پڑی ہوں ،انکے فیصلے حکمت, نظریہ ضرورت اور ہالی ووڈکی فلموں کےزیر اثر نہیں بلکہ قانون پاکستان کے تابع ہوں ،ہمیں ایسی عدالت اور جج سے کچھ لینا دینا نہیں جو کمزوروں کا تو احتساب کریں اور اپنے سے طاقتور کو دیکھ کر نظریں جھکا لیں-

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ سول اداروں کا کمزور ہونا ہے جس کو ناکام کرنے میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے -
 

Democrat
About the Author: Democrat Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.